انسان اس زمین پر کئی ہزار سال سے آباد ہے ۔ہر معاشرہ اور ہر فرد‘ اجتماعی اور انفرادی حیثیت سے مختلف طرح کی پریشانیوں اور تکالیف کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ ان پریشانیوں اور تکالیف سے نجات حاصل کرنا یقینا ہر انسان کی خواہش ہے۔ دکھوں سے نجات حاصل کرکے حقیقی خوشیوں کو حاصل کرنا ہر انسان کا ہدف ہے۔ ماہرینِ نفسیات، ماہراطبا ، مفکرین اور دانشور اپنے اپنے انداز میں پریشانیوں اور تکالیف کے اسباب اور ان کے تدارک کے حوالے سے اپنی اپنی آرا پیش کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب اور رسول کریمﷺ کے اسوہ سے اس حوالے سے نہایت خوبصورت انداز میں مکمل رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ کتاب اللہ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پریشانیوں اور تکالیف کے دو بڑے اسباب ہیں۔1: آزمائش، 2: گناہ۔
پریشانیاں اہلِ دین ، اہل تقویٰ اور اہل علم کے لیے ایک آزمائش کی حیثیت سے آتی ہیں۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور البتہ ہم ضرور آزمائیں گے تمہیں‘ کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے) ‘‘۔اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کو آزماتے ہیں۔ان تکالیف سے نکلنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو راستے بتلائے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1۔ صبر : آزمائش کی صورت میں خندہ پیشانی سے انسان کو تمام تکالیف کو برداشت کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیات 155 سے 157 میں ارشاد فرماتے ہیں:''اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو ۔ وہ لوگ کہ جب پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں: بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔
2۔ توکل: اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنے والے شخص کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ خود کافی ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 3میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اللہ پر بھروسا کرے تو وہ کافی ہے اُسے ‘ بے شک اللہ پورا کرنے والا ہے اپنے کام کو اور یقینا اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ‘‘۔
3۔ دُعا: اللہ تبارک وتعالیٰ ہر آن اور ہر لحظہ اپنے بندے کی دُعاؤں کو سننے والے ہیں؛ چنانچہ جب بندے تکالیف اور پریشانیوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی دُعاؤں کو قبول فرماتے ہیں۔ اس حوالے سے انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت میں ہمارے لیے بہت بڑا سبق موجود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں حضرت یونس اور حضرت ایوب علیہما السلام کے واقعات کا ذکر کیا جن کی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارنے کی وجہ سے دور ہو گئیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دونوں انبیاء کرام علیہما السلام کے واقعات کا ذکر قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر کیا ہے جن میں سورہ انبیاء بھی شامل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیات 83 تا 84میں حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا کا ذکر کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور ایوب علیہ السلام کو (یاد کیجئے) جب انہوں نے پکارا اپنے رب کو کہ بے شک پہنچی ہے مجھے تکلیف اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے رحم کرنے والوں میں۔ تو ہم نے دعا قبول کر لی ان کی‘ پس ہم نے دور کر دی جو ان کو تکلیف تھی اور ہم نے دیے انہیں ان کے گھر والے اور ان کی مثل (اور لوگ بھی) ان کے ساتھ رحمت کرتے ہوئے اپنی طرف سے اور (یہ) نصیحت ہے عبادت کرنے والوں کے لیے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی دُعا کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو غم سے نجات دی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیات 87 تا 88میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور (یاد کیجئے) مچھلی والے (یونس) کو جب وہ چلا گیا ناراض ہو کر‘ پس اس نے سمجھا کہ ہر گز نہیں ہم تنگی کریں گے اس پر تو اس نے پکارا اندھیروں میں کہ کوئی معبود نہیں تیرے سوا تو پاک ہے بے شک میں ہی ہوں ظالموں میں سے۔ تو ہم نے دعا قبول کر لی اس کی اور ہم (نے) نجات دی اسے غم سے اور اسی طرح ہم نجات دیتے ہیں ایمان والوں کو‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو غم سے نجات دی تھی‘ اسی طرح اہلِ ایمان کے غموں کو بھی دور کرنے پر قادر ہیں۔
پریشانیوں اور تکالیف کے آنے کا دوسرا سبب انسانوں کے گناہ ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو کلامِ حمید کے مختلف مقاما ت پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو (بھی) تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ درگزر کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 41میں ارشاد فرماتے ہیں: ''فساد ظاہر ہو گیا خشکی اور سمندر میں اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے تاکہ (اللہ) مزا چکھائے اُنہیں بعض (ان امور کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں (یعنی باز آ جائیں)‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب انسانی سماج بکثرت اللہ کی نافرمانیاں کرتا ہے تو اس سماج یا معاشرے میں بہت بڑا فساد ظاہر ہو تا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں ایک بستی کا ذکر کیا جس کو اللہ نے رزق ، امن اور اطمینان جیسی تین بڑی نعمتوں سے نوازا تھا لیکن جب انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان پر بھوک اور خوف کو مسلط کر دیا۔ سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں ارشاد ہوا: ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی، اطمینا ن والی اور آتا تھا اس کے پاس رزق کھلا ہر جگہ سے‘ تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی، تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے‘‘۔ مندرجہ بالا آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانوں کے گناہ ان کی زندگی میں آنی والی تکالیف اور پریشانیوں کا ایک بڑا سبب ہیں‘ انسان کو ایسی صورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ جب انسان اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی جملہ خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ سورہ زمر کی آیت نمبر 53میں ارشا د ہوا: '' آپ کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر‘ نااُمید نہ ہو جاؤ اللہ کی رحمت سے، بے شک اللہ بخش دیتا ہے سب گناہوں کو‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان میں شرک، قتل اور زنا جیسے کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا اور ان گناہوں کے بعد کی جانے والی توبہ اور عمل صالح کی صورت ان گناہوں کی معافی کا ذکر کیا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امر کو واضح فرما دیا کہ سچی توبہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ ان گناہوں کو نیکیوں کے ساتھ بھی تبدیل فرما دیتے ہیں۔ سورہ فرقان کی آیات 68سے 70میں ارشاد ہوا: ''اور وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو اور نہ وہ قتل کرتے ہیں اس جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ (کام) کرے گا‘ ملے گا سخت گناہ (کی سزا) اس کو۔ دگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن اور وہ ہمیشہ رہے گا اس میں ذلیل ہو کر مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل کیا‘ نیک عمل تو یہی لوگ ہیں (کہ) بدل دے گا اللہ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بڑے بڑے کبیرہ گناہوں کو توبہ کی وجہ سے معاف فرما دیتے بلکہ ان کو نیکیوں میں بھی تبدیل فرما دیتے ہیں۔
قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان تقویٰ کے راستے کو اختیار کر لیتا ہے یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرتے ہوئے گناہوں سے اجتناب کرنا شروع کر دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں۔ سورہ طلاق کی آیات 2 تا 3 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اُس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے (وہاں سے) جہاں سے وہ گمان (بھی) نہیں کرتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجیدمیں مغضوب اقوام کا ذکر کیا جن میں قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم مدین اور قوم لوط شامل ہیں۔ ان قوموں کی تباہیوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ اس بات کا ذکر فرماتے ہیں کہ اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان اور تقویٰ کے راستے کو اختیار کر لیتے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے لیے آسمان اور زمین سے برکات کے دروازوں کو کھول دیتا۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 96میں ارشادہوا: ''اور اگر واقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے (تو) ضرور ہم کھول دیتے اُن پر برکتیں آسمان سے اور زمین سے‘‘۔
چنانچہ اگر تکالیف انسان کی آزمائش کے لیے ہوں تو انسان کو توکل، صبر اور دُعا کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر تکالیف کا سبب اس کے گناہ ہوں تو انسان کو دُعاؤں کے ساتھ ساتھ توبہ ، استغفار،تقویٰ اور صدقہ کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کی تکالیف اور مصائب کو دور فرمائے، آمین!