"AIZ" (space) message & send to 7575

انسانی حقوق

عصرِ حاضر میں انسانوں کے حقوق کو بہت زیادہ اجاگر کیا جاتا ہے ۔ خصوصاً مغرب میں انسانی حقوق کا نعرہ بڑی شدومد سے لگایا جاتا ہے۔ ہر شخص کو آزادی ٔ اظہار ِ رائے اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے، لیکن وہاں پر عملی حوالے سے بہت سے تضادات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بہت سے اہم تاریخی واقعات کے بارے میں لب کشائی کی اجازت نہیں۔ اس کے برعکس کئی مغربی معاشروں میں (معاذ اللہ) توہین اسلام اور توہین رسالت کے ارتکاب کے ذریعے مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہے۔ اسی طرح کئی مغربی ممالک میں مسلمان عورتوں کو حجاب اور نقاب اُوڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یورپ ہی کے ایک ملک میں مساجد کے میناروں پر پابندی عائد ہے لیکن ان تمام تضادات کے باوجود یورپ کو آزادیٔ اظہارِ رائے کا علمبردار اور سرخیل قرار دیاجاتا ہے اور بہت سے دانشور ان کے اس دعوے کی تائید کی بھی کرتے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں بھی انسانی حقوق اور آزادی ٔ اظہار کے حوالے سے بہت سی باتیں سننے کو ملتی رہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ انسانوں کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہونی چاہیے اور کسی کو دوسرے پر جبر نہیں کرنا چاہیے۔ انسانی حقو ق کی پاسداری کے حوالے سے ہمارے دینِ اسلام کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس ریاست میں اسلام اور آئین کے دائرے رہتے ہوئے تمام شہریوں کو اپنی مرضی کے ساتھ زندگی گزارنے کا مکمل حق دیا گیا ہے؛ تاہم یہ ایک تشویشناک امر ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے بہت سے ایسے قوانین پر کام کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جو اسلامی تعلیمات اور آئین کی روح سے یکسر متصادم ہیں۔ ان میں بالجبر تبدیلیٔ مذہب کو روکنے کا قانون اور گھریلوتشدد سے متعلقہ بل شامل ہیں۔ اس حوالے سے دینی رہنما اور علماء کرام اپنی اپنی آرا کا مختلف فورمز پر اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔
سوموار کو اسلام آباد میں وزار ت ِ انسانی حقوق کے زیرِ اہتمام اس حوالے سے ایک سیمینار کا بھی انعقاد کیا گیاجس میں تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے جید علماء کرام کو مدعو کیا گیا تھا جن میں حافظ عبدالغفار روپڑی، ڈاکٹر عبدالغفور راشد، مولانا محمد حسین اکبر، حافظ زبیر احمد ظہیر، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، قاری یعقوب شیخ، مولانا امیر حمزہ ، مولانا فہیم الحسن تھانوی اور دیگر اہم شخصیات شامل تھیں۔ سینیٹر اعجاز چوہدری کے زیرِ صدارت ہونے والے اس پروگرام میں ملک میں قانونی اعتبار سے سامنے آنے و الے مسودات کے حوالے سے علماء کرام کی آرا طلب کی گئی تھیں۔ تمام علماء کرام نے اپنے اپنے انداز میں گفتگو کی اور اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ اگر ہم حقیقت میں پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں رسول اللہﷺ کی سیرتِ طیبہ اور خلافت راشدہ کے طرزِ حکمرانی سے صحیح طور پر استفادہ کرنا چاہیے۔ بصورت دیگر ہمارا یہ دعویٰ حقائق کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہو گا۔ اس موقع پر مجھے بھی اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی جن کو میں کچھ ترمیم و اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
''قرآنِ مجیدکے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک دین فقط اسلام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ آلِ عمران ہی کی آیت نمبر 85میں ارشاد ہوا: ''اور جو تلاش کرے اسلام کے سوا (کوئی اور) دین‘ تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ا س سے اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والے لوگوں میں سے ہو گا‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اور قابلِ قبول دین صرف اسلام ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کی عقائد، عبادات، معاملات اور نظریات کے حوالے سے کامل رہنمائی کرتا ہے۔ اہلِ اسلام کو اپنی زندگیوں کوکتاب وسنت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہر عہد کے مسلمان اس حوالے سے اپنے اپنے انداز میں سرگرم رہے ہیں۔ مسلم حکمرانوں نے مختلف ادوار میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کا نفاذ کیا اور علمائے حق نے اس دین کا ابلاغ کیا اور یہ دین پوری دنیا میں پھیل گیا۔ ایک لمبا عرصہ دنیا میں غالب رہنے کے بعد مسلمان اپنی بدعملیوں کی وجہ سے سیاسی طور پر کمزور ہوئے اور دنیا کے مختلف مقامات پر حکمرانی اور غلبے سے محروم ہوتے چلے گئے۔ برصغیر میں ایک طویل عرصہ تک حکومت کر نے کے بعد انگریز سامراج نے برصغیر کی زمام کار سنبھال لی۔ انگریز کے چلے جانے کے بعد جدید جمہوری نظام کے متعارف ہونے کی وجہ سے اس بات کا خدشہ تھا کہ مسلمان ہندوستان میں مغلوب رہیں گے؛ چنانچہ قائدینِ تحریک پاکستان نے ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لیے مسلمانوں کو بیدار کیا اور طویل سیاسی جدوجہد کے بعد مسلمان اپنے لیے ایک قطعہ ارضی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس آزاد وطن کے قیام کا مقصد اہلِ وطن کو دیگر حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت کی عملداری کو بھی یقینی بنانا تھا۔ کتاب وسنت کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے قرار دادِ مقاصد کے ساتھ ساتھ آئین میں بھی کتاب وسنت کی بالا دستی کی بھرپور انداز میں یقینی دہانی کرائی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ حرمتِ رسول اللہﷺ اور ختمِ نبوت کو آئینی اعتبار سے پاکستان کے قانون کا حصہ بنا دیا گیا لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ اس دور میں بھی آئینی اعتبار سے پاکستان کی جہت کو تبدیل کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ وزیراعظم صاحب نے ریاست مدینہ کے ماڈل کو اپنانے کا وعدہ کیا‘ اس کے باوجود دیکھنے میں آیا کہ پاکستان میں اس دور میں بھی کئی ایسے بلوں پر کام کیاگیا جو اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ گھریلو تشدد کے بل میں مغربی طرزِ زندگی کی جھلک نمایاں ہے۔ اسلام میں اس بات کا کوئی تصور موجود نہیں کہ باپ اپنی اولاد کی تربیت اور اُن کو نظم وضبط میں لانے کے لیے اپنا کردار ادا نہ کرے یا شوہر اپنی بیوی کی اصلاح کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کرے۔ گھریلو تشدد کے بل کے ذریعے والد اور شوہر کے اختیارات کو محدود ہی نہیں بلکہ مسدود کر دیا گیا ہے جو کسی بھی طور پر اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔اس کے ساتھ ساتھ ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بہت سے واقعات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ریپ اور قتل وغارت گری کے واقعات کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے جاتے حالانکہ اس حوالے سے ریاست کو بھرپور طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے اور قومی اسمبلی میں پاس ہونے والی قرار داد کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔
حالیہ ایام میں پیش ہونے والا تبدیلیٔ مذہب کا بل بھی مکمل طور پر اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے۔ اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا چنا ہوا دین ہے اس دین کو اختیار کرنے کے راستے میں رکاوٹوں کو کھڑا کرنا کسی بھی طور پر قابلِ قبول نہیں۔ اسلام کو قبول کرنے والے لوگوں میں جہاں قرونِ اولیٰ میں مردوں میں سیدنا صدیق اکبرؓ اور خواتین میں سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓ شامل تھیں‘ وہیں پر بچوں میں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؓ نے اسلام قبول کرکے ایک مثال قائم کی کہ کمر عمری میں بھی اس دین کی سربلندی کے لیے کام کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے اربابِ اقتدار و اختیار کو اپنے طرزِ عمل پر بڑی شدومد سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی دعوت دینا ایک عظیم کام ہے اور دعوتِ دین کو قبول کرنے والے لوگ یقینا ہر اعتبار سے خوش نصیب ہیں لیکن دعوت دینے والے کو مجرم بنا دینا اور خوش نصیبی اور سعادت مندی کی خواہش رکھنے والے لوگوں پر اس کے دروازے کو بند کر دینا ہر اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔ اگر وزیراعظم صاحب صحیح طور پر پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ان کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا کرنا چاہیے اور حقیقت میں کتاب وسنت کی تعلیمات کے مطابق پاکستان میں قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔ ریاستِ مدینہ کا نعرہ لگا کر ایسے اقدامات کرنا‘ جو اسلام کی روح سے ہم آہنگ نہ ہوں‘ کسی بھی طور پر درست نہیں‘‘۔
شرکائے مجلس اور علمائے کرام نے میرے خیالات سے بھرپور طریقے سے اتفاق کیا۔ اعجاز چوہدری صاحب نے بھی اس موقع پر ہونے والی گفتگو کو توجہ سے سنا اور اپنا موقف دردِ دل سے بیان کیا کہ پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے وہ اربابِ اقتدار و اختیار کو بھرپور طریقے سے مشورہ دیں گے اور اس سلسلے میں علماء کرام کی آرا سے بھرپور طریقے سے استفادہ کیا جائے گا۔ تقریب کا اختتام ایک عصرانے کی شکل میں ہوا اور یوں یہ تقریب بہت سی خوبصورت یادوں کے ہمراہ اختتام پذیر ہو گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں