"AIZ" (space) message & send to 7575

تحفظ ِختم ِنبوت اور پنجا ب اسمبلی کی قرار داد

اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات میں انسانوں کو جو مقام عطا کیا‘ وہ کسی بھی ذی شعور اور صاحبِ علم سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التین کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں: '' بلاشبہ یقینا ہم نے پیدا کیا انسان کو بہترین شکل وصورت میں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل میں بھی انسانوں کی عظمت کوبڑے خوبصورت اندازمیں واضح کیا۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 70میں ارشاد ہوا: ''اور یقینا ہم نے عزت دی بنی آدم کو اور ہم نے سوار کیا انہیں خشکی اور سمندر (میں) اور ہم نے رزق دیا انہیں پاکیزہ چیزوں سے اور ہم نے فضیلت دی انہیں بہت (سی مخلوقات) پر ان میں سے جنہیں ہم نے پیدا کیا‘‘۔ قرآنِ مجیدکے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ صراطِ مستقیم سے انحراف کرتے ہیں‘ وہ چوپایوں کی مانند بلکہ ان سے بھی زیادہ بدتر ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 179میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور پس تحقیق ہم نے پیدا کیے جہنم کے لیے بہت سے جن اور انسان‘ اُن کے دل ہیں (لیکن) وہ سمجھتے نہیں اُن سے اور اُن کی آنکھیں ہیں (لیکن) وہ دیکھتے نہیں اُن سے اور اُن کے کان ہیں (لیکن) وہ سنتے نہیں اُن سے‘ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ وہ (اُن سے بھی) زیادہ گمراہ ہیں‘ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہیں‘‘۔ اس کے مد مقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اُن لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے چُنے ہوئے اور برگزیدہ لوگوں میں شامل فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ان تابعدار بندوں کا ذکر سورہ نساء کی آیت نمبر 69میں یوں فرماتے ہیں: ''اور جو اطاعت کرے اللہ اور (اُس کے) رسول کی تو وہ لوگ (ان کے) ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا‘ نبیوں میں سے اور صدیقین اور شہدا اور نیک لوگوں (میں سے) اور بہت خوب ہیں وہ لوگ رفاقت کے لحاظ سے‘‘۔ یہ چار انعام یافتہ طبقات یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل کے حق دار ہیں۔ صالح لوگ اپنی پوری زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری میں گزارتے ہیں اور اپنے ایمان کی شہادت اپنے قول وعمل سے دیتے ہیں، ان کے مدمقابل شہدا اپنی گردن کو کٹوا کر اپنے ایمان کا ثبوت فراہم کرتے جبکہ صدیقین کے ایمان کی گواہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے دی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ صدیقین کے حوالے سے سورہ زمر کی آیت نمبر 33میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو(رسول) آیا سچ کے ساتھ اور تصدیق کی اُس کی (جن لوگوں نے)‘ وہی لوگ متقی ہیں‘‘۔
انبیا کرام علیہم السلام کی عظیم جماعت کو یہ شرف حاصل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن سے کلام فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا ذکر سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 51میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''اور کسی بشر کے لیے (ممکن) نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی (الہام) کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا (یہ کہ) وہ کوئی رسول (فرشتہ) بھیجے تو وہ وحی پہنچاتا ہے اس کے حکم سے جو وہ (اللہ) چاہتا ہے‘‘۔ اس شرف کی وجہ سے انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت دیگر نیک لوگوں سے ممتاز ٹھہری۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے تمام رسولوں پر یکساں ایمان لانا اہلِ ایمان پر فرض ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 285میں ارشاد فرماتے ہیں: '' ( اور کہتے ہیں) نہیں ہم فرق کرتے کسی ایک کے درمیان اس کے رسولوں میں سے‘‘۔
جہاں پر رسل اللہ پر ایمان لانا مومنوں کی ذمہ داری ہے‘ وہیں پر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ نے بعض رسولوں کا مقام بعض رسولوں سے بلند فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 253میں ارشاد فرماتے ہیں:
''ہم نے فضیلت دی ہے اُن (رسولوں) میں سے بعض کو بعض پر ان میں سے (کوئی ایسا ہے) جس سے ہم کلام ہوا اللہ اور بلند کر دیا اُن میں سے بعض کے درجات کو اور ہم نے دیں عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں اور ہم نے مدد کی ان کی روح القدس (جبریل) سے‘‘۔
جمیع انبیا کرام علیہم السلام میں سے جو شرف اور مقام اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو عطا کیا وہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوا۔ آپﷺ اپنے سے پیشتر انبیاء کرام کے مقابلے میں جمیع انسانیت کے مقتدیٰ اور پیشوا بن کر آئے۔ آپﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی القبلتین بنایا۔ آپﷺ ساقیٔ حوضِ کوثر اور شافعِ روزِ محشر اورصاحبِ مقامِ محمود ہیں۔ آپﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فصاحت ، بلاغت اور سیرت وکردار کی رفعتوں سے ہمکنار فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے برگزیدہ رسولﷺ کے اعزازات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو خاتم النبیین بنا دیا اور نبوت و رسالت کو آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر تمام فرما دیا؛ چنانچہ سور ہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں ارشاد ہوا: ''نہیں ہیں محمد (ﷺ) باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے‘ لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی ) ہیں‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہت سی احادیث مبارکہ میں اس وصف کے حوالے سے کئی اہم باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری، صحیح مسلم، مسند احمد بن حنبل اور سنن الکبریٰ بیہقی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اور سابق نبیوں کی مثال ایک شخص کی ہے‘جس نے ایک خوب صورت گھر بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھو ڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کراس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے‘ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کے لوگوں پر انبیاء کرام حکومت کرتے رہے اور ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ جب ایک نبی کا وصال ہوجاتا تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا۔ میرے بعدکوئی نبی تو نہیں ہوگا؛تاہم خلفا ہوں گے اور تعداد میں بہت ہوں گے۔
سنن ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد تیس بڑے جھوٹے (کذاب) آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے‘ جبکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
صحیح بخاری میں حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنگ تبوک کے لیے نکلے تو آپﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنانائب مقررکیا۔ حضرت علیؓ نے عرض کی کہ کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑکرجانا چاہتے ہیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ اے علیؓ! کیا آپ اس بات پر خوش نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو موسیٰ سے ہارون (علیہما السلام) کو ہے؛ البتہ میرے بعدکوئی نبی نہیں۔
نبی کریمﷺ کو آخری نبی مانے بغیر کوئی بھی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اس عقیدے کے تحفظ کے لیے برصغیر پاک وہند کے علما نے تحریک ختم نبوت کے دوران مضبوط اور منظم تحریک چلائی اور بالخصوص پاکستان کے طول وعرض میں اس عقیدے کے تحفظ کے لیے رائے عامہ کو بیدار کیا اور مذہبی جدوجہد کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے بھی اس تحریک کو آگے بڑھایا، بالآخر پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک قرار داد کے ذریعے ختمِ نبوت کے منکروں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا اور یہ عظیم امر پوری دنیا میں ایک حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔
1974ء سے لے کر آج تک کئی مرتبہ ختم نبوت کے منکرین نے آئین میں رخنہ اندازی کی کوشش کی لیکن رائے عامہ کی بیداری کی وجہ سے ہمیشہ ناکام رہے۔ حالیہ ایام میں پنجاب اسمبلی میں اس حوالے سے ایک اہم قرار داد منظور کی گئی ہے کہ ختم نبوت سے متعلق قرآنِ پاک کی آیات اور احادیث ترجمے کے ساتھ تمام سرکاری دفاتر میں نمایاں مقام پر اور اضلاع کے داخلی اور خارجی راستوں پر آویزاں کی جائیں۔ پنجاب اسمبلی میں منظور ہونے والی اس قرار داد کے نتیجے میں یقینا لوگوں میں ختم نبوت کے عقیدے کے حوالے سے شعور اور آگاہی پیدا ہو گی اور اس نظریے کی اہمیت رائے عامہ میں مزید اجاگر ہو گی۔ پنجاب اسمبلی کی اس قرار داد کے محرکین اور اس کی سرپرستی کرنے والے یقینا ہر اعتبار سے لائقِ تحسین ہیں کہ انہوں نے ایک ایسا کام انجام دیا جو اُمت مسلمہ کے دل کی آواز تھی اور آئین کی نظریاتی ساخت کی ترجمان تھی۔یقینا اس قرار داد کو پیش کرنے والوں نے دین کی حمایت کی اور نظریۂ پاکستان کے تحفظ کے لیے موثر کردار ادا کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس قرار داد کے محرکین اور معاونین کو جزائے خیر دے اور ہم سب کو مل جل کر ختمِ نبوت اور ناموس رسالت کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں