اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو کائنات میں انتہائی بلند مقام عطا کیاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ تین کی آیت نمبر4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بلاشبہ ہم نے پیدا کیا انسان کو بہترین شکل وصورت میں‘‘۔ سورہ اسراء کی آیت نمبر 70میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بلاشبہ ہم نے عزت دی بنی آدم کو اور ہم نے سوار کیا انہیں خشکی میں اور سمند ر (میں) اور ہم نے رزق دیا انہیں پاکیزہ چیزوں سے اور ہم نے فضیلت دی انہیں بہت (سی مخلوقات ) پر ان میں سے جنہیں ہم نے پیدا کیا‘‘۔ انسانوں میں سے جو مقام اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کی مقدس جماعت کو عطا کیا ہے وہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے انبیاء کرام علیہم السلام کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود ان سے کلام فرمایاجس کی تین صورتیں تھیں؛ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 51میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور کسی بشر کے لیے (ممکن) نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی (الہام) کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا (یہ کہ) وہ کوئی (فرشتہ) بھیجے تو وہ وحی پہنچاتا ہے اس کے حکم سے جو وہ (اللہ) چاہتا ہے‘‘۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی مقدس جماعت میں سے صاحبِ شریعت رسل اللہ کا مقام انتہائی بلند ہے۔ صاحبِ شریعت رسل اللہ میں سے اولوالعزم رسولوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نمایاں مقام عطا فرمایا۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور رسول اللہﷺ کی زندگی اس اعتبار سے ہمارے لیے ایک مثال ہے کہ ان تمام ہستیوں نے توحید کی دعوت کیلئے اپنے آپ کو ہمہ وقت وقف کیے رکھا۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے بستی والوں کی مخالفت کی پروا کیے بغیر صبح وشام ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دی۔ سیدنا نوح علیہ السلام کو اس حوالے سے مختلف ابتلاؤں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ کوہِ استقامت بنے رہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت کدے میں جا کر بتوں کوتوڑ کرتوحید کا پھریرا لہرایا۔ آپ نے نمرود کی بھڑکائی گئی آگ میں کودنا گوارا کر لیا، دربارِ نمرود میں صدائے توحید کو بلند فرمایا، اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے اپنی بیوی سیدہ ہاجرہ اور نوزائیدہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا۔ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر کم سن حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے پر بھی آمادہ وتیار ہوگئے، ان کے علاوہ بھی آپ کو کئی آزمائشوں کی سامنا کرنا پڑا مگر آپ یکسو ہو کر توحید کی دعوت دیتے رہے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے راہِ حق میں فرعون کی رعونت کو نہیں دیکھا، قارون کے سرمائے کو خاطر میں نہیں لائے، ہامان کے منصب اور شداد کی جاگیر کی پراو کیے بغیر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے اور اپنی جدوجہد کے حوالے سے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بستی والوں کی مخالفتوں کی پروا کیے بغیر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کو پوری شان اور استقامت کے ساتھ بیان کیا اور یوں کائنات کی تاریخ کو روشن فرما دیا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شان اور مقام اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت رسول اللہﷺ کو عطا کیا وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی عظیم الشان جماعت میں ایک منفر د حیثیت کا حامل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو مخلوقات میں سے سب سے بلند مقام عطا فرما یا۔ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ہر مسلمان کی والہانہ وابستگی ہے اور وہ اس کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتا ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے ہم پر مختلف حقوق ہیں جن کی ادائیگی کے بعد ہی ہم صحیح معنوں میں رسول کریمﷺ سے وابستگی کا دعویٰ کر نے میں حق بجانب ہو سکتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کے مختلف حقوق‘ جو ہمارے ذمہ واجب الادا ہیں‘میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ آپﷺ کی عظمت کا احساس: نبی کریمﷺ کا پہلا حق ہم پر یہ ہے کہ ہماری فکر اور ہمارے شعور میں آپﷺ کی عظمت کا احساس رچا اور بسا ہونا چاہیے اور ہمارا آپﷺ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جمیع کائنات میں سے کوئی ہستی اور کوئی شخصیت بھی حضرت رسول اللہﷺ کی عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ آپﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب، خلیل اور رسول ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو جمیع کائنات کا ہادی اور مقتدیٰ بنا کر آپﷺ کی ذات اقدس پر نبوت ورسالت کو تمام کر دیا ہے اور نبی کریمﷺ کے بعد کسی کے نبی یا رسول ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔
2۔ آپﷺ کی محبت: نبی کریمﷺ سے ہمیں والہانہ محبت ہونی چاہیے اور کسی بھی شخص کی محبت آپﷺ کی محبت سے بڑھ کر نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ،رسولﷺ اور جہاد فی سبیل اللہ کی محبت کے مقابلے میں جائز محبتوں کو اہمیت دینا بھی کسی مسلمان کے لیے روا اور درست نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 24میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے اگر ہیں تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (کہ) تم نے کمایا ہے اُن کو اور (وہ) تجارت (کہ) تم ڈرتے ہو اُس کے مندا پڑ جانے سے اور (وہ) گھر (کہ) تم پسند کرتے ہو اُنہیں‘ زیادہ محبوب ہیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ لے آئے اللہ اپنے حکم کو، اور اللہ نہیں ہدایت دیتا نافرمانی کرنے والے لوگوں کو‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں اللہ،رسولﷺاور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے پر دنیا کی کسی چیز کو بھی محبوب نہیں جاننا چاہیے۔ اسی طرح حدیث مبارکہ سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے ایمان کی تکمیل کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ اس کو رسول اللہﷺ کی ذات تمام اعزہ واقارب سے بڑھ کر عزیز ہو۔ اس ضمن میں ایک اہم حدیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''کوئی شخص ایمان کی حلاوت (مٹھاس) اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک وہ کسی شخص سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے کرے اور اس کو آگ میں ڈالا جانا اچھا لگے لیکن ایمان کے بعد کفر میں جانا اسے پسند نہ ہو، اور جب تک اللہ اور اس کے رسول سے اسے دوسری تمام چیزوں کے مقابلے میں زیادہ محبت نہ ہو۔
3۔ آپ ﷺ کی اتباع : نبی کریمﷺ کی غیر مشروط اتباع کرنا بھی ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔ جو شخص آپﷺ کی اتباع کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبتوں کا حقدار بن جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 31میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آپ کہہ دیں اگر ہو تم محبت کرتے اللہ سے تو میری پیروی کرو‘ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور وہ معاف کر دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ‘‘۔ اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 80میں ارشاد ہوا: ''جو اطاعت کرے رسول اللہﷺ کی تو درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ تعالیٰ کی‘ اور جو منہ موڑ لے تو نہیں ہم نے بھیجا آپ کو ان پر نگہبان بنا کر‘‘۔
4۔ آپﷺ پر درود و سلام بھیجنا:انسان کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ جو اس کا محسن ہو اس کے لیے دعائے خیر کرے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں والدین کے لیے دعائے رحمت کرنے کا حکم دیا ہے۔ نبی کریمﷺ کے احسانات تو والدین کے احسانات سے کہیں بڑھ کر ہیں؛ چنانچہ آپﷺ کی ذات پر درود و سلام بھیجنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ جو شخص آپﷺ کی ذات پر ایک مرتبہ درود شریف بھیجتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتے ہیں اور جو مسلسل درود شریف پڑھتا رہتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دیتے اور اس کے غموں کو دور فرما دیتے ہیں۔
5۔ آپﷺ کی شان بیان کرنا:ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خواہ نثر ہو یا نظم، تقریر ہو یا خطاب‘ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے کہ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بات کرنے یا لکھنے کا سلیقہ دیا ہے کہ وہ آپﷺکی شان بیان کرے۔ اس عمل کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسا ن پر اپنی رحمتوں کا نزول فرماتے ہیں۔ حضرت حسانؓ بن ثابت نے رسول اللہﷺ کا دفاع کیا تو نبی کریمﷺ نے ان کی تحسین فرمائی تھی۔
6۔ آپﷺ کے گستاخ کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرنا: گستاخانِ رسول کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرنا بھی ہر مسلمان اور مومن کی ذمہ داری ہے۔ گستاخ کی سزا قتل ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گستاخ کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے295-C کا قانون موجود ہے؛ چنانچہ اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے گستاخِ رسول کو تختہ دار تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہر محب رسولﷺ کی ذمہ داری ہے۔
7۔ نظامِ مصطفیﷺ کے قیام کی کوشش کرنا: نبی کریمﷺ ایک نظام کو لے کر آئے جس کا مقصد انسانوں کو سیدھے راستے پرچلانا اور ان کے لیے خیر کے دروازوں کو کھولنا تھا۔ ہم سب کی یہ ذـمہ داری ہے کہ ہم بھی خیر کے ان دروازوں کو کھولنے اور اپنے معاشرے سے منکرات کے خاتمے کے لیے آپﷺ کے عطا کردہ نظام کو نافذ کرنے کی کوشش کریں۔ قیامِ پاکستان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یہاں پر کتاب وسنت کی عملدار ی ہو لیکن افسوس کہ ہم اس کارِ خیر کو کماحقہٗ انجام نہیں دے سکے۔
ہم سب کو نبی کریمﷺ کے اُمتی ہونے کے ناتے آپﷺ کے حقوق کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے تاکہ ہم آپﷺ سے وابستگی کا اظہار کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو آپﷺ کے حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے مخلصانہ کوششیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آـمین !