"AIZ" (space) message & send to 7575

اسوہ ٔ کامل

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے مختلف ادوار میں دنیا کے مختلف مقامات پر انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ انبیاء علیہم السلام کی ہستیوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختلف طرح کے اوصاف کو ودیعت فرما دیا تھا ؛ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام صاحب ِاستقامت‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام صاحب ِحلم‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحبِ جلال‘ حضرت یوسف علیہ السلام صاحبِ حسن تھے جبکہ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے عظیم الشان حکومت اور علم سے نوازا تھا۔ یہ تمام انبیاء علیہم السلام اپنے اپنے علاقوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے اور اپنی قوم کو صراطِ مستقیم کی طرف مائل کرنے کے لیے تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کو صرف کرتے رہے۔ انبیائے سابقہ کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے حضرت رسو ل اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس کو منتخب فرما لیا۔ رسول اللہﷺ کو انبیائے سابقہ کے برعکس کسی ایک علاقے یا وقت میں مبعوث نہیں کیا گیا بلکہ دنیاکے تمام لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایاگیا۔ آپﷺ فقط عرب اور حجاز کے نبی نہیں تھے بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو جمیع کائنات کا ہادی‘ مقتدیٰ اور پیشوا بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 158میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے اے لوگو! بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف وہ جو (کہ) اُسی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی‘ نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی ‘ وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے پس ایمان لاؤ اللہ پر اس کے رسول اُمی نبی پر (وہ) جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور اُس کی باتوں پر۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی حقیقت کو سورہ سباء میں بھی بیان فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ سباء کی آیت نمبر 28میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر) اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر نبوت ورسالت کو تمام فرما دیا اور سورہ احزاب کی آیت نمبر 40میں اس امر کا اعلان فرما دیا: ''نہیں ہیں محمد (ﷺ) باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے اور لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں ۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذات پر دین وشریعت کی تکمیل فرمائی اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3میں اس امر کا اعلان فرما دیا: ''آج (کے دن) میں نے مکمل کر دیا ہے تمہارے لیے تمہارا دین اور میں نے پوری کردی ہے تم پر اپنی نعمت اور میں نے پسند کیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطور ِدین ۔‘‘ چونکہ آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے دین وشریعت کو تمام فرما دیا تھا اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذات کو رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے اسوۂ کامل بھی بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 21میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بلاشبہ یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے (اس) کے لیے جو اللہ (سے ملاقات) اور یوم آخرت کی اُمید رکھتا ہو اور اللہ کا ذکر کرے کثرت سے۔‘‘
چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی ذات کو اسوۂ کامل بنا دیا اس لیے ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذات والا صفات میں جن کمالات کو ودیعت کیا وہ نہ آپﷺ سے پہلے کسی کو حاصل ہوئے نہ آپﷺ کے بعد کسی کو حاصل ہونے کے امکانات ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق اعلیٰ ترین رہنمائی کے اوصاف کو آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں ودیعت فرما دیا۔دنیا کا کوئی سپہ سالار آپ ﷺ کی جنگی حکمت عملی اور فتوحات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آپﷺ کا طرزِ حکمرانی اور اللہ کی خشیت کے ساتھ عوام کے مسائل کو حل کرنے کا انداز کائنات میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے۔ جس انداز سے آپﷺ نے تجارت اور کاروبار کے اصولوں کو وضع فرمایا اس کی مثال بھی کائنات میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ جب ہم رسولﷺ کی سیرت کا ذکر کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے اوصاف ِحمیدہ سے نوازا تھا جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ استقامت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ﷺ کو استقامت کے عظیم ترین وصف سے نوازا تھا اور اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ﷺ کوایک منفردمقام اور شان عطا کی تھی کہ آپ ﷺ نہایت مستقل مزاجی سے اپنے مشن پر کاربند رہتے اور لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی پوری یکسوئی سے دعوت دیتے رہے۔ اس سلسلے میں آنے والی ہر تکلیف اور اذیت کو آپﷺ نے پوری خندہ پیشانی اور صبر واستقامت سے برداشت کیا۔ آپﷺ کو مصائب اور ابتلاؤں کو سہنا پڑا ۔ آپ ﷺ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا‘ آپ ﷺ کو اپنے شہر سے ہجرت کرنا پڑی‘ آپ ﷺ کو اللہ تبار ک وتعالیٰ کے دین کے لیے مختلف جنگیں لڑنا پڑیں‘ آپﷺ کو شہید کرنے کی کوششیں کی گئیں اور آپﷺ پر جادو کے وار کیے گئے‘ لیکن رسول اللہﷺ نے ان تمام تکالیف کو پوری استقامت سے برداشت کیا اور آنے والے لوگوں کے لیے ایک مثال بن گئے کہ جب انسان کسی عظیم مشن سے والہانہ وابستگی رکھتا ہے تو اس کو اس حوالے سے آنے والی تکالیف کو پوری خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔
2۔ حیا : نبی کریم ﷺ کی ذات ِ اقدس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حیا اور پاکدامنی کے اوصاف حمید ہ کو اس انداز میں ودیعت فرما دیا کہ آپﷺ نے پوری کائنات کے لوگوں کو پردہ داری اور حیا کا درس دیا۔ مردو زن کو نگاہوں کو جھکانے کا درس دینے کے ساتھ ساتھ عورتوں کو حجاب و نقاب میں ملبوس فرما دیا اور دنیا کو طہارت اور تزکیہ کے راستے پر چلا دیا اور ان کو پستیوں سے نکال کر بلندیوں کی شاہراہ پر گامزن فرما دیا۔
3۔ عدالت: نبی کریمﷺ نے اس انداز میں عادلانہ نظام قائم کیا کہ اونچے اور نیچے کے فرق کو مٹا دیا اور جب بھی کوئی کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کو اس جرم کی سزا سہنا پڑتی اس سلسلے میں ہر قسم کی سفارش اور دباؤ کو یکسر نظر انداز فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺ کا ایک خوبصورت واقعہ ا س حوالے سے درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مخزومیہ خاتون (بنت اسود) جس نے (غزوہ فتح کے موقع پر) چوری کر لی تھی‘ اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہﷺ سے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپ ﷺ کو بہت عزیز ہیں‘ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا؛ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپ ﷺ نے فرمایا:اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا (جس میں) آپ ﷺ نے فرمایا: پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنتِ محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔
4۔ سخاوت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو ایسی سخاوت سے نوازا تھا کہ چلتی ہوئی تیز آندھیاں اور سمندر کی لہریں بھی آپﷺ کی سخاوت کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔ آپﷺ ہر وقت غرباء‘ یتامیٰ‘ مساکین اور محروموں کی حمایت کے لیے کمر بستہ رہتے اور ان کے دکھ کو ذاتی دکھ کے طورپر محسوس کرتے۔
5۔ جرأت وبہادری: اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو جرأت وبہادری کے ایسے عظیم اوصاف سے نوازا تھا کہ بڑے بڑے مخالفین بھی آپ ﷺ کو مرعوب کرنے سے قاصر رہے اور آپﷺ نے زندگی کے تمام اُتار اور چڑھاؤ کا مقابلہ نہایت پختگی اور بلند عزائم کے ساتھ کیا۔
6۔ للہیت اور خشیت الٰہی: آپﷺ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت میں ڈوبی ہوئی زندگی گزاری۔ جہاں پر نمازپنجگانہ کا اہتمام کرتے رہے وہیں پر تہجد ‘ اشراق ‘ نوافل اور دعاؤں کے ذریعے اپنے پروردگار کو راضی کرنے کی جستجو کرتے رہے۔ رسول کریمﷺ کی زندگی یقینا دین ودنیا کے تمام معاملات میں ہمارے لیے اسوۂ کامل کی حیثیت رکھتی ہے اور مائیکل ہارٹ کا تجزیہ بجا ہے کہ آپﷺ دنیا کی وہ واحد عظیم شخصیت ہیں کہ جو بیک وقت دنیائے روحانیت اور مادیت کے امام ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رسول کریم ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور آپﷺ کے اسوۂ کامل سے استفادہ کرنے والا بنائے۔ آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں