اولاد انسان کا قیمتی ترین اثاثہ ہے۔ا ولاد کی ترقی اور کامیابی کو دیکھ ہر شخص طمانیت محسوس کر تا ہے۔ اولاد کو بگڑتا اور اس کو غلط راستے پر جاتا دیکھ کر والدین اپنے دل میں کسک اور درد محسوس کرتے ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس وقت بگڑے ہوئے نوجوان بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں‘ اس بگاڑ کی ایک بڑی وجہ والدین کی تربیت کی کمی بھی ہے۔ والدین اولادکی مادی،جائز وناجائز‘ ضروریات اور مطالبات پورے کرنے کے لیے تو اپنی توانائیوں اور وسائل کو صرف کرتے ہیں لیکن اولاد کی تربیت کے حوالے سے ان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو نبھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ والدین کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بھرپور انداز میں پورا کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں کئی عظیم شخصیات کا ذکر کیا جنہوں نے بطور باپ ایک مثالی زندگی گزاری۔ ان شخصیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت لقمان علیہ السلام شامل ہیں۔ ان تمام شخصیات نے بطورِ باپ مثالی زندگی گزاری اور آنے والی نسلوں کے لیے مثال بن گئے۔ کتاب وسنت اور ان شخصیات کی سیرت کے مطالعے کے بعد تربیتِ اولاد کے حوالے سے کئی اہم نکات سامنے آتے ہیں جن میں چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔اولاد کو اچھے کاموں کی نصیحت کرنا: والدین کو اولاد کو اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا چاہیے اور دین ودنیا میں سربلندی کے جتنے کام ہو سکتے ہیں ان کو اس سمت گامزن کرنے کی بھرپور انداز میں جستجو کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ لقمان میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتوں کا بڑے ہی خوبصورت انداز میں ذکر فرماتے ہیں۔ سورہ لقمان کی آیات 13تا 19میں ارشاد ہوا: 'اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے سے جب کہ وہ نصیحت کر رہا تھا اُسے: اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا‘ بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اور ہم نے وصیت (تاکید) کی انسان کو اپنے والدین کے ساتھ (حسنِ سلوک کی) اُٹھائے رکھا اُسے اُس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری (کے باوجود) اور اُس کا دودھ چھڑانا دو سالوں میں (اور) یہ کہ تو شکر کر میرا اور اپنے والدین کا میری ہی طرف (تم سب کا) لوٹنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں زور دیں تجھ پر اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے ساتھ (اُسے) جو (کہ) نہیں ہے تجھے اُس کا کوئی علم‘ تو تم اطاعت نہ کرو اُن دونوں کی اور سلوک کر اُن دونوں سے دنیا میں اچھے طریقے سے اور پیروی کر اُس شخص کے راستے کی جو رجوع کرتا ہے میری طرف، پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہے تو میں تمہیں خبر دوں گا(اُس) کی جو تم عمل کرتے تھے۔ اے میرے پیارے بیٹے! بے شک وہ (اچھائی یا برائی) اگر ہو رائی کے کسی دانے کے برابر پھر وہ ہو کسی چٹان میں یا (وہ ہو) آسمانوں میں یا زمین میں (تو) لے آئے گا اُس کو اللہ‘ بے شک اللہ بہت باریک بین خوب خبردار ہے۔ اے میرے بیٹے! نماز قائم کر اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے روک اور صبر کر اس (تکلیف) پر جو تجھے پہنچے‘ بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ اور نہ پھلا اپنا رخسار لوگوں کے لیے اور مت چل زمین میں اکڑ کر‘ بے شک اللہ نہیں پسند کرتا ہر تکبر کرنے والے فخر کرنے والے کو۔ اور میانہ روی رکھ اپنی چال میں اور پست رکھ اپنی آواز کو‘ بے شک آوازوں میں سے بدترین یقینا گدھوں کی آواز ہے‘‘۔ ان نصیحتوں پر غور وفکر کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو اُن تمام اُمور کے بارے میں نصیحت کی جو عقائد، والدین کی خدمت اور لوگوں سے حسنِ سلوک سے متعلق تھے؛ چنانچہ حضرت لقمانؑ کی حکیمانہ نصیحتوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہمیں بھی اپنی اولاد کو اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔
2۔ اولاد کو اچھے کاموں میں شریک کرنا: اولاد کی تربیت کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ انہیں اچھے کاموں میں شریک کیا جائے۔ بہت سے والدین اپنے تئیں اچھے اور خوبصورت کاموں کو انجام دیتے رہتے ہیں لیکن اپنی اولاد کو ان اچھے کاموں میں شریک نہیں کرتے جس کی وجہ سے اولاد بہت سے خیر کے کاموں سے محروم رہ جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا کہ جب تعمیرِ بیت اللہ کا وقت قریب آیا تو انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی اس کارِ خیر میں شریک کر لیا۔سورہ بقرہ کی آیات 127 تا 128میں ارشاد ہوا: ''اور جب بلند کر رہے تھے ابراہیم بنیادیں بیت اللہ کی اور اسماعیل بھی (اور وہ دعا کر رہے تھے) اے ہمارے رب! قبول فرما ہم سے (یہ خدمت) بے شک توہی سننے والا جاننے والا ہے۔اے ہمارے رب! بنا ہم دونوں کو فرمانبردار اپنا اور ہماری اولاد میں سے ایک گروہ اپنا فرمانبردار (بنا) اور ہمیں دکھا (سکھا) ہماری عبادت کے طریقے اور تو ہم پر متوجہ ہو (ہماری توبہ قبول فرما) بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے‘‘۔
3۔ اولاد کے لیے دعائے خیر: بہت سے والدین اپنی اولاد کی بعض نافرمانیوں کی وجہ سے ان کے لیے بددعا کے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو کسی بھی طور مناسب نہیں۔ انسان کو ہمہ وقت اپنی اولاد کے لیے دعائے خیر کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ان دعاؤں کا ذکر کیا جو انہوں نے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیہما السلام کے لیے مانگی تھیں۔ ان دعاؤں کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ والدین کو کس انداز میں اپنی اولاد کے لیے دعائے خیر کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیات 35 تا40 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب کہا ابراہیم نے‘ اے میرے رب! تو بنا دے اس شہر (مکہ) کو امن والا اور دور رکھ مجھے اور میرے بیٹوں کو کہ ہم عبادت کریں بتوں کی۔ اے میرے رب! بے شک انہوں نے گمراہ کر دیا ہے بہت سے لوگوں کو پھر جس نے پیروی کی میری تو بے شک وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی بے شک تو بہت بخشنے والا‘ بڑا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب! بے شک میں نے آباد کیا ہے اپنی اولاد (میں سے ایک) کو ایک (ایسی) وادی میں (جو) نہیں ہے کسی کھیتی والی‘ تیرے حرمت والے گھر کے پاس‘ اے ہمارے رب‘ تاکہ وہ قائم کریں نماز تو کر دے لوگوں میں سے (کچھ کے) دلوں کو (کہ) وہ مائل ہوں اُن کی طرف اور رزق دے اُنہیں پھلوں سے تاکہ وہ شکر ادا کریں۔ اے ہمارے رب! بے شک تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو ہم ظاہر کرتے ہیں اور نہیں چھپتی اللہ پر کوئی چیز زمین میں اور نہ آسمان میں۔ تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے عطا کیے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق، بے شک میرا رب یقینا خوب سننے والا ہے دعا کا۔ اے میرے رب! بنا دے مجھے قائم رکھنے والا نماز کا اور میری اولاد میں سے (بھی) اے ہمارے رب! تو قبول فرما میری دعا کو‘‘۔
4۔ اولاد کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا: کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان کی تباہی کے اسباب میں سے بری صحبت بھی ایک اہم سبب ہے؛ چنانچہ والدین کو ہمیشہ اپنی اولاد کے معمولات پر نظر رکھنی چاہیے اور اُن سے کو بری صحبت سے بچانے کے لیے اپنی توانائیوں اور وسائل کو بھرپور انداز میں صرف کرنا چاہیے۔
5۔ اولاد کو اچھے کاموں کی وصیت: جس طرح زندگی میں اپنی اولاد کو اچھے کاموں کی نصیحت کرنا ضروری ہے اسی طرح دنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی اولاد کو اچھے اور خیر والے کاموں کی بھرپور انداز سے وصیت کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام کی وصیتوں کا ذکر کیا جو انہوں نے آخری وقت میں اپنی اولاد کو کی تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیات 132 تا 133 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وصیت کی اس (دین) کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے (اپنے بیٹوں کو) اے میرے بیٹو! بے شک اللہ نے انتخاب کیا ہے تمہارے لیے دین تو تم ہرگز نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔ کیا تم تھے گواہ! جب آئی یعقوب پر موت (اور) جب کہا انہوں نے اپنے بیٹوں سے: کس کی تم عبادت کرو گے میرے بعد؟ وہ کہنے لگے: ہم عبادت کریں گے آپ کے معبود کی اور آپ کے آبائو و اجداد ابراہیم اور اسماعیل کے معبود کی اور اسحاق کے (یعنی) ایک معبود کی اور ہم اُسی کے فرمانبردار ہیں‘‘ ۔
ان تمام آیاتِ مبارکہ پر غوروفکر کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں اپنی اولاد کی بہتری کے لیے ان تدابیر کو اختیار کرنا چاہیے جو کتاب وسنت میں مذکور ہیں اور جن کو ان عظیم ہستیوں نے تربیتِ اولاد کے لیے اختیار کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اپنی اولاد کی درست انداز میں تربیت کرنے کی توفیق دے، آمین!