دنیا میں جو بھی آیا ہے اس کو ایک دن اس دنیائے فانی سے جانا ہے لیکن بعض لوگ اپنی فکر کی بلندی، ذہانت، علم، حکمت، دانائی اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے اس طرح کا کردار ادا کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں۔ شاعرِ مشرق‘ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فکر کی بلندی، مقصدِ زیست سے آگاہی، انسانوں کی فلاح وبہبود کے اسباب پر گہری نظر اور مسلمانوں کے زوال کی وجوہات کے حوالے سے بہت زیادہ بصیرت اور حکمت سے نوازا تھا۔ علامہ اقبال بیک وقت بہت بڑے ادیب، بلند پایہ مفکر،عظیم شاعر اور غیر معمولی سیاسی رہنما تھے۔ آپ نے برصغیر کے مسلمانوں کو جگانے کے لیے نمایاں اور کلیدی کردار ادا کیا اور اپنی پوری زندگی ایک مقصد کے تحت گزاری۔ آپ نے مسلمان اُمت کوبیدار کرنے کے حوالے سے جو کردار ادا کیا‘ وہ ماضی قریب میں بہت کم لوگوں نے ادا کیا۔ علامہ محمد اقبال کی فکر انگیز شاعری کی مختلف جہات ہیں۔ ان جہات پر غوروخوض کرنے کے بعد ہی فکرِ اقبال کوسمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے ۔ بحیثیت پاکستانی مسلمان ہمیں علامہ اقبال کے نظریات اور افکار سے رہنمائی حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب ہم علامہ اقبال کے افکار پر غورکر تے ہیں تو اس حوالے سے مختلف باتیں سامنے آتی ہیں؛ پہلی بات جو علامہ محمد اقبال کے کلام میں بکثرت نظر آتی ہے‘ وہ عالمی سطح پر مسلمانوں کو ایک لڑی میں پروئے جانے کی خواہش اور آرزو ہے۔علامہ اقبال کی یہ تمنا تھی کہ مسلمانوں کے دل میں ایک ایسی اُمنگ اور تڑپ پیدا ہو جائے کہ جس سے وہ اپنے مقصدِ زیست سے پوری طرح آشنا ہو جائیں۔ اس حوالے سے علامہ اقبال کے کلام کی ایک خوبصورت پیش ہے:
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
ان اشعار میں علامہ اقبال نے اُمتِ مسلمہ کے مشترکات کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا اور یہ بات واضح کی کہ توحید کی بنیاد پر اُمتِ مسلمہ متحد اور مجتمع ہے۔اسی طرح بیت اللہ شریف کے قبلہ ہونے کی وجہ سے پوری اُمت مسلمہ ایک نکتے پر جمع ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے نبی کریمﷺ کی ذات کو بھی مسلمانوں کو نقطۂ مشترکہ قرار دیتے ہوئے ایک مقام پر یہ بات ارشاد فرمائی :
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ اقبال کا کلام مسلمانوں کے دلوں اور ضمیروں کو جھنجھوڑنے کی طرف دعوت دیتا ہے۔ علامہ محمد اقبال ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
یا رب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے
علامہ اقبال مسلمان اُمت کو جھنجھوڑنے کے لیے اُن کو ماضی کے عروج کی داستانوں سے بھی آگاہ فرمایا کرتے تھے اور مسلمان اُمت کو ان ایام سے روشناس کروانے کی کوشش کرتے جب دنیا پر ان کا غلبہ ہوتا تھا اور دیگر اقوام ان کے مقابلے پر مغلوب ہوا کرتی تھیں۔ علامہ اقبال نے یورپ کے دورِ عروج کے حوالے سے اُندلس کو مخاطب ہو کر گفتگو کی اور اس کے بعد آپ نے دریائے دجلہ کو مخاطب ہو کر جس انداز میں مسلمانوں کے عروج کی داستان سنائی‘ یقینا وہ اُمت مسلمہ کے شعور کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ علامہ اقبال ارشاد فرماتے ہیں:
اے گلستانِ اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا
اے موجِ دجلہ تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے ترا دریا افسانہ خواں ہمارا
اے ارض پاک تری حرمت پر کٹ مریں ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
علامہ اقبال نے ان اشعار میں مسلمانوں کے دورِ عروج کی یاد تازہ کرکے ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کی بھرپور اندازمیں جستجو کی ہے۔ علامہ اقبال کی نظر مسلمان نوجوانوں کے عزائم ، مستحکم عمل اور قوت جذبات پر تھی۔ علامہ اقبال اس بات کو سمجھتے تھے کہ اگر مسلمان اُمت کا نوجوان حقیقی معنوں میں بیدار ہو جائے تو ایسی صورت میں اُمت زوال سے باہر نکل سکتی ہے۔ علامہ اقبال اس حوالے سے نوجوانوں کو ماضی کے عروج سے سبق حاصل کرنے کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تُو نے
وہ کیا گردوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سر دارا
علامہ اقبال نے مسلمان نوجوانوں کو ان اشعار کے ذریعے یہ بات سمجھائی کہ اگر آج مسلمان اُمت زوال کا شکار ہے تو اسے اپنے ماضی کے عروج پر غور کرکے اسی رفعت اور بلندی کو حاصل کرنے کی بھرپور جستجو کرنی چاہیے۔ علامہ اقبال نوجوانوں میں خودداری کو بیدارکرنا انتہائی ضروری سمجھتے تھے۔ آپ نے اپنی مشہور نظم ''بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ میں ارشاد فرمایا :
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سر دارا
آپ نے خودداری کا درس دیتے ہوئے ایک مقام پر فرمایا:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تری رضا کیا ہے
علامہ اقبال نے جہاں خودی کو اجاگر کیا‘ وہیں آپ نے نوجوانوں میں قوتِ عمل کو بیدار کرنے کے لیے بھی بھر پور انداز میں جستجو کی اور اُن کو شاہین پرندے کو بطورِ آئیڈل اور مثال اختیار کرنے کا سبق دیا۔ علامہ اقبال ارشاد فرماتے ہیں:
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُردم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد
اسی طرح ایک اور مقام پر آپ نے ارشاد فرمایا:
نہیں ترا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
علامہ اقبال اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ رزق کی تمنا اور طلب کئی مرتبہ انسان کی زندگی کا ہدف بن جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی غیرت اور خودی سے محروم ہو جاتا ہے؛ چنانچہ انہوں نے اس قسم کے رزق سے اجتناب کا بڑے خوبصورت انداز میں درس دیا اور فرمایا:
اے طائرِ لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
علامہ اقبال اس بات کو سمجھتے تھے کہ دورِ حاضر میں مادی عروج کے سبب بہت سی اقوام اسلحہ سازی ، دفاع اور عسکریت کے حوالے سے بہت زیادہ ترقی کر چکی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی اس ترقی پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ مادیت مادیت سے لڑا کرتی ہے لیکن جب مادی اعتبار سے مغلوبیت اور کمزوری ہوتو ایسی صورت میںفقط اسلحے پر انحصار نہیں کیا جاتا بلکہ قوتِ ایمانی اور توکل کے ذریعے دشمنوں کا بھرپور اندازمیں مقابلہ کیا جاتا ہے۔ علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
علامہ اقبال اس بات کو سمجھتے تھے کہ ایمان اور یقین قوموں کی زندگی میں کلیدی کردار ادا کرتاہے، اگر ایمان ،یقین اور توکل پیدا ہو جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے ہر قسم کے ابترحالات میں بھی انسان روشنی اور کامیابی کے راستے پر چل نکلتا ہے۔آپ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اسلام مخالف قوتوں کے پاس ٹیکنالوجی اور سائنس کا عروج ہے جبکہ اس کے مقابل مسلمان اس حوالے سے کمزوری کا شکار ہیں؛ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کے مورال کو بلند کرنے کے لیے بڑی خوبصورت نصیحتیں کیں۔ آپ فرماتے ہیں:
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
آپ یورپ کے مقابلے پر مسلمان قوم کو تحریک دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
اللہ کو پامردیٔ مومن پہ بھروسہ ؍ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
آپ نے مسلمان اُمت کو ایک لڑی میںپرونے کے لیے ان کو یہ بات بھی سمجھائی کہ غیر اقوام میں قومیت کا تصور مسلمانوں کے تصورِ قومیت سے یکسر جدا ہے ۔ غیر اقوام نسل ، رنگ اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہیں جبکہ مسلمان اپنے ایمان اور مذہب کے ساتھ مضبوط وابستگی اختیار کریں تو یقینا وہ ایک اکائی کی حیثیت سے اسلام اور مسلمان دشمن طاقتوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں :
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پہ انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
آپ نے مذہب اور دین کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے یہ بات واضح فرمائی کہ اگر دین کو تج کر دیا جائے اور قومیت کے راستوں کو اختیار کر لیا جائے تو مسلمانوں کی جمعیت پارہ پارہ ہو جائے گی۔علامہ اقبال کے ان افکار میں جہاں مسلمانوں کے ایک عمل کا راستہ موجود ہے وہیں علامہ اقبال کی فکری شاعری پڑھنے کے بعد مسلمان کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی کبریائی،نبی کریمﷺ کی عظـمت اور اسلام کی ہمہ گیریت کا احساس نہایت احسن انداز میں اجاگر ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کے اشعار یقینا ہمارے لیے مشعل راہ ہیں لیکن یہ بہت تاسف کا مقام ہے کہ آج پاکستانی مسلمان فکرِ اقبال سے صحیح طور پر وابستہ نہیں ہیں اور علامہ اقبال کی فکر سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے غیر مسلم مفکرین کے لٹریچر اور ان کی کتابوں سے رہنمائی حاصل کرنے کی جستجو کی جا رہی ہے۔ یقینا علامہ اقبال کی فکر سے وابستہ ہو کر ہمارے بہت سے فکری اور نظریاتی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں فکرِ اقبال سے وابستگی اختیار کرنے کی توفیق دے، آمین !