انسان جب کبھی اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے اِس حوالے سے مختلف قسم کے آرا سننے کو ملتی ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجیدمیں اِس حوالے سے بہت ہی واضح اور خوبصورت باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیات 16 تا 17 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہیں ہم نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کھیلتے ہوئے (یعنی بے مقصد پیدا نہیں کیا) ۔اگر ہم چاہتے کہ ہم بنائیں کوئی کھیل تماشا (تو) یقینا ہم بنا لیتے اسے اپنے پاس سے اگر ہم ہوتے (ایسا) کرنے والے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مومنون کی آیات 115 تا 117 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تو کیا تم نے سمجھ لیا کہ بے شک ہم نے پیدا کیا تمہیں بے مقصد (ہی) اور یہ کہ بے شک تم ہماری طرف تم نہیں لوٹائے جاؤ گے۔ پس بہت بلند ہے اللہ (جو) حقیقی بادشاہ ہے‘ نہیں ہے کوئی معبود مگر وہی رب ہے عزت والے عرش کا۔ اور جو پکارے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو‘ نہیں کوئی دلیل اس کے پاس اس کی تو بے شک اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ کافر لوگ (کبھی) فلاح نہیں پائیں گے‘‘۔ سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان اور جنوں کی تخلیق کے مقصد کو نہایت احسن انداز میں واضح فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ مذکورہ بالا تمام آیات پر غوروفکر اور تدبر کرنے کے بعد یہ بات سمجھ آتی ہے کہ تخلیقِ انسانیت کا مقصد درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا اور اس کی بندگی وعبادت کو بجالا نا ہے۔ ان عبادات کو بجا لانے کے مختلف طریقے کتاب وسنت میں مذکور ہیں جن میں ایک انتہائی خوبصورت اور آسان طریقہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا مسلسل ذکر کرنا ہے۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مخلوقات سے جملہ عبادات کے اہتمام کا اعتدال سے تقاضا کیا ہے مگر جب ہم ذکرِ الٰہی پر غور کرتے ہیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ذکرِ الٰہی کو ہمیشہ کثرت سے بجا لانے کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آلِ عمران کی آیات 190 تا 191 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقینا عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا۔ تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ پر غوروفکر کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کو عقلمند قرار دیا ہے جو زمین وآسمان کی تخلیق پر غور کرتے، پروردگار عالم کی تخلیق کی وسعت کو دیکھ کر اس کی کبریائی کو پہچانتے اور اس کے بعد کثرت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرتے اور آگ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 41میں ارشاد فرمایا: ''اے ایمان والو ! اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر بہت زیادہ کرو‘‘۔
ذکرِ الٰہی بکثرت کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کی زندگیوں کے اندھیرے دور کرکے ان کو روشنیوں کے راستے پر چلا دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ احزاب کی آیات 41 سے 43 میں ارشاد ہوا: ''ایمان والو! اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت زیادہ کرو۔اور صبح شام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔وہی ہے جو تم پر اپنی رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں) تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جائے اور اللہ تعالیٰ مومنوں پر بہت ہی مہربان ہے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذکرِ الٰہی کے فوائد بتلاتے ہوئے یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 152میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تم میرا ذکر کرو‘ میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو‘‘۔
اس آیت مبارکہ سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ جس شخص کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ کرتے ہوں اس شخص کی زندگی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید، نصرت اور فضل ہر حال میں شامل ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ ہمیں کثرت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب میں ان لوگوں کا ذکر کیا جن لوگوں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مغفرت اور اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 35میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں‘ مومن مرد اور مومن عورتیں‘ فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں بردار عورتیں‘ راست باز مرد اور راست باز عورتیں‘ صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں‘ خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں‘ روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں‘ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں (ان سب کے) لیے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے‘‘۔اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ وہ لوگ جن کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے وسیع مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے ان لوگوں میں بکثرت اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں بھی شامل ہیں۔
نماز کی ادائیگی کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو بیان کیا گیا کہ نماز فحاشی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے ساتھ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت بڑا کام ہے۔ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 45 میں ارشاد ہوا: ''جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔بیشک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے‘ (اور) تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے‘‘۔اس آیت مبارکہ پر تدبر کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنے کے نتیجے میں انسان کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ فحاشی اور منکرات کے اجتناب سے کہیں بڑھ کر ہیں؛ چنانچہ ہر مومن ومسلمان کو بکثرت اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب حضرت محمدﷺ نے بھی ذکر اللہ کے حوالے سے بہت سی خوبصورت باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو موسی ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا ''اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی مثال جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا‘ زندہ اور مردہ جیسی ہے‘‘۔
2۔جامع ترمذی میں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا میں تم کو بہتر عمل نہ بتاؤں جو تمہارے رب کے ہاں بڑا ہی پاکیزہ اور تمہارے درجات میں سب سے زیادہ بلند درجے والا ہے اور تمہارے لیے سونے اور چاندی کے خرچ کرنے سے بھی بہتر ہے اور تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم دشمن سے ملو اور تم ان کی گردنیں اڑاؤاور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ضرور بتائیے۔ آپﷺنے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات نہیں دیتی‘‘۔
3۔جامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺنے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کہتا ہے: میں اپنے بندے کے میرے ساتھ گمان کے مطابق ہوتا ہوں، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے جماعت (لوگوں) میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں (یعنی فرشتوں میں) اگر کوئی مجھ سے قریب ہونے کے لیے ایک بالشت آگے بڑھتا ہے تو اس سے قریب ہونے کے لیے میں ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہوں، اور اگر کوئی میری طرف ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں، اگر کوئی میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں‘‘۔4۔صحیح الجامع الصغیر میں فرمانِ نبویﷺہے ''اللہ تعالیٰ کو یہ عمل بہت پیارا لگتا ہے کہ تو اس حال میں وفات پائے کہ تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو‘‘۔
ذکرِ الٰہی کرنے کا موزوں ترین طریقہ یہ ہے کہ نوافل بالخصوص تہجد میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کی تلاوت کی جائے ۔ اس کے بعد‘ بغیر نوافل کے قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا بھی بہت زیادہ اجروثواب کا باعث ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر کے لیے احادیث طیبہ میں تحلیل، تسبیح، تکبیر، تحمید اور استغفار کے جو اذکار مذکور ہیں‘ یقینا ان کوبجالا بھی ہر اعتبار سے مستحسن ہے۔ ان اذکار کے ساتھ ساتھ نبی کریمﷺ کی ذات گرامی پر درود شریف بھیجنا بھی انتہائی مفید ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپﷺ کی ذات اقدس پر مسلسل اور متواتر درود بھیجنے والے شخص کے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں اور اُس کے دُکھوں اور غموں کو بھی دور کر دیتے ہیں۔ اگر انسان ذکرِ الٰہی کا خوگر ہو جائے اور اس کو مسلسل اپنا معمول بنا لے تو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی زندگی میں غیر معمولی خیر وبرکات کو شامل فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو بکثرت اپنا ذکر کرنے کی توفیق دے، آمین !