"AIZ" (space) message & send to 7575

موت کے بعد!

شاہد مجید 35 برس کی عمر کا متحرک نوجوان تھا۔ مذہب اور معاشرے کی اصلاح سے غیر معمولی دلچسپی رکھنے والا یہ نوجوان ساری زندگی دینی اجتماعات کے لیے سر گرم رہا۔ اس کی زندگی کی بہت بڑی خواہش تھی کہ وطن عزیز کو اسی راستے پر چلانے کی جستجو کی جائے جس کے لیے اسے بنایا گیا ہے۔ وہ دینی رہنماؤں اور علما کرام کے ساتھ غیر معمولی محبت کرتا تھا۔ ان کے جلسوں، پروگراموں اور اجتماعات میں شرکت کرنا اس کی زندگی کا من پسند مشغلہ اور اہم حصہ تھا۔ شاہد کو کچھ عرصہ قبل مالی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا جس وجہ سے وہ نفسیاتی اعتبار سے دباؤ کا شکار تھا۔ اسی وجہ سے اسے کچھ بیماریاں بھی لاحق ہو گئیں۔ شاہد مجید کی ظاہری صحت کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ نفسیاتی دباؤ اور دیگر امراض شاہد کو اندرونی طور پر کھوکھلا کیے جا رہے ہیں۔ 26 اکتوبر کا دن اس افسوس ناک خبر کے ساتھ آیا کہ شاہد مجید اچانک دنیا ئے فانی سے کوچ کر گیا ہے۔ اسی طرح چند دن قبل میرے انتہائی عزیز دوست علی ظہیر حیدری اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ موٹروے پر سفر کررہے تھے کہ ان کی گاڑی کا ٹائر برسٹ ہو گیا اور گاڑی اُلٹ گئی جس کے نتیجے میں ان کے دو خوبصورت اور پیارے بچے دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کو اور ان کی اہلیہ کو شدید چوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یقینا یہ صدمہ علی ظہیر حیدری کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ علی ظہیر کے اس دکھ اور غم کو میں نے اپنے دل اور رُوح میں اترتا ہوا محسوس کیا۔
میں ان واقعات پر بہت زیادہ افسردہ ہوں۔ ماضی کے بہت سے واقعات میرے دماغ کی سکرین پر چلنا شروع ہو گئے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی بہت سے صدمات کا سامنا کیا۔ میری عمر اس وقت فقط 15 برس تھی جب والد گرامی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کی محبت، شفقت اور پیار میری زندگی کا بہت بڑا اثاثہ تھا۔ ان کی صحت اور توانائی کو دیکھ کر اس بات کی توقع بھی نہ کی جا سکتی تھی کہ وہ اچانک اس دنیائے فانی سے کوچ کر جائیں گے۔
23 مارچ 1987ء میں ان کے جلسے میں بم دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوئے اور چند دن زیر علاج رہنے کے بعد دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ان کی جدائی مجھے زندگی کی ہر خوشی اور غمی کے دوران محسوس ہوتی رہی۔ رمضان، عید الفطر اور عید الاضحی کے مواقع پر خصوصیت سے ان کی یاد ستاتی رہی۔ ابھی اس صدمے سے سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ 19 برس کی عمر میں والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ والد کی وفات کے بعد والدہ کی محبت اور پیار میری زندگی کا نہایت قیمتی اثاثہ تھا لیکن اس سے بھی اچانک محروم ہونا پڑ گیا؛ تاہم یہ واقعات فقط میری زندگی تک ہی محدود نہیں بلکہ ہم اگر اپنے گردوپیش میں نگاہ دوڑائیں تو آئے دن ہمیں اس بات کی اطلاع ملتی ہے کہ فلاں شخص اس دنیائے فانی سے کوچ کر کے پروردگارِ عالم کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا ہے۔
عقائد کے اختلاف کے باوجود‘ دنیا کے تمام مذاہب کے پیروکار وں اور دین و مذہب سے غیر وابستہ لوگوں کا جس حقیقت پر اتفاق ہے‘ وہ موت ہے۔تاہم یہ انسانوں کی بہت بڑی کوتاہ بینی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے تو موت کو یقینی سمجھتا ہے لیکن اپنی ذات کے لیے موت کے تصور اور اس کے امکان کو یکسر فراموش کر دیتا ہے۔ ہر خاندان سے میتیں اٹھتی اور جنازے جاتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد اپنے دادا، دادی، نانا، نانی کو اپنی آنکھوں سے قبروں میں جاتے ہوئے دیکھ چکی ہے۔ بہت سے لوگ اپنے والدین کی شفقتوں سے بھی محروم ہو چکے ہیں اور لوگوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے کہ جن کے بھائی اور بہن ان سے بچھڑ چکے ہیں۔ پیار اورمحبت کرنے والے ان اعزہ و اقارب کی جدائی کے باوجود نجانے انسان کیوں اس سوچ وفکر کا حامل ہے کہ وہ حیاتِ ابدی سے ہمکنار اور بہرہ ور رہے گا۔
موت کے بعد کیا ہو گا؟ اس حوالے سے انسانی اور معاشرتی علوم خاموش ہیں جبکہ دینیات نے اس حوالے سے انسانوں کی کامل رہنمائی کی ہے۔ کتاب وسنت کا ایک بڑا عنوان ''قیامت کا قیام‘‘ اور ''موت کے بعد والی زندگی کے احوال اور حالات‘‘ ہیں۔ موت کے بعد انسان کدھر جائے گا‘ موت کے بعد انسان کا انجام کیا ہوگا‘ یہ ایک ایسی فکر انگیز بحث ہے جس سے نظریں چرانا کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ تاہم لوگوں کی اکثریت اس موضوع کو زیر بحث لانا تو بڑی دور کی بات‘ اس پر غور وخوض کرنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ بلندوبالا کوٹھیاں، گاڑیاں، بینک بیلنس، اعزہ واقارب، شادی بیاہ اور سماجی تقریبات انسانوں کو اس انداز میں جذب کیے رکھتی ہیں کہ انسان موت کے بعد والی زندگی کو یکسر فراموش کر دیتا ہے۔
دنیا میں وجاہت کے ساتھ رہنا اور دنیا داری کے تقاضوں کو پورا کرنا اور ملازمت کی انجام دہی کے کوشاں رہنا لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ جو شخص فکرِ آخرت کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ لوگ عام طور پر اس کو دقیا نوسی اور قدامت پسند سمجھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی طاقتور، بااثر،متمول اور صاحبِ شہرت کیوں نہ ہو‘ اُسے موت کی وادی میں اترنا ہو گا۔ دنیا میں بہت سے گناہ گار لوگوں کو دنیا کو خیرباد کہنا پڑا اور اسی طرح مقدس اور نیک ہستیاں بھی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان گناہگاروں کی موت اور مقدس ہستیوں کے دنیا سے رخصت ہوجانے سے ہمیں موت کے بارے میں ایک واضح اور قطعی تصور ملتا ہے جس کو نظر انداز کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر 185میں اس امر کا اعلان فرمایا: ''ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جاؤ گے؛ پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اورجنت میں داخل کر دیا جائے‘ بے شک وہ کامیاب ہو گیا۔ اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جہنم کی ہولناکیوں کو بہت واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر جنت کے حسین مناظر اور نظاروں کو بھی نہایت احسن انداز میں پیش کیا ہے اور اس سمت انسانوں کی رہنمائی کی ہے کہ انہیں آخرت کے گھر کی طرف مراجعت کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجیدکے متعدد مقامات پر آخرت کی فکر کا احساس دلایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعلیٰ کی آیات 16سے 19 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بلکہ تم ترجیح دیتے ہوئے دنیوی زندگی کو۔ حالانکہ آخرت بہتر اور زیادہ پائیدار ہے۔ بے شک یہ (بات) پہلے صحیفوں میں ہے۔ (یعنی) ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ کے صحیفوں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیبﷺ نے دنیا سے چلے جانے کے بعد قبر اور برزخ کی زندگی کے حوالے سے کامل رہنمائی کی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں قبر کے ساتھ ساتھ قیامت کی کھڑکھڑاہٹوں، اس کے زلزلوں، اس کی ہولناکیوں، اس کے چھا جانے اور اس کے انسانوں پر طاری ہونے کاذکر کیا۔موت کے بعد کی زندگی کو یقینی اور مصدقہ خبر کے طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس نمایاں انداز میں بیان کیا ہے اس پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ تکاثر میں ارشاد فرماتے ہیں: ''غافل کر دیا تمہیں باہمی کثرت کی خواہش نے۔ یہاں تک کہ تم نے جا دیکھیں قبریں۔ ہرگز نہیں! عنقریب تم جان لو گے۔ پھر ہرگز نہیں! عنقریب تم جان لو گے۔ ہر گز نہیں! کاش تم جان لیتے یقین کا جاننا۔ یقینا تم ضرور دیکھ لو گے جہنم کو۔ پھر یقینا ضرور تم دیکھ لوگے اسے یقین کی آنکھ سے۔ پھر ضرور بالضرور تم پوچھے جاؤ گے اس دن نعمتوں کے بارے میں‘‘۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قیامت کی ہولناکیوں کے حوالے سے قرآنِ مجید کے متعدد مقامات پر بڑی وضاحت سے ارشادات فرمائے جن کے مطالعے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قیامت کے روز یقینا انسانوں کے کام ان کے نیک، درست اور مثبت اعمال ہی آئیں گے اور انسانوں کی ناکامی اور نامرادی کا سبب اُن کی اللہ تبارک وتعالیٰ اور حضرت رسول اللہﷺ کے احکامات اور تعلیمات سے روگردانی اور بے عملی ہو گی۔ اگر انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں کا حصول چاہتا ہے اور موت کے بعد آنے والی زندگی کی کشادگی اور اس میں سکون،امن اور اطمینان چاہتا ہے تو اس کو کتاب وسنت میں آخرت کے حوالے سے مذکور تعلیمات پر توجہ دینی چاہیے۔ دنیا کی رنگا رنگی، دنیا کی روشنیاں، دنیا کی کشادگیاں، یہاں کا مال واسباب، یہاں کا سرمایہ، یہاں کے اعزہ واقارب، یہاں کی اولادیں اور دوست احباب کے ساتھ ہمارے تعلقات عارضی اور منقطع ہو جانے والے ہیں اور ہمیں پلٹ کر اپنے پروردگار کی طرف جانا ہے۔
جنازوں کے مواقع پر انسانوں کی بے اعتنائی اور جنازے کے خاتمے کی طلب کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ انسان دوسرے انسان کاکتنا خیر خواہ ہے۔ ہر انسان کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ جلدازجلد نماز جنازہ مکمل ہو اور وہ اپنے گھر واپس پلٹ جائے۔ جنازے کی نماز کی ادائیگی کے بعد لوگوں کی اکثریت واپس پلٹ آتی ہے۔ قبر تک جانے والے ساتھی بھی چند ہی ہوتے ہیں اور قبر پر پہنچ جانے کے بعد مٹی ڈال کر ہر ایک کو واپس آنا پڑتا ہے۔ انسان کو قبر کی تنہائیوں کا اکیلے ہی سامنا کرنا پڑے گا اور وہاں پر اس کے کام فقط اس کے اعمال ہی آئیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو موت کے بعد کی زندگی اور فکرِ آخرت کے لیے کوشاں رہنے کی توفیق دے، آمین !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں