اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر سلیم الطبع انسان میں یہ صلاحیت ودیعت فرمائی ہے کہ وہ لوگوں کے مقام اور مرتبے کے لحاظ سے ان کی عزت اور وقار کا پاس اور لحاظ کرتا ہے؛ چنانچہ ہر مہذب انسان اپنے والدین، اپنے بڑے بہن‘ بھائیوں، دادا، دادی، نانا اور نانی کی عزت کرتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ دین اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں‘ وہ بزرگانِ دین اور علمائے کرام کے احترام میں کسی قسم کی کمی اور کوتاہی نہیں کرتے۔ آئمہ دین،محدثین عظام، تبع تابعین و تابعین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے ہمارے جذبات اور احساسات بالکل واضح ہیں اور ہم ہمہ وقت ان کی محبت اور احترام سے لبریز رہتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کائنات میں جو مقام اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرتِ انسان کو دیا‘ وہ کسی دوسرے کو عطا نہیں فرمایا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التین کی آیت نمبر4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بلاشبہ یقینا ہم نے پیدا کیا انسان کو بہترین شکل وصورت میں‘‘۔
جب ہم قرآنِ مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان دو حصوں میں تقسیم ہے‘ بعض لوگ ایمان و ایقان کے راستے پر جبکہ بعض لوگ کفر وفسق کے راستے پر ہیں۔ کفر وفسق کے راستے پر چلنے والے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 179 میں ارشا د ہوا: ''اور البتہ تحقیق‘ ہم نے پیدا کیے جہنم کے لیے بہت سے جن اور انسان‘ اُن کے دل ہیں (لیکن) وہ سمجھتے نہیں اُن سے او ر اُن کی آنکھیں ہیں (لیکن) وہ سنتے نہیں اُن سے۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ وہ (اُن سے بھی) زیادہ گمراہ ہیں‘‘۔ اس کے مدمقابل جولوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی کے لیے جستجو کرنے والے ہیں‘ ان پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے انعام اور فضل کو نازل فرما دیا۔ ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے چار حصوں میں تقسیم کیا جن کا ذکر سورہ نساء کی آیت نمبر 69میں کچھ یوں کیا گیا ہے: ''اور جو اطاعت کرے اللہ اور (اس کے) رسول کی تو وہ لوگ (ان کے) ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا‘ نبیوں میں سے،صدیقین اور شہدا اور نیک لوگوں (میں سے) اور بہت خوب ہیں وہ لوگ رفاقت کے لحاظ سے‘‘۔ صلحا، صدیقین اور شہدا کے مقابلے میں انبیاء کرام علیہم السلام کو یہ اعزاز حاصل ہواکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے کلام فرمایا ااور اس کلام کی وجہ سے وہ کائنات کے افضل ترین لوگ ٹھہرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کلام کے حوالے سے سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 51ارشاد فرماتے ہیں: ''اور کسی بشر کے لیے (ممکن) نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی (الہام) کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا (یہ کہ) وہ کوئی رسول (فرشتہ) بھیجے تو وہ وحی پہنچاتا ہے اس کے حکم سے جو وہ (اللہ) چاہتا ہے‘ بلاشبہ وہ بہت بلند‘ بہت حکمت والا ہے‘‘۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی مقدس جماعت کائنات کی سب سے اعلیٰ اور افضل جماعت ہے لیکن صاحبِ شریعت رسل اللہ کا مقام دیگر انبیاء کرام علیہم السلام سے بلند جبکہ اولوالعزم رسل اللہ کا مقام مزید بلند ہے۔ کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت رسول اللہﷺ کو جمیع رسل اللہ میں سب سے بلند مقام عطا کیا اور کتاب وسنت میں اس کے متعدد دلائل ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو عالمگیر نبوت عطا کی۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 158 میں ارشاد ہوا: ''کہہ دیجئے اے لوگو! بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو خاتم النبیین بنا کر آپﷺ پر نبوت اور رسالت کو تمام فرمادیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سور ہ احزاب کی آیت نمبر 40میں ارشاد فرماتے ہیں: ''نہیں ہیں محمد (ﷺ) باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے‘ لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو اخلاقِ عالیہ کے اس بلند مقام پر فائز فرما دیا جو مقام آپﷺ سے پہلے کسی کو حاصل نہ ہوا۔ سورہ قلم کی آیت نمبر 4میں اللہ تبارک وتعالیٰ آپﷺ کے اخلاقِ عالیہ کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بلاشبہ آپ یقینا خلقِ عظیم پر (فائز) ہیں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ان تمام وجوہات کی بنیاد پر آپﷺ کو جو حرمت، وقار اور عزت عطا فرمائی وہ مخلوقات میں سے کسی دوسرے کو حاصل نہ ہوئی۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ منافقون کی آیت نمبر 8میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور مومنوں کے لیے ہے‘ لیکن منافق نہیں جانتے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فتح کی آیات 8 تا 9میں ارشاد فرماتے ہیں : ''بے شک ہم نے آپ کو بھیجا گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر) تاکہ تم ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول (پر) اور (تاکہ) تم مدد کرو اس کی اور تم تعظیم کرو اس کی اور (تاکہ) تم پاکی بیان کرو اس (اللہ) کی صبح وشام‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں ہر صورت میں حضرت رسول اللہﷺ کی تعظیم اور احترام کو یقینی بنانا چاہیے۔نبی کریمﷺ کی حرـمت اور آپﷺ کے وقار کا تقاضایہ ہے کہ آپﷺ کی ذات کے حوالے سے کسی قسم کی گستاخی اور کسی قسم کی عدم احترام کی کیفیت کو گوارہ نہ کیا جائے۔
حرمت رسول اللہﷺ کا مسئلہ انتہائی حساس ہے اور ہر مومن ومسلمان اس کی اہمیت کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے؛ چنانچہ جب بھی کبھی کسی مغربی ملک میں اس حوالے سے نامناسب رویے کو اپنایا گیا اور توہین کی ناپاک جسارت کی گئی تو پوری اُمت نے اس کرب کو شدت کے ساتھ محسوس کیا اور اپنے اپنے انداز میں احتجاج کرکے نبی کریمﷺ کی حرمت کے حوالے سے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا۔ نبی کریمﷺ کی حرمت کا یہ تقاضا ہے کہ ہم مغربی ممالک کے عمائدین کو اس بات پر آمادہ وتیار کریں کہ وہ حرمت رسول اللہﷺ کے حوالے سے قانون سازی کو یقینی بنائیں تاکہ دریدہ دہنی کرنے والا کوئی شخص مقدس ہستیوں کی توہین کی ناپاک جسارت اور کوشش نہ کر سکے۔
پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں نبی کریمﷺ کے احترام اور آپﷺ کی عزت کو یقینی بنانے کے لیے 295-C کا قانون موجود ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی شخص توہین کا ارتکاب کرنے کی ناپاک جسارت اورکوشش نہ کرے۔ یہ قانون ہر اعتبار سے فطرت اور بین الاقوامی قوانین سے مطابقت رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں اداروں کے احترام کے لیے توہین اور انسانوں کے احترام کے لیے ہتکِ عزت کے قوانین ہیں اور اگر کوئی شخص کسی عزت کے ساتھ کھیلتا ہے تو اس کو سخت قسم کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر ایک انسان کی حرمت کو یقینی بنانے کے لیے ہتکِ عزت کے قوانین اور عدلیہ کے وقار کے لیے توہین عدالت کے قانون بنائے جا سکتے ہیں تو اس بات کو بھی دل میں جگہ دینی چاہیے کہ نبی کریمﷺ کی حرمت تمام اداروں اور انسانوں سے فائق ہے؛ چنانچہ آپﷺکی ذات کے حوالے سے یہ قوانین بالکل درست اور انصاف پر مبنی ہیں۔
بسا اوقات جس طرح دیگر قوانین کے حوالے سے تساہل، غفلت اور لاپروائی کا ـمظاہرہ کیا جاتا ہے اسی طرح حرمت رسولﷺ کے عنوان کو بھی بسا اوقات ذاتی دشمنی اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ غفلت اور عاقبت نااندیشی کی وجہ سے حرمت رسولﷺ کے معاملات کی صحیح طور پر چھان بین کیے بغیر ہی کسی شخص کی دشمنی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یہ رویہ کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ اگر توہین رسالتﷺ کے حوالے سے کوئی چیز نظر آئے تو ایسی صورت میں ملکی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے گستاخ شخص کا احتساب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس حوالے سے جذبات میں آئے بغیر حقائق اور شواہد کی بنیاد پر اقدامات کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس بات کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بعض لوگ اس قسم کے ناخوشگوار واقعات کے بعد بجائے اس کے کہ واقعے کی مذمت کی جائے ‘حرمت رسولﷺ اور توہین رسالت کے متعلقہ قوانین کی تنقیص پر آمادہ ہو جاتے ہیں‘ یہ رویہ کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں انتہائی احتیاط اور اعتدال کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور جہاں عظیم اور مقدس ہستیوں کی حرمت، عزت اور احترام کے عظیم نعرے کی آڑ میں نامناسب اقدامات کرنے والے لوگوں سے لاتعلقی اور برأت کا اظہار کرنا چاہیے‘ وہیں پر ان عناصر کی بھرپور انداز میں بھی مذمت کرنی چاہیے جو ان نامناسب واقعات کی آڑلے کر حرمت اور توہین سے متعلق قوانین کے انہدام کی بات کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا قوانین کا اس ملک میں اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ اگر دیگر قوانین کو اپنے مقاصد میں استعمال کرنے والے لوگوں کے نامناسب اقدامات کی وجہ سے یہ قوانین مجروح نہیں ہوتے تو حرمت رسولﷺ کا عظیم قانون بھی کسی ناخوشگوار واقعے کی بنیاد پر مجروح نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے اگر کسی قسم کی غفلت، کوتاہی، تساہل اور بداحتیاطی کا مظاہرہ کیا گیا اور قانون کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تو اس کا نتیجہ معاشرتی بگاڑ، بدامنی، تصادم اور ٹکراؤ کی شکل میں نکلے گا جو کسی بھی طور ایک صحت مند معاشرے کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حرمت رسولﷺ کے حوالے سے اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرنے کی توفیق دے اور جو اس حوالے سے بداحتیاطی کا مظاہرہ کرکے کسی ناخوشگوار واقعے کا سبب بنتے ہیں‘ ایسے عناصر سے اللہ تبارک وتعالیٰ معاشرے کو محفوظ ومامون فرمائے، آمین!