انسان انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بعض حادثات اور صدمات سے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے اور ان حادثات کی کسک کو مدتِ مدید تک محسوس کرتا ہے۔ انفرادی زندگی میں کسی پیارکرنے والے شخص کا دنیا سے رخصت ہو جانا یقینا انسان کے لیے باعثِ تکلیف و اضطراب ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ اپنے والدین کی جدائی کو برس ہابرس تک محسوس کرتے رہتے ہیں اور نفسیاتی اعتبار سے اس توازن کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے جو والدین کی زندگی میں ان کو میسر ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کا نوجوان بیٹا دنیا سے رخصت ہو جائے تو بوڑھے ماں باپ کی کمر ٹوٹ کر رہ جاتی ہے۔ انسانی زندگی میں ہونے والے بہت سے حادثات انسان کی سوچ وفکر پر غیر معمولی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ان حادثات سے سبق سیکھ کر اپنی زندگی کے نظام الاوقات کو مستقبل میں احسن طریقے سے مرتب کرتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ ان حادثات سے سبق سیکھنے کے بجائے غلطیوں کی تکرار کرتے رہتے ہیں۔
قوموں کی زندگیوں میں ہونے والے بہت سے حاد ثات بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تاریخ اسلام میں سقوطِ بغداد ایک بہت بڑا سانحہ ہے جس کی کسک آج تک اُمت مسلمہ کا ہر باشعور اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ سقوطِ بغداد کے بعد سقوطِ بیت المقدس کا سانحہ بھی اُمتِ مسلمہ کے لیے یقینا بہت بڑا سانحہ ہے اور اس کی چبھن کو ہر مسلمان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں رونما ہونے والے حادثات سے معاشرے کے باشعور عناصر نہ صرف یہ کہ متاثر ہوتے ہیں بلکہ ان حوادث کی روشنی میں مستقبل کے لائحہ عمل کو بھی مرتب کرتے ہیں۔
تاریخ پاکستان کا سب سے بڑا سانحہ سقوطِ ڈھاکہ ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کو رونما ہونے والے اس حادثے کی کسک ہر محب وطن پاکستان آج بھی محسوس کرتا ہے اور جب بھی کبھی سقوطِ ڈھاکہ کا خیال آتا ہے‘ وہ دُکھ اور کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن جب تاریخ کے دریچے سے اس کی ہولناکیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یقینا انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور اس کی روح کپکپا اُٹھتی ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے موقع پر جو باشعور رہنما ملک و ملت کی بھلائی اور بہتری کے لیے سرگرم تھے‘ انہوں نے اس سانحے پر جس کربناکی کو محسوس کیا‘ وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر نے بھی سقوطِ ڈھاکہ کے صدمے کو انتہائی شدومد سے محسوس کیا۔ آپ نے اس حوالے سے جامع مسجد چینیانوالی میں ایک عظیم الشان خطبہ دیا جو آپ کے خطبات میں سے ایک غیر معمولی خطاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر نے صدمے کو اس حد تک محسوس کیا کہ آپ نے اس موقع پر میرے حوالے سے بھی بات کہی تھی حالانکہ اس وقت میری عمر فقط چند ماہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ میرا صرف ایک ہی بیٹا ہے‘ اگر وہ بھی کٹ جاتا‘ مرجاتا تو مجھے اتنا افسوس نہ ہوتا جتنا سقوطِ مشرقی پاکستان پر ہو رہا ہے۔ آپ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا تھا کہ آج ہماری آوازیں بیٹھ گئی ہیں‘ ہماری گردنیں جھک گئی ہیں‘ ہمارے سینے سکڑ گئے ہیں‘ ہماری روحیں مر جھا گئی ہیں۔آپ نے کہا کہ ڈھاکہ کی مسجد بیت المکرم اپنی ماں کو یہ بات کہہ رہی ہوں گی کہ آج تیرے رکھوالے مجھے اغیار کے حوالے کر کے بھاگ نکلے ہیں۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر نے اس موقع پر جس درد کو محسوس کیا‘ یہ فقط آپ ہی کا درد نہیں تھا بلکہ ہر محب وطن پاکستانی نے اس درد کو اپنے دل کی گہرائیوں میں اترتا ہوا محسوس کیا۔
سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ کیوں رونما ہوا اس حوالے سے مؤرخین آج بھی اپنے اپنے تاثرات کو اپنے اپنے انداز میں قلمبند کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے کئی مرتبہ اپنی ذاتی سوچ وفکر اور نظریات کو بھی سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سانحے کے محرکات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے اور مستقبل میں کسی بھی قومی حادثے سے بچنے کے لیے ان معاملات پر گہری توجہ دی جائے ۔ پاکستان کا قیام ایک معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ اس کے قیام کے لیے تحریک پاکستان کے قائدین نے بڑی قربانیاں دی تھیں ۔ رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے برصغیر کے طول وعرض میں ایک منظم تحریک چلائی تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میںبرصغیر کے طول وعرض کے مسلمان ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لیے یکسو ہوئے ۔ کئی عشروں تک جدوجہد کے بعد دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی حیثیت سے پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا اور شرق وغرب میں بسنے والے مسلمانوں نے اس کے قیام پر انتہائی اطمینان اور دلی مسرت محسوس کی۔ ہندوستان سمیت دنیا بھر کے مظلوم ومقہور مسلمان پاکستان سے اپنی اُمیدوں کو وابستہ کیے ہوئے تھے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہونے کے ناتے نہ صرف یہ کہ داخلی اعتبار سے اپنے استحکام اور مضبوطی کا لائحہ عمل تیار کرے گا بلکہ دنیا بھر کے مظلوم ومقہور مسلمانوں کے کام آنے کی بھی منظم پلاننگ کرے گا۔
قیامِ پاکستان کے وقت کسی کے ذہن میں بھی یہ بات موجود نہیں تھی کہ چند عشروں کے بعد پاکستان دولخت ہو جائے گا۔ اس سانحے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ہم کثیر القومی ریاست کو متحد کرنے والے سب سے بڑے عنصر کو برقرار رکھنے میں کامیاب نہ ہو پائے اور قومی اور لسانی تعصبات کی دلدل میں اتر گئے۔ اُردو اور غیر اُردو کا جھگڑا ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ ہم نے مذہب کی افادیت اور اس کے سیاسی جڑاؤ کو بھی نظر انداز کر دیا۔ مذہب کا سیاسی جڑاؤ یقینا پاکستان کے استحکام کے لیے انتہائی ضروری تھا‘ اس لیے کہ پاکستان ایک قومی ریاست کی حیثیت سے معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ اس میں بسنے والی مختلف اقوام کا اپنااپنا ثقافتی اور تاریخی پس منظر تھا۔ مختلف اقوام کو جوڑنے کے لیے کلمہ طیبہ کا جڑاؤ انتہائی ضروری تھا۔ اللہ کی وحدانیت، رسول اللہﷺ کی رسالت، قرآنِ مجید کا تقدس اور کعبۃ اللہ کا قبلہ ہونا یقینا قومی وحدت کے لیے انتہائی ضروری تھا۔ اس وحدت کو برقرار رکھنے کے بجائے مشرق اور مغرب کے تنازعات اور لسانی جھگڑوں نے پاکستان کو بتدریج کمزور کر دیا۔قوم پرست رہنماؤں کو عصبیت کی بنیاد پر لوگوں کو بھڑکانے کا موقع مل گیا۔ بھارت نے مشرقی اور مغربی بازو کے مابین جغرافیائی تفاوت کو دیکھتے ہوئے بگاڑ اور انتشار کو ہوا دینے کی بھرپور اندازمیں کوشش کی۔ 70ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی اکثریت کے بعد اصولی طور پر اقتدار اس کو منتقل کر دینا چاہیے تھا لیکن اس حوالے سے بھی غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کیا گیا جس سے قوم پرست بنگالیوں کے ہاں احساسِ محرومی کو تقویت حاصل ہوئی اور اس کے نتیجے میں علیحدگی کی تحریک نے زور پکڑا۔ بنگال میں بسنے والے محب وطن پاکستانیوں نے پاکستان سے جڑے رہنے کی بھرپور انداز میں جستجو کی اور اس امر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کی وحدت کے لیے ہمیں قومی اور لسانی تعصبات کو نظر انداز کرنا ہو گا۔ لیکن قوم پرست بنگالیوں نے 70ء کے عام انتخابات میں ہونے والے نامناسب رویوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان کو دولخت کرنے کے لیے منظم عسکری تحریک چلائی۔ اس عسکری تحریک کو بھارت کا بھرپور تعاون حاصل ہوا اور یوں پاکستان دولخت ہو گیا۔
آج پاکستان اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے قائم ودائم ہے لیکن پاکستان میں بدستور لسانی اور قومی شناخت کے اعتبار سے تقسیم موجود ہے۔ آج بھی ملک میں لسانی تعصبات کو ہوا دینے والی تحریکیں متحرک ہیں، آج بھی مذہب کو ریاستی اُمور سے جدا کرنے کے نعرے پوری شدومد سے سنائی دیتے ہیں۔ مذہب کو ایک جڑاؤ، وحدت اور اکائی کی حیثیت سے صحیح طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اس بات کا بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ملک میں انتخابی عمل کی شفافیت کے حوالے سے تشنگی پائی جاتی ہے اور مختلف سیاسی جماعتیں اس حوالے سے مختلف طرح کے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 2013ء کے انتخابات کے بعد انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ایک منظم تحریک چلائی اور بالآخر اپنی اس تحریک کو 2018ء کے انتخابات میں انتخابی مہم کا سب سے اہم نکتہ بنانے کے بعد انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ نون،جمعیت علمائے اسلام اور دیگر بہت سی جماعتوں نے انتخابی عمل پر تحفظات کا اظہار کیا اور اس حوالے سے الیکشن کے بجائے سلیکشن کے الزامات سننے کو ملتے رہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ انتقالِ اقتدار کے حوالے سے انتخابی عمل کی شفافیت پر آئے روز انگلیاں کیوں اُٹھتی رہتی ہیں اور ہر نئے انتخابات کے بعد اس حوالے سے جو نت نئی باتیں سننے کو ملتی ہیں‘ ان کے تدارک کے لیے کوئی منظم لائحہ عمل کیوں تیار نہیں کیا جاتا؟ جب تک اس حوالے سے ہمارے قومی ادارے، سیاسی جماعتیں ایک پیج پر آ کر انتخابی شفافیت کے حوالے سے منظم لائحہ عمل نہیں بنائیں گی ملک میں سیاسی عدم استحکام کی فضا برقرار رہے گی۔ سقوط ِڈھاکہ کا سانحہ پاکستان کو مذہب کی بنیاد پر متحد رکھنے اور انتخابات کی شفافیت کا درس دیتا ہے۔ ہمیں اس بڑے سانحے سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے قومی معاملات کو درست سمت پر گامزن کرنے کے لیے مضبوط لائحہ عمل اپنانا چاہیے۔ اگر ہم اس حوالے سے مضبوط لائحہ عمل اپنا نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقینا ہم نے سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے کے سبق کو حاصل کیا‘ وگرنہ ہمیں اپنی بصیرت وبصارت کا ازسرنو جائزہ لینا ہو گا کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی ہم اپنے طرزِ عمل کو درست کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان کو ایک مضبوط اور مستحکم ریاست کی حیثیت سے برقرار رکھے ، آمین !