"AIZ" (space) message & send to 7575

کیا کھویا‘ کیا پایا؟

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو زمین پر ایک وقتِ مقررہ تک کے لیے بھیجا ہے اور ہر انسان کو اپنی زندگی کے ماہ وسال مکمل کرنے کے بعد بالآخر اپنے پروردگار کی طرف پلٹنا ہے۔ اس زندگی کے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے ہر انسان کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں اور ان ترجیحات کی روشنی میں انسان اپنی زندگی کے لائحہ عمل کو مرتب کرتا ہے۔ اس لائحہ عمل کی ترتیب کے دوران انسانوں کا تجربہ،مشاہدہ اور مطالعہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان اپنی زندگی کے شیڈول کو مرتب کرنے کے لیے اپنے دوست احباب، اعزہ واقارب کی مشاورت پر بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان اس زندگی میں کئی مرتبہ درست فیصلے اور کئی مرتبہ غلط فیصلے کرتا ہے۔ درست فیصلے کرنے والا انسان ان فیصلوں کے نتائج سے جلد یابدیر ضرور بہرہ ور ہوتا ہے۔ اسی طرح غلط فیصلے کرنے والے لوگوں کو بھی جلد یابدیر اپنے فیصلوں کے نتائج کو بھگتنا پڑتا ہے۔ تاریخ انسانیت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس زمین پر بہت سے ایسے لوگ گزرے جن کے پاس طاقت،قوت، اقتدار، سرمایہ اور جاگیر تھی لیکن اس کے باوجود وہ ناکام اور نامراد ٹھہرے۔ ہمارے سامنے فرعون، قارون، ہامان، شداد اور ابولہب کی مثالیں موجود ہیں۔ فرعون بہت بڑا بادشاہ ہونے کے باوجود اپنے ظلم اوربربریت کی وجہ سے پکڑ میں آیا اور ہمیشہ کے لیے نشانِ عبرت بن گیا۔ اسی طرح شداد بہت بڑا جاگیر دار ہونے کے باوجود کامیابی کے ساتھ ہمکنار نہ ہو سکا اور اس کی جاگیر اس کے کسی کام نہ آئی۔ قارون کے واقعہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑی تفصیل کے ساتھ قرآنِ مجید میں بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قصص کی آیات 76تا82میں اس واقعہ کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''بے شک قارون موسیٰ کی قوم سے تھا پس اُس نے سرکشی کی اُن پر‘ اور ہم نے دیا تھا اُسے خزانوں سے (اس قدر) کہ بے شک اس کی چابیاں یقینا (اٹھانی )مشکل ہوتی تھیں ایک طاقت والی جماعت کو‘ جب کہا اُس سے اُس کی قوم نے: نہ تو اِترا‘ بلاشبہ اللہ نہیں پسند کرتا اِترانے والوں کو۔ اور تو تلاش کر اس میں جو دیا ہے تجھے اللہ نے آخرت کا گھر اور نہ بھول تو اپنا حصہ دنیا سے اور احسان کر (لوگوں پر) جس طرح اللہ نے احسان کیا ہے تجھ پر اور نہ تلاش کر زمین میں فساد‘ بے شک اللہ نہیں پسند کرتا فساد کرنے والوں کو۔ اس نے کہا: یقینا صرف میں دیا گیا ہوں یہ (مال) ایک علم (کی بنیاد) پر (جو) میرے پاس ہے اور کیا نہیں اُس نے جانا کہ یقینا اللہ ہلاک کر چکا ہے اس سے پہلے کئی اُمتیں جو (لوگ) بہت زیادہ سخت تھے اس سے قوت میں اور بہت زیادہ تھے جماعت میں اور (کیا) نہیں پوچھے جائیں گے مجرم لوگ اپنے گناہوں کے بارے میں۔ پھر وہ نکلا اپنی قوم کے سامنے اپنی زینت میں‘ کہا (اُن لوگوں نے) جو چاہتے تھے دنیوی زندگی۔ اے کاش ہمارے لیے ہوتا (اس کی) مثل جو قارون کو دیا گیا ہے بلاشبہ وہ بڑے نصیب والا ہے۔ اور کہا (اُن لوگوں نے) جو علم دیے گئے تھے‘ افسوس تم پر! اللہ کا ثواب بہت بہتر ہے (اُس شخص) کے لیے جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا اور نہیں دی جاتی یہ چیز مگر صبر کرنے والوں ہی کو۔ تو ہم نے دھنسا دیا اس کو اور اُس کے گھر کو (خزانوں سمیت) زمین میں‘ پھر نہ تھا اُس کے لیے کوئی گروہ (جو) مدد کرتا اس کی اللہ کے سوا اور نہ تھا وہ (خود) بدلہ لینے والوں میں سے۔ اور ہو گئے (وہ لوگ) جنہوں نے تمنا کی تھی اُس کے مرتبے کی کل کو (اس حال میں کہ) وہ کہہ رہے تھے ہائے افسوس (ہم نے کیا آرزو کی)۔ اللہ (تو) فراخ کرتا ہے رزق کو جس کے لیے وہ چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اور وہی تنگ کرتا ہے (جس کے لیے چاہتا ہے)۔ اگر نہ کرتا اللہ ہم پر احسان تو دھنسا دیتا ہمیں بھی‘ ہائے خرابی! کافر نجات نہیں پا سکتے‘‘۔
قرآنِ مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابولہب کا بھی ذکر کیا جو مکہ کا سردار اور نبی کریمﷺ کا چچا ہونے کے باوجود دین اسلام کی دشمنی پر آمادہ وتیار رہا۔ اس کو اپنے مال، چودھراہٹ اور حسب ونسب پر ناز تھا لیکن یہ چیزیں اس کے کسی کام نہ آئیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے کردار اور شخصیت کے ردّ میں سورہ لہب کا نزول فرمایا۔ سورہ لہب کی آیات 1 سے 3 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''ٹوٹ جائیں دونوں ہاتھ ابولہب کے اور وہ ہلاک ہو۔ نہ کام آیا اس کے اس کا مال اور (نہ) جو اس نے کمایا۔ عن قریب وہ داخل ہو گا شعلے والی آگ میں‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ہود میں بہت سی مغضوب اقوام کا ذکر کیا جنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو نشانِ عبرت بنا دیا۔قومِ نوح پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیلاب، قوم عاد پر آندھیوں، قوم ثمود اور قوم مدین پر چنگھاڑ کو مسلط کیا اور قوم سدوم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کی گئی۔ ان تمام اقوام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نشانِ عبرت بنا کر انسانوں کو یہ بات سمجھائی کہ اگر انسان بحیثیت مجموعی اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کریں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی پکڑ انتہائی شدید ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ جب چاہیں کسی پر اپنی گرفت کو مسلط کر سکتے ہیں۔
ہم بھی اپنی زندگی کے ماہ وسال سے گزرتے جا رہے ہیں۔ 2021ء اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے اور 2022 کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔ ان ماہ وسال کے دوران ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ ہمیں ان باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے انفرادی زندگی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت، رسول اللہﷺ کی محبت اور ارکان اسلام پر مداومت کو اختیار کیا اور اپنی زندگی کو نیکی کے راستے پر چلایا ہے، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے محبت کی اور حقوق العباد کی ادائیگی میں تساہل اور غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا تو ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اس کے مدمقابل اگر ہم نے مال، سرمایے، شہرت، عہدے اور منصب کو حاصل کیا لیکن اس عمل کے دوران اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی،اس کی عقوبت کو مول لیا، اس کے غضب کو دعوت دی اور حقوق انسانی کو تلف کیا تو ہمیں ٹھنڈے دل سے اپنے احوال پر غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح بحیثیت مجموعی قومی سطح پر بھی ہمیں اپنے معاملات کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اقتدار، اختیار اور منصب پر قبضہ کرنے کے لیے اصول وضوابط کو پامال کرنا اور جائز، ناجائز طریقوں میں تفریق کیے بغیر اپنے اہداف کو حاصل کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ قومی سطح پر ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ بڑے بڑے عہدیدار، صاحب منصب اور صاحب اختیار لوگ عام لوگوں کو ورغلانے کے لیے جھوٹ، فریب اور دھوکے بازی سے کام لیتے ہیں اور اپنے اہداف کو حاصل کرکے اپنے آپ کو مطمئن کر لیتے ہیں ایسے لوگوں کو فرعون، قارون، ہامان اور شداد کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور بحیثیت مجموعی جماعتی اور گروہی سطح پر بھی ہمیں اس بات کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا ہمارے معاملات درست ہیں؟ اگر ہمارے معاملات درست ہیں تو ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر ہم ان معاملات میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور غفلت اور تساہل کے راستے پر گامزن ہیں تو ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی پکڑ اور اس کی گرفت سے بے نیاز نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ مالکِ کائنات کی پکڑ انتہائی شدید ہے۔
2021ء میں اگر ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں مناسب راستے پر گامزن رہے تو ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اگر ہم نے 2021 ء میں اس مسئلے میں کوتاہی اور غفلت کا مظاہرہ کیا تو ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر ندامت کے آنسو بہانے چاہیں اور 2022 کا آغاز نئے ارادے اور عزم کے ساتھ کرنا چاہیے۔ ہمیں اس عزم کے ساتھ 2022ء میں داخل ہونا چاہیے کہ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے حقوق اور انسانوں کے حقوق میں کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کریں گے اور اپنے دینی اور دنیاوی معاملات کو درست طریقے سے ادا کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔
اس ضمن میں ہمیں اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عام طور پر نئے سال میں داخل ہونے کے لیے ہم مختلف طرح کے تہوار اور جشن منانے کی کوشش کرتے ہیں اور کردار اور عمل کی اصلاح کے بجائے خوشی کے ان طریقۂ کار کو اختیار کرتے ہیں جن کا بنیادی طور پرہمارے مذہب، ثقافت اور دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور ہم اغیار کے تہذیب و تمدن کو اختیار کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم سیدھے راستے پر گامزن ہو چکے ہیں۔ حالانکہ گزرتے ہوئے وقت کے دوران اپنے معاملات کا تجزیہ کرکے خوداحتسابی کے عمل کو آگے بڑھانا اور مستقبل میں غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرنا درحقیقت وقت گزارنے کا صحیح طریقہ ہے اور ان جشنوں اور تہواروں‘ جن کا تعلق ہمارے دین ومذہب، تہذیب وثقافت کے ساتھ نہیں‘ میں غرق ہو کر اپنے آپ کو اُلجھانا درحقیقت کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں سیدھے راستے پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں