دنیا میں کامیاب انسان کے حوالے سے لوگوں کے مختلف طرح کے تصورات ہیں۔ دنیا کے بہت سے لوگ ایسے شخص کو کامیاب سمجھتے ہیں جس کے پاس، مال، دولت، اسباب، شہرت اور اعلیٰ عہدہ موجود ہو۔ اس کے مدمقابل بہت سے لوگ اخلاق اور کردار کو بھی انسانی زندگی میں اہمیت دیتے ہیں۔ معاشرے کا ایک بڑا طبقہ مادی کامیابی کو دیگر معاملات پر ترجیح دیتا ہے اور مادی اعتبار ہی سے انسان کی کامیابی کو جانچا جاتا ہے۔ اس حوالے سے جب کتاب وسنت کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو بیش قیمت معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ کتاب وسنت کا مطالعہ ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ اچھے اور کامیاب انسان کے لیے مختلف قسم کے اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے۔ اس حوالے سے سورہ بقرہ کی آیت نمبر177 درج ذیل ہے: ''نیکی (یہی ) نہیں کہ تم پھیر لو اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف (نماز میں) لیکن(اصل) نیکی یہ ہے‘ جو ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن اور فرشتوں پر اور کتاب (قرآنِ مجید) اور نبیوں پر اور دے (اپنا ) مال اس (اللہ) کی محبت کی خاطر قریبی رشتہ داروں اور یتیموں اور مساکین کو اور مسافروں اور مانگنے والوں کو اور گردنیں (آزاد کرانے) میں اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور پورا کرنے والے ہوں اپنے عہد کو جب (بھی) وہ عہد کریں اور صبر کرنے والے ہوں تنگ دستی اور بیماری میں اور جنگ کے وقت (دوران)‘ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ پرہیز گار ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں نیکی کے حوالے سے مختلف باتوں کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ پہلی بات یہ کہ انسان کا ایمان اللہ تبارک وتعالیٰ، انبیاء کرام، قرآنِ مجید،فرشتوں اور یوم حساب پر ہونا چاہیے یعنی ارکانِ ایمان پر اس کا یقین مستحکم ہونا چاہیے اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ نیکی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنے مال کو اللہ کی محبت کی خاطر قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مساکین، مسافروں، مانگنے والوں اور گردنیں آزاد کروانے والوں پر خرچ کرے۔ گویا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارکانِ ایمان کے بعد انسانوں کے کام آنے کا ذکر بڑی تفصیل اور خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اس امر کا بھی ذکر کیا گیا کہ نیکی کا تقاضا یہ ہے کہ نماز کو قائم کیا جائے، زکوٰۃ دی جائے، اپنے وعدوں کو پورا کیا جائے اور تنگدستی، بیماری اور جنگ کے دوران صبرکیا جائے۔
جب ہم اس آیت مبارکہ پر غور کرتے ہیں تو اس میں حقوق اللہ، حقوق العباد اور اعلیٰ پائے کے اخلاقی اُمور کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جن مقدس اور عظیم باپوں کا ذکر کیا ‘ان میں حضرت ابراہیم، حضرت یعقوب اور حضرت لقمان علیہم السلام شامل ہیں۔ جب ہم ان عظیم باپوں کے کردار اور عمل پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انہوں نے اپنی اولادوں کو نیکی کی طرف راغب کرنے کے لیے بہت ہی خوبصورت انداز میں رہنمائی کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لقمان علیہ السلام کی خوبصورت نصیحتوں کا ذکر سورہ لقمان میں کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لقمان کی وصیتوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو بھی بیان کیا کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو یہ بات کہی تھی کہ وہ نماز کو قائم کرے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کردار ادا کرے اور ہر آنے والی تکلیف پر صبر کرے۔ بے شک مصائب پر صبر کرنا ہمت کے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ اسی طرح حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو غرور اور تکبر سے بچنے کی تلقین کی اور اس کو یہ بات سمجھائی کہ اسے اپنے رخسار کو لوگوں کے لیے نہیں پھلانا چاہیے اور زمین پر اکڑ کر چلنے سے گریز کرنا چاہیے کہ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ تکبر والی چال کو پسند نہیں کرتا۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اس بات کی بھی وصیت کی تھی کہ اس کو اپنی چال کو میانہ رکھنا چاہیے اور اپنی آواز کو پست رکھنا چاہیے‘ اس لیے کہ چیخنا، چلانا اور عجیب وغریب آوازیں نکالنا یقینا حیوانات کا کام ہے جن میں سے بدترین آواز گدھے کی ہے۔
اسی طرح جب ہم قرآنِ مجید کے دیگر مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں بھی اس امر کی وضاحت ملتی ہے کہ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حقوق کو بھی ادا کرنا چاہیے اور انسان ہونے کے ناتے جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں‘ ان کو بھی احسن طریقے سے نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان اُمور کو بہت ہی خوبصورت انداز میں واضح کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیات 23 تا 24میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور فیصلہ کیا آپ کے رب نے کہ تم عبادت کرو مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا (حکم دیا) اگر وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو‘ ان دونوں میں سے ایک یا دونوں‘ تو مت کہہ ان دونوں کو اُف بھی اور مت ڈانٹ ان دونوں کو اور کہہ ان دونوں سے نرم بات۔ اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو رحمدلی سے اور کہہ (اے میرے ) رب! رحم فرما ان دونوں پر جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے بچپن میں‘‘۔ ان آیات مبارکہ میں جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی بندگی کا حکم دیا وہیں ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کا بھی حکم دیا اور ان کے ساتھ اُف تک کرنے سے بھی منع فرمایا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل ہی کی آیات مبارکہ میں دیگر بہت سے اہم اُمور کی طرف بھی نشاندہی کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیات 32 تا 38میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تم مت قریب جاؤ زنا کے‘ بے شک وہ بے حیائی کا اور برا راستہ ہے۔ اور مت قتل کرو اس جان کو جسے حرام کر دیا اللہ نے مگر حق کے ساتھ، اور جو قتل کیا گیا مظلومی کی حالت میں تو یقینا ہم نے کر دیا ہے اس کے ولی کے لیے غلبہ تو نہ وہ زیادتی کرے قتل کرنے میں‘ بے شک وہ مدد دیا ہوا ہے۔ اور مت قریب جاؤ یتیم کے مال کے مگر (اس طریقے) سے جو بہت ہی بہتر ہو ‘یہاں تک کہ وہ پہنچ جائے اپنی جوانی کو اور پورا کرو (اپنے) عہد کو بے شک عہد (کے بارے میں) باز پر س ہو گی۔ اور تم پورا کرو ماپ کو جب تم ماپو اور تم وزن کرو سیدھے ترازو کے ساتھ‘ یہی بہتر ہے اور بہت اچھا ہے انجام کے لحاظ سے اور نہ آپ پیچھا کریں (اس کا) جو نہیں آپ کو اس کا کوئی علم‘ بے شک کان اور آنکھ اور دل ہر ایک سے ہوگی اس کے بارے میں باز پرس۔ اور مت چل زمین میں اکڑ کر‘ بے شک تو ہرگز نہیں پھاڑ سکے گا زمین کو اور ہرگز نہیں تو پہنچ سکے گا پہاڑوں (کی چوٹی) تک لمبا ہو کر۔ یہ سب (کام) ہیں ان کی برائی تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ ہے‘‘ ۔ان آیات مبارکہ میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے اہم اُمور کی طرف نشاندہی کی اور انسان کو فحاشی سے بچنے کا حکم دیا۔ مالِ یتیم سے اجتناب کی تلقین کی، ایفائے عہد کی بات کی، پورا تولنے اور ماپنے کا حکم دیا،تجسس سے منع کیا اور زمین پر اکڑ کر چلنے سے بھی منع کیا۔
ان اُمور پر غوروفکر کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک اچھا انسان ہونے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی، انسانی حقوق کی ادائیگی اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کا پایا جانا انتہائی ضروری ہے۔ جس انسان میں یہ تینوں چیزیں پائی جائیں یقینا وہ کامیاب اور ایک اچھا انسان ہے اور جو انسان ان چیزوں سے محروم ہو اس کو اپنے کردار اور عمل پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو کامیاب اور اچھے انسان کے سانچے میں ڈالنا چاہتا ہے اُس کو معاشرے میں پائے جانے والے ہر درست اور نادرست تصور کو اختیار کرنے کے بجائے ان احکامات اور تصورات کو قبول کرنا چاہیے جن کا ذکر کتاب وسنت میں کیا گیا ہے۔ فقط مادی عروج ہی کو کامیابی کی دلیل سمجھنے والوں کو فرعون، قارون، ہامان، نمرود، شداد اور ابولہب کے کردار پر غور کرنا چاہیے اور اُن کو سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں مادی عروج کو حاصل کرنے والے یہ تمام لوگ ناکام اور نامراد رہے۔ اس کے مدمقابل دنیا میں بہت سے غریب اور مفلوک الحال لوگ پاکیزہ زندگی گزار کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کوصحیح معنوں میں اچھائی کی معرفت کو حاصل کرنے اور اچھی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !