انسان کی زندگی مختلف ادوار سے گزرتی ہے‘ کبھی یہاں خوشیاں ہیں تو کبھی یہاں غم ہیں، کبھی یہاں کشادگی ہے تو کبھی تنگی، کبھی یہاں صحت ہے تو کبھی بیماری۔ انسان مختلف ادوار سے گزرتا ہوا بالآخر اپنے وقتِ مقررہ پر دنیا کو خیرباد کہہ کر اپنے خالقِ حقیقی کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اپنے خالق ومالک کے پاس جا کر اس کو اپنے اعمال کے حوالے سے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ انسان کی زندگی مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی بالآخر موت کی وادی میں اتر جاتی ہے لیکن یہ انسان کی بہت بڑی کوتاہ بینی ہے کہ وہ اپنی موت کے وقت کو فراموش کر دیتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ شاید وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے آیا ہے۔ وہ موت کو دوسروں پر طاری ہونے والی چیز سمجھتا ہے جبکہ اپنی ذات کے حوالے سے اس گمان میں مبتلا رہتا ہے کہ وہ شاید دنیا میں ہمیشہ رہے گا۔ یقینا طبعی اعتبار سے دنیا سے رخصت ہو جانا بھی باعثِ عبرت ہے اور اس میں انسانوں کے لیے غوروفکر اور سوچ بچار کا بہت سا سامان موجود ہے لیکن کسی حادثے اور سانحے کے نتیجے میں اچانک دنیا سے چلے جانے والے کے اثرات مدتِ مدید تک انسانوں کے ذہنوں پر چھائے رہتے ہیں۔
والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کو دنیا سے رخصت ہوئے 30 برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ جس دن ان کے جلسے میں بم دھماکہ ہوا‘ وہ بالکل بھلے چنگے تھے اور اس بات کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ اچانک فانی دنیا کو خیرباد کہہ دیں گے، لیکن بم دھماکے کے بعد وہ شدید زخمی ہوئے۔ چند دنوں بعد ہی آپ کو ریاض کے ملٹری ہسپتال میں علاج کے لیے منتقل کیا گیا جہاں پر آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی رحلت کا واقعہ آج تک ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے۔
چند دن قبل‘ عزیز دوست علی ظہیر حیدری کے دو خوبصورت بچے ایک حادثے میں دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ یقینا یہ سانحہ علی ظہیر حیدری کے لیے جہاں بہت بڑا صدمہ ہے وہیں اس سے وابستہ ہر شخص اس کی کسک کو مدتِ مدید تک محسوس کرتا رہے گا۔ کئی سانحے اور حادثے بہت بڑے ہوتے ہیں اور ان کے نتیجے میں بہت سے انسان جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ ایک عرصہ قبل سونامی کی لہروں نے دنیا کے بہت بڑے حصے کو متاثر کیا اور بہت بڑی تعداد میں لوگ اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ اسی طرح 2005ء میں بالا کوٹ میں آنے والے زلزلے نے بھی انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو نگل لیا تھا۔ ہنستے بستے گھر اُجڑگئے تھے‘ بہت سے لوگ اپنے والدین سے اور بہت سے لوگ اپنے بیوی‘ بچوں سے محروم ہو گئے تھے۔
گزشتہ دنوں مری میں ہونے والی شدید برف باری کے نتیجے میں درجنوں افراد دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ سانحۂ مری میں یقینا اس اعتبار سے عبرت کا بہت سامان موجود ہے کہ عام طور پر لوگ مری اور شمالی علاقہ جات میں اپنے وقت کو اچھے انداز میں گزارنے کے لیے جاتے ہیں اور کوئی شخص اس بات کا گمان بھی نہیں کر سکتا کہ اچانک پیغامِ اجل آ جائے گا اور اس کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ سانحۂ مری کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں نے ایک مرتبہ پھر پوری شدت سے اس بات کا احساس دلایا ہے کہ انسان کا قیام اس دنیا میں عارضی ہے اور وہ کسی بھی وقت دنیا ئے فانی سے کوچ کر سکتا ہے۔ سانحۂ مری کے سبب ہونے والی ہلاکتوں نے انسانوں کی بے بسی اور کمزوری کو بھی اجاگر کیاہے کہ فطرت اور قدرت کی طاقت کے مقابلے میں انسان انتہائی کمزور اور ناتواں ہے۔ وہی انسان جوکئی مرتبہ اپنی حیثیت کو فراموش کرکے تکبر کے راستے پر چل نکلتا ہے جب کسی حادثے، بیماری یا سانحے کی لپیٹ میں آتا ہے تو اس کو اپنی کمزوری اور بے وقعتی کا احساس بڑی شدت کے ساتھ ستاتا ہے اور وہ اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں اور وہ اس دھرتی پر کمزور مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ مری میں جس انداز سے یخ بستہ موسم نے انسانی جانوں کو نگل لیا اُس نے اِس امر کو بھی اجاگر کیا کہ کئی مرتبہ خوشیوں کی گود ہی سے غم جنم لیتے ہیں اور سبزہ زاربھی قبرستان کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ سانحۂ مری میں ہونے والی ہلاکتیں یقینا ہر اعتبار سے دلدوز ہیں اور وہ اس تصورکو اجاگر کرتی ہیں کہ جلد یا بدیر‘ انسان کو اپنے خالق ومالک کی طرف پلٹنا ہو گا۔
دنیا میں درجنوں قسم کے افکار، نظریات، عقائد اور مذاہب کے پیروکار بستے ہیں جن کوبہت سے اُمورپر ایک دوسرے سے اختلاف ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ موت ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے کسی بھی مذہب اور نظریے کے پیروکار کو انکار کرنے کی جسارت اور جرأت نہیں ہے اور ہر شخص اس بات کو ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ موت کسی وقت بھی آ سکتی ہے اور اچانک انسان کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کے حوالے سے کتاب وسنت میں نہایت اَحسن انداز میں رہنمائی کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قصص کی آیت نمبر 88میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے مگر اُس کا چہرہ (یعنی ذات) (اور) اُسی کے لیے ہے حکم (فرمانروائی) اور اُسی کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر34میں ارشاد فرمایا: ''اور ہر اُمت کے لیے ایک وقت (مقرر) ہے پھر جب آجاتا ہے ان کا وقت (تو) نہیں پیچھے ہوتے ایک لحظہ (کے لیے) اور نہ وہ آگے ہوتے ہیں‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا اس دنیا سے جانے کا ایک وقت مقرر ہے۔ موت وحیات کی تخلیق کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر نہایت بلیغ انداز میں گفتگو کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ملک کی آیات 1 تا 2میں ارشاد فرماتے ہیں : ''بہت برکت والا ہے وہ جو (کہ) اس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی، اور وہ ہر چیز پر قادرہے۔ (وہ) جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو،تاکہ وہ آزمائے تمہیں (کہ) تم میں سے کون زیادہ اچھا ہے عمل کے لحاظ سے اور وہی غالب اور خوب بخشنے والا ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر185میں ارشاد فرمایا: ''ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا تمہارے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن‘ پس جو بچا لیا گیا (جہنم کی ) آگ سے اور داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور نہیں ہے دنیا وی زندگی مگر دھوکے کا سامان‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو قیامت کے روز اپنے اعمال کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونا پڑے گا اور وہاں پر اس کو اپنے اعمال کا پورا پورا جواب دینا ہو گا۔
مادی عروج کی وجہ سے انسانوں کے دل اور دماغ میں آخرت کا احساس اور یقین کمزور پڑ چکا ہے اور بہت سے لوگ یومِ جزا کے بارے میں تذبذب اور تشویش کا شکار ہیں۔ یومِ جزا کے حوالے سے جب ہم قرآنِ مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت سی بلیغ معلومات حاصل ہوتی ہیں اور یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ قیامت کا دن یقینا قائم ہو کر رہے گا۔ اس دن کی ہولناکیوں کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر نہایت بیش بہا معلومات فراہم کی ہیں۔ جن میں سے ایک مقام سورۃ القارعہ کا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ قارعہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کھٹکھٹانے والی۔ کیا ہے کھٹکھٹانے والی۔ اور آپ کیا جانیں کیا ہے کھٹکھٹانے والی۔ اس دن ہوں گے لوگ پروانوں کی طرح بکھرے ہوئے۔ اور ہوں گے پہاڑ دُھنکی ہوئی رنگین اون کی طرح۔ پس رہا وہ (کامیاب) جو (کہ) بھاری ہو گئے اس کے پلڑے۔ تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہو گا۔ اور رہا وہ (خسارے میں) جو (کہ) ہلکے ہو گئے اس کے پلڑے۔ تو اس کا ٹھکانا ہاویہ ہے۔ اور آپ کیا جانیں وہ (ہاویہ) کیا ہے۔ آگ ہے دہکتی ہوئی‘‘۔
اسی طرح قرآنِ مجید کے دیگر کئی مقامات (جن میں سورہ واقعہ، سورہ حاقہ، سورہ غاشیہ اور سورہ حج قابل ذکر ہیں) میں بھی قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرکے قیامت کے وقوعے کو نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ انسان کو جہاں اپنے گردوپیش میں ہونے والی اموات سے نصیحت حاصل کرکے اپنی موت کے بعد آنے والے ایام کے بارے میں آمادہ وتیار رہنا چاہیے‘ وہیں اس کو دنیا کے مختلف مقامات پر ہونے والے حادثات اور ہلاکتوں سے بھی سبق حاصل کرنا چاہیے اور اپنی موت کے بعد آنے والی زندگی کو سنوارنے کے لیے اس دنیا میں جستجو کرتے رہنا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے اور نبی کریمﷺ کے بتلائے ہوئے راستے پر چل کر دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو فکرِ آخرت عطا فرمائے اور موت کے بعد آنے والے لمحات کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے، آمین!