اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا فرمائی ہے‘ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ سورۃ التین کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بلاشبہ ہم نے پیدا کیا انسان کو بہترین شکل وصورت میں‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 70میں ارشاد فرمایا: ''اور یقینا ہم نے عزت دی بنی آدم کو اور ہم نے سوار کیا انہیں خشکی میں اور سمندر (میں) اور ہم نے رزق دیا انہیں پاکیزہ چیزوں سے اورہم نے فضیلت دی انہیں بہت (سی مخلوقات) پر‘ ان میں سے جنہیں ہم نے پیدا کیا‘‘۔ انسان کو ملنے والا یہ شرف اسی وقت تک معنی خیز ہے جب تک انسان راہِ ہدایت اور ایمان پر ہو۔ اگر انسان سیدھے راستے سے بھٹک جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جانوروں اور چوپایوں سے بھی بدتر قرار دیاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 179میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بے شک ہم نے پیدا کیے جہنم کے لیے بہت سے جن اور انسان‘ اُن کے دل ہیں (لیکن) وہ سمجھتے نہیں اُن سے اور اُن کی آنکھیں ہیں (لیکن) وہ دیکھتے نہیں اُن سے اور اُن کے کان ہیں (لیکن) وہ سنتے نہیں اُن سے‘ یہ لوگ چوپائیوں کی طرح ہیں بلکہ وہ (اُن سے بھی)زیادہ گمراہ ہیں‘‘۔ اس کے مقابل جب انسان اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کی اطاعت کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے شرف کو بلند فرمادیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں چار انعام یافتہ طبقات کا ذکر کیا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ اُن کو ان انعام یافتہ لوگوں کے ہمراہ شامل فرما دے گا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 69میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اطاعت کرے اللہ اور (اس کے) رسول کی تو وہ لوگ (ان کے) ساتھ ہوں گے جو اللہ نے انعام کیا اُن پر‘ نبیوں میں سے اور صدیقین اور شہداء اور نیک لوگوں (میں سے ) اور بہت خوب ہیں وہ لوگ رفاقت کے لحاظ سے‘‘۔
گروہِ انبیاء کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے کلام کے شرف کو حاصل کیا اور یہ شرف کسی دوسرے کو حاصل نہ ہوا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 51میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور کسی بشر کے لیے (ممکن) نہیں ہے کہ اللہ اُس سے کلام کرے مگر وحی (الہام) کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا (یہ کہ) وہ کوئی رسول (فرشتہ) بھیجے جو وحی پہنچاتا ہے اس کے حکم سے‘‘۔ انبیاء کرام کی مقدس جماعت کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے صدیقین کو بلند مقام عطا کیا ۔ اُمتِ مسلمہ میں سے جس شخصیت کو متعین کرکے صدیق قرار دیا گیا وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذاتِ گرامی ہے۔
سلسلہ احادیث صحیحہ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو جس وجہ سے صدیق قرار دیا گیا وہ روایت یوں ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی کریمﷺ کو مسجد اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا،لوگ اس کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ آپﷺ پر جو لوگ ایمان لائے تھے اور آپ کی تصدیق کی تھی‘ ان میں سے کچھ لوگ مرتد ہو گئے اور دوڑتے ہوئے ابو بکر(رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے کہنے لگے: اپنے ساتھی کو دیکھو، اس کا خیال ہے کہ اسے رات کے وقت بیت المقدس لے جایا گیا ہے؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا یہ بات انہوں نے خود کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔ ابو بکررضی اللہ عنہ نے کہا: اگر انہوں نے یہ بات کہی ہے تو یقینا انہوں نے سچ کہا۔ لوگوں نے کہا: کیا آپ اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ وہ رات کے وقت بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے آگئے؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں! میں تو اس سے بھی بڑی بات (نبوت)کی تصدیق کرتا ہوں، میں صبح یا شام کو آسمان سے آنے والی خبر (وحی) کی بھی تصدیق کرتا ہوں۔اسی وجہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا خطاب صدیق ہوا۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے مردوں میں سے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پوری زندگی حضرت رسول اللہﷺ کے ہم رقاب رہے اور مکہ مکرمہ کی زندگی کے ساتھ ساتھ مدینہ طیبہ کی زندگی میں بھی آپؓ ہر لمحہ رسو ل اللہﷺ کے ہمراہ رہے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ آپؓ نے ہجرت کے وقت رسول اللہﷺ کے ہمراہ غار ثور میں وقت گزارا اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؓ کو ''رسو ل اللہﷺ کا صاحب‘‘ قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس واقعے کو سورہ توبہ کی آیت نمبر 40 میں یوں ذکر فرمایا ہے: ''اگر نہ تم مدد کرو گے اس کی تو یقینا مدد کر چکا ہے اس کی اللہ‘ جب نکال دیا تھا اُسے (اُن لوگوں نے) جنہوں نے کفر کیا وہ دوسرا تھا دو میں سے‘ جب وہ دونوں تھے غار میں (اور) جب وہ کہہ رہا تھا اپنے ساتھی سے تو غم نہ کر‘ بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر نازل کی اللہ نے اپنی سکینت اُس پر اور قوت دی اُسے (اپنے) لشکروں سے (کہ) نہیں دیکھا تم نے اُنہیں اور کر دی بات (اُن لوگوں کی) جنہوں نے کفر کیا پست اور اللہ کی بات ہی سب سے بلند ہے اور اللہ خوب غالب بہت حکمت والا ہے‘‘۔ اس حوالے سے صحیح مسلم کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا اور کہا: جس وقت ہم غار میں تھے، میں نے اپنے سروں کی جانب (غار کے اوپر) مشرکین کے قدم دیکھے، میں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پیروں کی طرف نظر کی تو وہ نیچے ہمیں دیکھ لے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر! تمہارا اُن دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے؟ (انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچ سکتا) ۔
غارِثور میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت اور وابستگی کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؓ کو یہ شرف عطا فرمایا کہ قیامت کی صبح تک کے لیے وفاداری، رفاقت اور ہمراہی کے حوالے سے ''یارِ غار‘‘ ایک استعارے کی شکل اختیار کر گیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے فضائل میں بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ میں جوڑا جوڑا خرچ کیا، اسے جنت کے پہرے دار بلائیں گے، دروازے کے تمام پہر ے دار (کہیں گے:) اے فلاں! آجاؤ۔ اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ! ایسے فرد کو کسی قسم (کے نقصان) کا اندیشہ نہیں ہو گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے امید ہے کہ تم اُنہی میں سے ہو گے۔
صحیح مسلم میں روایت ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: آج تم میں سے روزے دار کون ہے؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا: آج تم میں سے جنازے کے ساتھ کون گیا؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ آپﷺ نے استفسار فرمایا: آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دوبارہ جواب دیا: میں نے۔ آپﷺ نے پوچھا: آج تم میں سے کسی بیمار کی تیمار داری کس نے کی ہے؟ اس پر بھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کسی انسان میں یہ نیکیاں جمع نہیں ہوتیں مگر وہ یقینا جنت میں داخل ہوتاہے۔
صحیح مسلم میں حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو ہم ایک چرواہے کے پاس سے گزرے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیاس لگی ہوئی تھی، انہوں (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کچھ دودھ دوہا، پھر میں آپﷺ کے پاس وہ دودھ لایا، آپﷺ نے اسے نوش فرمایا، یہاں تک کہ میں راضی ہو گیا۔
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کوہ ِحرا پر تھے۔ وہ ہلنے لگا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ٹھہرجا! تجھ پر نبی یا صدیق یا شہید کے سوااور کوئی نہیں۔ اس وقت پہاڑ پر نبی کریمﷺ تھے اور (آپﷺ کے ساتھ) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نبی کریمﷺ کی زندگی کے ساتھی رہے اور آپﷺ کی رحلت کے بعد آپﷺ کے خلیفہ بھی بنے۔ آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں بہت سے اہم چیلنجز کا سامنا کیا۔ مرتدین کی سرکوبی کی، مانعین زکوٰۃ سے زکوٰۃ وصول کی، لشکر کی روانگی اور نبی کریمﷺ کے فرمودات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کیے رکھا۔ آپؓ نے اپنے مختصر دورِ خلافت میں خلافت کی ذمہ داریوں کو کما حقہٗ پورا کیا اور بیت المال کو ذاتی تصرف کے لیے استعمال کرنے سے مکمل طور پر اجتناب کیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے شرف میں یہ بات شامل ہے کہ جب آپؓ دنیا سے رخصت ہوئے تو آپؓ ہمیشہ کے لیے نبی کریمﷺ کے ساتھ محوِ خواب ہو گئے اور یوں زندگی میں کی جانے والی محبت وفات کے بعد بھی ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔
حضرت ابو بکرصدیقؓ نے گورننس کے جن اصولوں کو وضع کیا ان پر عمل پیرا ہو کر معاشرے کی فلاح وبہبود کا فریضہ بطریقِ احسن انجام دیا جا سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سیرت وکردار سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !