ہمارے معاشرے میں نومبر سے لے کر فروری تک شادی‘ بیاہ کی تقریبات بکثرت ہوتی ہیں۔ ہر شخص اپنی اپنی استعداد کے مطابق اپنے وسائل اور توانائیوں کو استعمال کرکے شادی بیاہ کی تقریبات کا انعقاد کرتا ہے۔ ان تقاریب میں مجھے بھی شرکت کا گاہے گاہے موقع ملتا رہتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ غریب افراد اپنی کل جمع پونجی بچوں کی شادیوں پر لگا دیتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنے بیٹے یا بیٹی کے ارمانوں کو پورا کیا جائے اور معاشرتی تقاضوں کے ساتھ عہدہ برآ ہوا جائے۔ اس کے مدمقابل امرا کی شادیوں میں بہت زیادہ اسراف دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان تقاریب میں بہت سی نا خوشگوار باتیں بھی نظر آتی ہیں۔شادی‘ بیاہ کی ان تقاریب میں بالعموم اختلاط، بے پردگی اور موسیقی کا استعمال کیا جاتا ہے جو کسی بھی طور پر شریعت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔ انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنے وسائل کو استعمال کر کے خوشیوں کو خریدنے کے قابل ہو جائے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت سی شادیاں بکثرت وسائل کے استعمال کے باوجود کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پاتیں بلکہ ان کے نتائج کئی مرتبہ گھر ٹوٹنے کی شکل میں نکلتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں فقط وسائل کے استعمال کی اہمیت نہیں بلکہ دیگر بہت سے اہم تقاضوں کوپورا کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
ایک کامیاب شادی کے لیے شریعت نے بعض اہم لوازمات کی طرف انسانوں کی رہنمائی کی ہے‘ اگر ان کو پورا کر لیا جائے تو شادی کے کامیاب ہونے کے امکانات بہت بڑ ھ جاتے ہیں۔ مجھے شادی بیاہ کی بہت سی تقریبات میں خطبۂ نکاح دینے کا موقع بھی ملتا رہتا ہے۔ اس خطبۂ نکاح میں جن آیات کی تلاوت کی جاتی ہے ان میں بہت سے ایسے اُمور کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جن کو اختیار کرنے کے بعد ایک بندھن کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ انسان بہت سی خوشیوں کو سمیٹنے کے قابل بھی ہو سکتا ہے اور مثالی گھرانہ بھی معرضِ وجود میں آسکتا ہے۔ وہ آیاتِ مبارکہ جن کو خطبۂ نکاح کے موقع پر تلاوت کیا جاتا ہے‘ درج ذیل ہیں:
سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر میں 102 میں ارشاد ہوا: ''اے وہ لوگو جو یمان لائے ہو! اللہ سے (ایسے) ڈرو (جیسا کہ) اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو ‘‘۔سورہ نساء کی آیت نمبر 1 میں ارشاد ہوا: ''اے لوگو ! ڈرو اپنے رب سے جس نے تمہیں پیدا کیا ایک جان (آدم) سے اور اس نے پیدا کیا اُس (جان) سے اُس کا جوڑا ‘اور پھیلا دیے اُن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں‘ اور ڈرتے رہو اللہ سے جو (کہ) تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اس کا واسطہ دے کر اور رشتوں (کو توڑنے) سے (بھی ڈرو) بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے‘‘۔
سورہ احزاب کی آیات 70 تا 71 میں ارشاد ہوا: ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور باکل سیدھی بات کہو۔ وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اور اُس کے رسول کی‘ تو یقینا اُس نے کامیابی حاصل کی‘ بہت بڑی کامیابی‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ میں دیے گئے پیغام پر اگر غور کر لیا جائے تو یقینا جہاں شادی کا دن خوشگوار اور کامیابی سے گزارا جا سکتا ہے وہیں شادی کے بعد آنے والی زندگی میں بھی خوشیوں کو سمیٹا جا سکتا ہے۔ ان آیاتِ مبارکہ میں دیے گئے پیغامات میں درج ذیل اُمور شامل ہیں:
1۔ تقویٰ : تقویٰ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرتے ہوئے گناہوں سے بچ جانے کا نام ہے۔ جب کوئی انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرتے ہوئے گناہوں سے بچنا شروع کر دیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے تنگیوں‘ مشکلات اور تکالیف سے نکلنے کا راستہ بنا دیتے ہیں‘ اس کے معاملات کو آسان بنا دیتے اور اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ ان تمام اُمور کا ذکر سورہ طلاق کی آیات 2 تا 3میں کچھ یوں کیا گیا ہے ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اُس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا‘‘۔ اسی طرح آیت 4 میں فرمایا ''جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ کر دے گا اُس کے لیے اُس کے کام میں آسانی‘‘۔ آیت 5 میں فرمایا''اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ دور کر دے گا اُس سے اُس کی برائیاں اور وہ زیادہ دے گا اُس کو اجر‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرنے کے نتیجے میں انسان متعدد فوائد کو حاصل کر سکتا ہے۔ ایک ہنستے بستے گھرانے کو جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آسانیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والے رزق کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور زندگی کے بحرانوں کے دوران آنے والی تنگیوں سے عہدہ برآ ہونے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان اُمور میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرنا چاہیے؛ چنانچہ شادی بیاہ کی تقریبات میں نمودو نمائش اور وسائل کے مسابقت کے بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو غیر معمولی اہمیت دینی چاہیے تاکہ شادی بیاہ کی تقریبات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور نصرت کو حاصل کیا جا سکے۔
2۔ خاتمہ بالخیر: انسان کو زندگی کے تمام اُمور کو بطریق احسن انجام دینے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری والی موت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ بات تبھی ممکن ہے جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت والی زندگی گزار رہاہو اس لیے کہ انسان کو اپنی موت کے وقت کا کچھ پتا نہیں ہے۔ انسان کسی بھی لمحے موت کی وادی میں اُتر سکتا ہے؛ چنانچہ اگر وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری والی زندگی گزار رہا ہو گا تو اس کو موت ایسی حالت میں آئے گی جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ اُس سے راضی ہوں گے اور وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی عقوبت او ر گرفت سے محفوظ ہو سکے گا۔ اس کے مدمقابل اگر وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی والے کاموں میں ملوث ہو گا تو اس کو موت اس حالت میں آئے گی جہاں وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی والی زندگی گزار رہا ہو گا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی والے کاموں سے اجتناب کرنا اس لیے نہایت ضروری ہے کہ انسان اپنی موت کے وقت سے نا آشنا ہے ۔ اگر خدا نخواستہ اس کو موت ایسی حالت میں آ گئی جہاں وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی والی زندگی گزار رہا ہو تو ایسی صورت میں وہ موت کے وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے تابعداروں میں شمار نہیں ہو سکے گا۔
3۔ مساواتِ بنی آدم: ان آیات میں مساواتِ بنی آدم کا بھی درس دیا گیا ہے ۔ شادیاں مختلف قبائل اور خاندانو ں کے درمیان ہوتی ہیں اس لیے کئی مرتبہ ایک خاندان اپنے آپ کو دوسرے خاندان کے مقابلے میں زیادہ اعلیٰ اور افضل سمجھتے ہوئے دوسرے کی تحقیر پر آمادہ وتیا ر ہو جاتا ہے۔ دُلہا کو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دلہن کا تعلق خواہ کسی بھی برادری سے ہو وہ اس سے کمتر نہیں اور دلہن کو بھی اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دُلہا کا تعلق خواہ کسی بھی براردی سے ہو وہ اس سے کمتر نہیں۔ اس لیے کہ ہم سب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں جب ہماری اصل ایک ہے تو ہمیں اپنے حسب ونسب کی وجہ سے دوسرے کو کمتر نہیں جاننا چاہیے۔ مساواتِ بنی آدم کا درس یاد رکھنے کی وجہ سے دُلہا اور دلہن میں اعتماد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے احترام وتیار ہو جاتے ہیں۔
4۔ سچائی سے کام لینا: انسان کو زندگی کے جملہ مراحل میں سچائی سے کام لینا چاہیے ۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں تصنع اور تکلفات کے ساتھ ساتھ جھوٹ اور مبالغہ آمیزی سے بھی کام لیاجاتا ہے اور اس مبالغہ آمیزی کا زیادہ تر اظہار دلہا کی آمدن اور دلہن کی عمر اور تعلیم کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ جب بعد ازاں حقیقت واضح ہوتی ہے تو عدم اعتماد اور کدورت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اگر شادی بیا ہ کی تقریبات کی بنیاد تصنع اور جھوٹ سے کام لینے کے بجائے سچائی سے کام لیا گیا ہو گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی مدد یقینا شاملِ حال ہو جائے گی‘ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 71 میں ارشاد فرمایا: وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ‘‘۔
5۔ حقیقی کامیابی: لوگ شادی بیاہ کی تقاریب میں بالعموم تعیشات اور تکلفات کے اظہار کو ہی کامیابی کی اساس اور معیار سمجھتے ہیں لیکن کئی مرتبہ یہی تکلفات اور تعیشات شادی بیاہ کی ناکامی پر منتج ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ انسان کو اس بات کو ذہن نشیں کرنا چاہیے کہ حقیقی کامیابی درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت میں ہے اور جو شخص ایسا کرے گا وہ حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گا۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 71میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو یقینا اس نے کامیابی حاصل کی بہت بڑی کامیابی‘‘۔ یہ حقیقی کامیاب درحقیقت گھر میں مودّت، سکینت، باہمی ہم آہنگی کی صورت میں نظر آتی ہے جب مرکزِ محبت اور مرکزِ اطاعت کا تعین ہو جائے تو اس کے بعد زندگی کی جملہ خوشیاں اور آسودگیوں کو حاصل کرنے میں بھی انسان کامیاب ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں شادی بیاہ کے بعد آنے والی زندگی کو ان اصولوں پر استوار کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم زندگی کی کامیابیوں کو سمیٹنے کے قابل ہو جائیں، آمین!