اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ التین کی آیت نمبر 3 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔ ‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 70میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو دو صنفوں میں تقسیم کیا اور مردوزن دونوں کو بڑی تعداد میں پیدا کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 1میں جہاں پر انسانوں کو مخاطب ہو کر تقویٰ کا درس دیتے ہیں وہیں پر مردوزن کی تخلیق کا بھی ذکر فرماتے ہیں: ''اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو ، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ۔‘‘ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بالعموم جو احکامات نازل کئے ہیں ان میں مردوں کو مخاطب کیاگیا ہے لیکن ان احکامات کا اطلاق یکساں طور پر عورتوں پر بھی ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے بعض مقامات پر مردو زن کا ذکر علیحدہ علیحدہ بھی کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 35میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد اور مومن عورتیں ، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں (ان سب کے) لیے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنہ عورتوںکو مومن مردوں کا مددگار بھی قرار دیا۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر 71 میں ارشاد ہوا: ''مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار و معاون) اور دوست ہیں، وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بے شک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیات پر غوروفکر کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنی احکامات کو بیک وقت مردوزن کے لیے نازل فرمایا ہے۔ حضرت رسول اللہﷺ کے فرمودات میں بھی مردوزن کے لیے احکامات دیے گئے ہیں؛ چنانچہ جن فرائض اور ذمہ داریوں کو مردوں پر عائد کیا گیا انہی فرائض کو خواتین پر بھی عائد کیا گیا ؛ چنانچہ ارکان ِ اسلام کے حوالے سے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور شہادتین کے ساتھ ساتھ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا بھی دونوں کو پابند ٹھہرایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مردوزن کے حقوق کو بھی مقرر کیا ہے۔ عورت کو بھی مختلف حیثیتوں میں مختلف طرح کے حقوق عطا کئے گئے۔ عورت ماں کی حیثیت سے اتنی بلند قرار پائی کہ اس کے مقام کو باپ سے بھی زیادہ بلند قرار دے دیا گیا، بہن کی حیثیت سے وہ غیرت کی علامت بن گئی، بیٹی کی حیثیت سے وہ محبتوں اور شفقتوں کا مرکز ٹھہری اور بیوی کی حیثیت سے شریکِ زندگی بن گئی۔
بالعموم معاشرے میں عورت کے بیوی کی حیثیت سے حقوق پر بحث کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے کئی مرتبہ اسلامی اقدار پر بھی حملے کئے جاتے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ (معاذاللہ) اسلام نے بیوی کو حقوق عطا نہیں کئے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے حقوق عطا کئے ہیں جن کا تذکرہ کتاب وسنت میں مختلف مقامات پر نہایت احسن انداز سے کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورت کو شادی سے پہلے اور شادی کے بعد جو حقوق دیے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ اہم نکات سامنے آتے ہیں:
1۔ شادی کے لیے عورت کی رضا مندی: شادی کے لیے عورت کا رضا مند ہونا انتہائی ضروری ہے۔ گو کہ ولی کی رضامندی کے بغیر شادی منعقد نہیں ہوتی لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورت کی رضامندی کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اس حوالے سے ایک حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت خنسابنت خذام رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا جبکہ وہ بیوہ تھیں؛ چنانچہ انہوں (خنسا) نے اس (نکاح) کو ناپسند کیا‘ بالآخر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں (اور آپؐ سے پوری بات عرض کی) تو آپ ؐنے ان (کے والد) کا کیا ہوا نکاح ختم کر دیا۔
2۔ عائلی حقوق: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر مردوں کے حقوق کو مقرر کیا ہے وہیں پر عورتوں کے حقوق کو بھی مقرر کیا گیا ہے؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 228میں ارشاد ہوا: '' عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ، ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔‘‘ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عورت نہ تو مرد کے پیرکی جوتی ہے اور نہ ہی اس کی لونڈی، بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عائلی زندگی میں مردوں کے ذمہ اس کے حقوق کو بھی مقرر کیا ہے۔
3۔ نان نفقہ اور معاشی حقوق: مردوں کے ذمے اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورتوں کی کفالت کو رکھا اور عورت کے نان نفقے اور اس کی جملہ ضروریات کو پورا کرنا یہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 34میں ارشاد فرماتے ہیں: ''مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں۔‘‘ آیت مذکورہ میں مرد کی فضیلت کا سبب دو چیزوں کو قرار دیا گیا ہے۔ ایک وہبی فضیلت اور دوسرا جو اپنے مال کو خرچ کرتے ہیں۔
4۔ وراثت میں حقوق: اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر مردوں کے لیے وراثت کے حقوق کو مقرر کیا ہے وہیں پر عورتوں کے لیے بھی حق ِ وراثت کو مقرر کیا گیا ہے؛ چنانچہ بیٹی ، بیوی اور ماں کی حیثیت سے اس کی وراثت میں اس حق کا تفصیلی طور پر سورہ نساء میں ذکر کیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کئی مرتبہ عورت کے اس حق کو غصب کر لیا جاتا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش اور اجازت موجود نہیں ہے۔
5 ۔ تعلیمی حقوق: عورت کے لیے علم کے حصول کے دروازے اور راستے اسی طرح کھلے ہیں جس طرح مرد کے لیے کھلے رکھے گئے ہیں۔ تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے علم دین میں غیر معمولی دسترس کو حاصل کیا اور اس کے ساتھ ساتھ فقہی اعتبار سے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت زیادہ سمجھ اور بصیرت سے نوازا تھا۔ آپ فقہی مسائل کو نہایت احسن انداز سے حل کر لیا کرتی تھیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین مسائل کے حل کے لیے بکثرت آپ سے رجوع کیا کرتے تھے۔ علم حدیث کی ترسیل میں آپ کی جو خدمات ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ حضرت عائشہؓ کی زندگی سے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ عورت کے لیے تمام جائز علوم کو حاصل کرنا اس کا حق ہے جس سے اس کو کسی بھی طور پر محروم نہیں کیا جا سکتا۔
6۔تجارتی حقوق: عورت کو بھی مالی طور پر مستحکم ہونے کا حق ہے اسی طرح کا جس طرح مرد کو ہے۔ عورت پاکیزہ ماحول میں اپنے شوہر کی اجازت کے ساتھ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ملازمت کر سکتی ہے۔ اسی طرح تجارتی معاملات میں بھی وہ دلچسپی لے کر اپنی تجارت اور معیشت کو مستحکم کرنے کا حق رکھتی ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت زیادہ مال سے نوازا تھا اور وہ اپنے مال کو تجارت کے لیے استعمال کیا کرتیں تھیں۔ بعدازاں یہ مال حضرت رسولﷺ کی خدمت میں وقف کیا گیا اور اس مال سے اسلام کو ابتدائی طور پر بہت زیادہ تقویت حاصل ہوئی۔
عورت کو دوشعبوں میں خصوصیت سے اپنا کردار ادا کرنے کی انتہائی زیادہ ضرورت ہے۔ لیڈی ڈاکٹر کی حیثیت سے اگر وہ خواتین کی خدمت کرتی ہے تو اس سے خواتین کو باآسانی علاج و معالجے کی سہولیات کو فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح استاد کی حیثیت سے ایک مؤثر کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔
وٹہ سٹہ ، قرآن سے شادی،کاروکاری جیسی رسموں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور اس قسم کے معاملات کو چلانے والے لوگ ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہیں۔ جن خواتین کو مجبراً قحبہ گری میں مبحوس کرکے ان کا دھندہ کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے سورہ نورکی آیت نمبر 33میں ان مجبور عورتوں کی خطاؤں کو معاف کرنے کی ضمانت دی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورتوں کو جو حقوق عطا کئے ہیں ان کا ہمیں ادراک کرنے اور ان کی ادائیگی کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق دے تاکہ معاشرے میں اس حوالے سے جو افراط وتفریط پائی جاتی ہے اس سے نجات حاصل کرکے ایک صحت مند اور مستحکم معاشرے کی بنیادوں کو قائم کیا جا سکے۔ آمین