دنیا بھر میں 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے اس دن مختلف طرح کے اجتماعات، جلوسوں اور سیمینارز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر بالعموم عورت کی آزادی سے متعلقہ نعرے لگائے جاتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی مردوں کو بھی شدت سے معتوب کیا جاتا ہے اور عورت کے استحصال کے حوالے سے معاشرے کے ناہموار روّیوں کے خلاف اعلانِ بغاوت اور اظہار ِنفرت کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر لہرائے جانے والے پلے کارڈز اور بینرز پر جس قسم کی تحریریں کندہ ہوتی ہیں وہ کسی بھی طور پر مشرقی روایات اور ہماری مذہبی اقدار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں۔
عورت مارچ کا مقصد یہ بتلایا جاتا ہے کہ عورت اپنے حقوق کی طلبگار ہے لیکن جو نعرے لگائے جاتے ہیں ان میں عام طور پر مردوزن کے اختلاط اور تعلقات کی حمایت نظر آتی ہے۔ کئی مرتبہ سرعام عورت مارچ کے شرکا شادی بیاہ کے خلاف گفتگو کرتے ہوئے بھی نظر آئے ہیں۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ عورت کو اس وقت تک حقوق نہیں مل سکتے جب تک عورت نکاح کے بندھن سے آزاد نہیں ہو جاتی۔ یہ باتیں سن کر جہاں معاشرے کا ایک طبقہ طمانیت محسوس کرتا ہے‘ وہیں معاشرے کی ایک بڑی تعداد اس حوالے سے اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جاتی ہے کہ یہ نعرے نجانے ہمیں کہاں لے کر جا رہے ہیں؟
جب ہم ان معاشروںکے بارے میں مشاہدہ یا مطالعہ کرتے ہیں جہاں سے یہ نعرے ہمارے معاشرے میں درآمد کیے گئے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان معاشروں میں عورت کو چراغِ خانہ کی بجائے شمعِ محفل بنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان معاشروں میں شادی بیاہ کی اہمیت بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے اور عورتیں بغیر شادی کے اپنی زندگی کو آسودہ محسوس کرتی ہیں۔ بعض مغربی معاشروں میں اس حوالے سے یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ اولاد کی پیدائش کے لیے عورتیں آمادہ وتیار نہیں ہوتیں اور وہ بچوں کو نعمت سمجھنے کے بجائے اپنے اوپر ایک بوجھ تصور کرتی ہیں ۔ ان کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ بچوں کے بغیر ہی اپنی زندگی کو گزار لیا جائے۔ بعض ممالک میں ہونے والی بیشتر شادیاں طلاق پر منتج ہوتی ہیںاور شادی کے باوجود بھی عورتیں اور مرد دیگر تعلقات استوار کیے رکھتے ہیں۔
عورت کی آزادی کا نعرہ یقینا کئی اعتبارسے دلفریب ہے اور کم سن خواتین اس نعرے میں غیر معمولی کشش محسوس کرتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نعرہ کسی بھی طورپر عورت کے حقوق کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اور اس نعرے کے نتیجے میں عورت گھریلو نظام میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے معاشرے کی آوارہ نگاہوں کا نشانہ بنتی چلی جاتی ہے۔ ہمیں اس ضمن میں اس بات کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیمات اس حوالے سے ہماری کیا رہنمائی کرتی ہیں۔
اسلام نے عورت کو ہر طرح کے حقوق دیے ہیں اور اس کو گھر کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تطہیر کے لیے اپنا کردار ادا کرنے سے نہیں روکا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس سے اس بات کا بھی تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ معاشرے کی ضروریات یا معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی طور اپنے گھریلو امور میں کمی اور کوتاہی کی مرتکب نہ ہو۔ یہ بات انتہائی قابلِ توجہ اور غور طلب ہے کہ عورت اگر معاشرے میں اپنا معاشی کردار ادا کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے اور اس کے نتیجے میں اس کے شوہر اور اولاد کی حق تلفی ہوتی ہے یا اس کی اولاد مناسب تربیت سے محروم رہ جاتی ہے تو یہ بات کسی بھی طور پر درست نہیں۔ اس لیے کہ عورت کے شوہر اور اس کی اولاد کا اس پر سب سے پہلا حق ہے‘ اس کو چاہیے کہ وہ شوہر کی ضروریات اور اولاد کی کفالت کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو بھرپور انداز سے ادا کرے۔ ''میرا جسم ‘ میری مرضی‘‘ کا نعرہ کسی بھی طور پر عورت کے حقوق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہماری رائے میں اس نعرے کے نتیجے میں معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہونے کے خدشات ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اسلام میں برائی و فحاشی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ دینِ اسلام ان تمام راستوں سے عورتوں اور مردوں کومنع کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بدکرداری کی دلدل میں اترنا شروع ہو جائیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32میں ارشاد فرمایا: ''خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ برائی کا ارتکاب کرنا تو بڑی دور کی بات ہے‘ اسلام اس کے قریب جانے سے بھی منع کرتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے ہم جنس پرستی کی بات کا‘ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر جن مغضوب قوموں پر آنے والے عذاب کا ذکر کیا ان میں قومِ لوط بھی شامل ہے۔ قوم لوط میں یہ برائی پائی جاتی تھی کہ وہ بدکرداری کا ارتکاب کرتے تھے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر ان پر آنے والے عذاب کا ذکر کیا جن میںسورہ ہود کی آیت نمبر 77سے 83 کا مقام درج ذیل ہے:
''جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت غمگین ہو گئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے ، اور ان کی قوم دوڑتی ہوئی ان کے پاس آ پہنچی کہ وہ تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی۔ لو ط (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! یہ ہیں میری (قوم کی) بیٹیاں جو تمہارے لیے بہت ہی پاکیزہ ہیں۔ اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو، کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ تم بخوبی جانتا ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں پر کوئی حق نہیں ہے اور تم ہماری اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسراپکڑپاتا۔ اب فرشتوں نے کہا: اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں‘ نا ممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو۔ تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہیے؛ بجز تیری بیوی کے‘ اس لیے کہ اسے بھی وہی پہنچنے والا ہے جو ان سب کو پہنچے گا، یقینا ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے، کیا صبح بالکل قریب نہیں؟ پھر جب ہمارا حکم آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کو زیرو زبر کر دیا، اوپر کا حصہ نیچے کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے۔ تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور وہ ان ظالموں سے کچھ بھی دور نہ تھے‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں ہم جنس پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو گزارنا چاہیے۔
اسلام بنیادی طور پر انسان کے جبلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نکاح کے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اورا س حوالے سے پیش آنے والی معاشی رکاوٹوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نکاح اگر غربت اور فقیری میں بھی کیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو خوشحالی عطا فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 32میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تم میں سے جو مرد و عورت بے نکاح کے ہوں‘ ان کا نکاح کردو، اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی‘ اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا ، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے‘‘۔
نکاح کے بندھن کے نتیجے میں انسان کو اولاد جیسی نعمت حاصل ہوتی ہے جو انسان کے بڑھاپے کا سہارا بنتی ہے۔ جوانی کے ایام گزرنے کے بعد انسان اپنی اولاد کی خدمت کا طلبگار ہوتا ہے ۔ اگر نکاح کے بندھن کو فراموش کر کے اولاد کی نعمت کو نظر انداز کر دیا جائے تو اس کے نتیجے میں انسان کو غیر معمولی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور بڑھاپے میں گزاری گئی تنہائی کی زندگی کے دکھ‘ تلخیاں اور کربناکیاں انسان کی روح کو گھائل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ میرا جسم‘ میری مرضی کا نعرہ ناپختہ ذہنوں کو ورغلانے کا سبب تو بن سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں زندگی میں آنے والی تلخیوں اور تاریکیوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ ہمیں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے عورت مارچ میں لگائے گئے نعروں کو اہمیت دینے کے بجائے اسلامی تعلیمات کو اہمیت دینی چاہیے اور عورت کے جائز حقوق؛ یعنی حقِ وراثت ، نکاح کے موقع پر اس کی رضامندی،زندگی کے دیگر اُمور اور معاملات میں اس کی ذات کو اہمیت ، اس کے ساتھ حسن سلوک اور گھریلو سطح پر لڑکے اور لڑکی کے مابین تفریق جیسے اُمورکو ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں صحت مند معاشرے کی شکل اختیار کر سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں عورت کے حقوق کو سمجھنے اور انہیں ادا کرنے کی توفیق دے، آمین !