ہر سال شعبان کے مہینے میں ملک بھر میں تکمیلِ صحیح بخاری شریف کی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں بڑی تعداد میں طلبہ تکمیلِ صحیح بخاری کی سندِ فراغت حاصل کرتے ہیں۔ اس سال بھی حسبِ سابق مرکزِ قرآن وسنہ لارنس روڈ پر تقریبِ تکمیلِ صحیح بخاری کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر کئی طلبہ نے صحیح بخاری شریف کی تکمیل پر سندِ فراغت حاصل کی، حفظ ِقرآن کی سعادت حاصل کرنے والے خوش نصیب طلبہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ کے الشیخ عبدالولی خان ایک محنتی استاد ہیں اور وہ ہر سال طلبہ کو صحیح بخاری نہایت احسن انداز سے پڑھاتے اور اس کے علمی نکات کی تفصیل سے انہیں آگاہ کرتے ہیں۔ مرکز پر ہونے والی اس تقریب میں عوام اور علماء کرام کی کثیر تعداد نے خصوصیت سے شرکت کی جن میں شیخ الحدیث والتفسیر مولانا عبداللہ ناصر رحمانی صاحب سرفہرست ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ مولانا طیب الرحمن زیدی اور قاری محمد حنیف ربانی صاحب اس تقریب میں شرکت کے لیے خصوصی طور پر تشریف لائے۔ اس تقریب میں ان علماء کرام نے طلبہ کے سامنے اپنے ارشاداتِ عالیہ رکھے جن سے طلبہ نے بھرپور طریقے سے استفادہ کیا۔ تقریب کے موقع پر طلبہ میں اعزازی اسناد اور شیلڈز بھی تقسیم کی گئیں۔ اس موقع پر مولانا عبداللہ ناصر رحمانی صاحب نے نہایت بلیغ انداز میں امام بخاریؒ کے کارناموں پر روشنی ڈالی۔ مولانا نے اس بیان کیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تراجم میں گمراہ عقائد رکھنے والے لوگوں کے رد میں بہت سا مواد موجود ہے اور انہوں نے گمراہ فرقوں سے متعلق احادیث اپنے علمی کام کے ذریعے سامنے لا کر ان کی گمراہی کو بے نقاب اور واضح کیا ہے۔ اس کے علاوہ قاری محمد حنیف ربانی نے اس موقع پر نہایت احسن انداز اورعوامی پیرائے میں خطاب کیا اور اس بات کو واضح کیا کہ علمِ حقیقی اصل میں کتاب اللہ اور سنت نبوی شریف کا نا م ہے اور اس علم کو حاصل کرنے والے طلبہ اور اس علم کو پڑھا نے والے اساتذہ یقینا ہر اعتبار سے قابلِ ستائش ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں کے روز وشب کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لیے وقف کیا ہوا ہے۔ اس موقع پر راقم الحروف نے بھی عوام سے خطاب کیا جس کے اہم نکات کو کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:
امام بخاریؒ کا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے احادیث رسولﷺ کو اس انداز میں جمع کیا کہ اب صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو پڑھنے والے طلبہ بغیر کسی شک اور تردد کے اس بات پر یقین کر سکتے ہیں کہ وہ جو کچھ پڑھ رہے ہیں اس کے حدیث رسولﷺ ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ دین اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا آخری دین ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دین کو ہر اعتبار سے کامل اور مکمل کر دیا؛ چنانچہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3میں ارشاد ہوا: '' آج (کے دن) میں نے مکمل کر دیا ہے تمہارے لیے تمہارا دین اور میں نے پوری کر دی ہے تم پر اپنی نعمت اور میں نے پسند کیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین‘‘۔ اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر 19میں ارشاد ہوا: ''بے شک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام (ہی) ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ آل عمران ہی کی آیت نمبر85 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو تلاش کرے اسلام کے سوا (کوئی اور) دین تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اس سے‘ اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والے لوگوں میں سے ہو گا‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ پر غوروفکرکرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اخروی فلاح وبہبود کے لیے انسان کو ہر صورت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ ہی سے رہنمائی حاصل کرنا پڑے گی ۔ چنانچہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ سے رہنمائی حاصل کرنا راہِ ہدایت پر رہنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ تنہا قرآنِ مجید کے ساتھ رابطہ رکھ کے انسان راہِ ہدایت پر گامزن رہ سکتا ہے !وہ لوگ درحقیقت اس بات سے نا آشنا ہیں کہ درحقیقت قرآنِ مجید میں اللہ تبارک نے جن عبادات اور احکامات کو ناز ل کیا ان کے بیانات کی صلاحیت اور اختیار حضرت رسول اللہﷺ کو عطا کیا گیا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 44میں ارشاد فرماتے ہیں: ''تاکہ آپ بیان کریں لوگوں کے لیے جو نازل کیا گیا ان کی طرف اور تاکہ وہ غوروفکر کریں‘‘۔ اسی طرح سورہ احزاب کی آیت نمبر21 میں ارشاد ہوا: ''بلاشبہ تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی حیاتِ طیبہ) میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ اس امر کو بھی سورہ نساء کی آیت نمبر 80میں واضح فرماتے ہیں : ''جو اطاعت کرے گا اللہ کے رسول کی تو درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ تعالیٰ کی‘‘۔ گویا کہ حضرت رسول اللہﷺ کی بات کو تسلیم کرنے والے لوگ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی اطاعت کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران میں یہ بات بھی واضح فرمائی کہ جو لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت کے طلبگار ہیں انہیں رسول اللہﷺ کی اتباع کرنی چاہیے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ ان سے محبت کرنے لگے گا۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 31میں ارشاد ہوا: ''آپ کہہ دیں کہ اگر تم محبت کرتے ہو اللہ سے‘ تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا‘‘ ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کو بھی واضح فرما دیا کہ جو لوگ حضرت رسول اللہﷺ کے ارشاداتِ عالیہ کو اپنے تنازعات کے حل کے لیے تسلیم نہیں کرتے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ربوبیت کی قسم اٹھاتے ہیں کہ وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے۔ ایمانیات میں اس بات کا انتہائی بلند مقام ہے کہ انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیبﷺ کی بات کو اپنے تنازعات میں حرفِ آخر سمجھے۔ قرآنِ مجید کے بہت سے مقامات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب تک حضرت رسول اللہﷺ کی تشریحات (احادیث) کو قرآنِ مجید کے مقامات کے ساتھ نہ ملایا جائے‘ قرآنِ مجید کو درست فہم کے ساتھ نہیں سمجھا جاسکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض حقائق کو قرآنِ مجید میں مختلف مقامات پر بیان فرمایا ہے جن کی توضیح اور تشریح کے لیے حضرت رسول اللہﷺ کے فرامین کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 158 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں‘ پس جو حج کرے بیت اللہ کا یا عمرہ کرے تو کوئی گناہ نہیں اس پر کہ وہ طواف کرے ان دونوں کا اور جو خوشی سے کرے کوئی نیکی‘ تو بے شک اللہ قدر دان، بہت علم والا ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ پر غوروخوض کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے صفا مروہ کی سعی کا حکم دیا ہے لیکن اس سعی کو انجام دینے کے لیے ہمیں حضرت رسول اللہﷺ کے بتائے گئے طریقہ کار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ ہم اپنی رائے کے ساتھ صفا اور مروہ کی سعی کی کیفیت کو طے کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے کہ سعی میں تین، پانچ، نو، گیارہ چکروں کا احتمال ہو سکتا ہے جبکہ حدیث مبارکہ میں اس کے سات چکر مقرر کیے گئے ہیں۔ صفا سے شروع ہو کر مروہ تک ایک چکر اور مروہ سے صفا تک دوسرا چکر ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کو بھی واضح کیا کہ بیت اللہ کے حج کے مہینے معلوم ہیں وہ کون سے مہینے ہیں جن میں اگر انسان بیت اللہ کا قصد کرے تو وہ حج کو مکمل کر سکتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اس بات کی صراحت موجود نہیں جبکہ اس بات کی صراحت احادیث مبارکہ میں موجود ہے۔ شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ میں احرام باندھنے والے لوگ حج کا احرام باندھ رہے ہوتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں 12 مہینوں میں سے 4 کو حرمت والا قرار دیا ۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر36 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اُن میں سے چار (مہینے) حرمت والے ہیں‘‘۔ ان مہینوں کی کیفیت پر غور کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ مہینے جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے‘ چار ہیں۔ ان چار مہینوں کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود نہیں جبکہ احادیث مبارکہ میں اس بات کی صراحت ہے کہ وہ محرم، رجب، ذی القعد اورذی الحج کے مہینے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نمازوں کو قائم کرنے کا حکم دیا لیکن ان نمازوں کے قائم کرنے کے لیے جوشرائط‘ استقبالِ قبلہ اور مواقعین کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے یہ ساری تفاصیل احادیث مبارکہ کے مطالعے کے بعد ہی واضح ہوتی ہیں؛ چنانچہ ہمیں پیدائش کے دن سے لے کر موت کے دن تک‘ کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ سنت رسول اللہﷺ کی بھی ضرورت ہے۔
امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب ''صحیح بخاری‘‘ میں لگ بھگ 7563 احادیث کو جمع کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب کا آغاز'' نیت ‘‘والی حدیث سے کیا اور اس کو ''اعمال ‘‘کے تُلنے والی حدیث پر ختم کرکے اس بات کو واضح کیا کہ دین کا آغاز اصلاحِ نیت سے ہوتا ہے اور دین کی تکمیل اعمال کے تُلنے پر ہوتی ہے؛ چنانچہ کوئی بھی شخص اگر دین سے وابستگی اختیار کرتا ہے تو اس کو اس وابستگی کے لیے اپنی نیت کی اصلاح کرنا ہو گی۔ اچھے اعمال کی انجام دہی کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جنت میں داخلے کے ساتھ اس کا دین مکمل ہو جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت امام بخاریؒ سے یہ عظیم خدمت لی کہ انہوں نے صحیح بخاری کو جمع کرکے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم ترکہ چھوڑا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے امام بخاریؒ کی خدمت کو کچھ اس انداز میں قبول کیا کہ آپؒ کا نام اور آپ کا کام ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔ چنانچہ ہمیں بھی اچھے انداز سے زندگی کو گزارنا چاہیے تاکہ ہم بھی خدمتِ دین کرکے دنیا اور آخرت کی سربلندی حاصل کر سکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں فہمِ دین عطا فرمائے، آمین !