اس دنیا میں رہتے ہوئے پیار اور محبت کے تعلقات میں سے والدین کا تعلق غیر معمولی تعلق ہوتا ہے۔ دنیا میں والدین سے زیادہ انسان کا کوئی دوسرا شخص خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ والدین کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد دنیا اور آخرت کی سربلندی کے راستے پر سفر کرے۔ غریب والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں اور اہلخانہ کی ضروریات اور سہولیات کوپورا کرنے کی بھرپور تگ ودو کرتے ہیںجبکہ متمول اور خوشحال والدین اپنے وسائل کو اپنی اولاد پر کھلے طریقے سے خرچ کرتے ہیں۔ ان کی تعلیم وتعلم اور خوشیوں کو حاصل کرنے کے لیے وہ ہر چیز کو خرچ کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ بہت سے والدین بڑھاپے میں اپنی اولاد کی نگرانی کرتے اور ان کو دعائیں دیتے ہیں‘جبکہ بہت سے والدین جلد ہی اس دنیا ئے فانی سے کوچ کر جاتے ہیں اور ان کی یادیں اور محبتیں انسان کی زندگی کا اثاثہ بن جاتی ہیں۔ والدِ گرامی علامہ احسان الٰہی بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے بحیثیت والد طویل عرصہ ہمارے درمیان بسر نہیں کیا اور کم عمری میں ہی اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی محبتیں ‘ رفاقتیں اور نصیحتیں میرے اور گھر والوں کے لیے ایک اثاثے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر ایک غیر معمولی شعلہ بیاں خطیب اور بلند پایہ مذہبی اور سیاسی رہنما تھے۔ آپ کی خطابت ‘ علم واستدلال ‘ جذبے‘ بصیرت ‘ قوتِ فیصلہ اور بہادری کا ایک زمانہ معترف تھا۔ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خطابت اور استدلال کی غیر معمولی صلاحیتیں عطا فرمائی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو تحریر کا بھی زبردست ملکہ عطا کیا تھا۔ آپ کی تحریر اور تقریر اپنے دوست احباب اور ہمنواؤں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ہوتی اور مخالفین کی ان تحریروں اور تقریروں کی وجہ سے نیندیں اُڑ جایا کرتی تھیں۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر اسلام اور جمہوریت سے غیر معمولی وابستگی رکھتے تھے۔ آپ کا یہ ذہن تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس میں سیاسی نظام چلانے کے لیے عوام کی رائے کا احترام کرنا ضروری ہے۔ آپ نے اسلام کے خلاف ہونے والی جملہ سازشوں کا اپنی زندگی کے دوران بھرپور اندازمیں مقابلہ کیا۔ سوشل ازم اور منکرین ِختم نبوت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہے۔ تحریک نظام مصطفی اور تحریک ختم نبوت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ملک میں آزادی ٔ اظہار ِرائے اور سیاست میں عوام کی رائے کے احترام کے لیے چلنے والی تمام تحریکوں میںبابا شہید نے بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ آپ انتخابی عمل میں بھی دلچسپی لیتے رہے اور قومی اتحاد کی طرف سے 1977ء میں پتوکی کے حلقے سے انتخاب لڑا اور عوام کی ایک بڑی تعداد کی تائید کو حاصل کیا‘ لیکن دھاندلی کی وجہ سے دیگر بہت سے سیاسی رہنماؤں کی طرح آپ کو قومی اسمبلی کی نشست سے کامیاب نہ ہونے دیا گیا۔ آپ نے انتخابی دھاندلی کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی بھرپور انداز سے حصہ لیا اور قومی اجتماعات میں روح ِرواں کاکردار ادا کرتے رہے۔
بحیثیت باپ آپ انتہائی شفقت اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ آپ کازیادہ وقت گھر میں لائبریری میں گزرتا تھا۔ جہاں پر آپ کتابوں کے مطالعے میں مصروف رہا کرتے تھے اور دوست احباب سے ملاقاتیں بھی اسی دارالمطالعہ میں ہوا کرتی تھیں۔ علامہ شہید اس دارالمطالعہ میں بیٹھ کر جہاں پر دوست احباب سے ملاقاتیں کرتے وہیں پر ان کی ضروریات اور ان کے نجی اور سماجی کاموں میں بھی ان کی بھر پور انداز میں معاونت کیا کرتے تھے۔ آپ اپنی صلاحیتوں اور وسائل کا دوست احباب کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھرپور اندازمیں استعمال کرتے اور کسی کی سفارش کرنے سے کبھی گریز نہیں کرتے تھے۔ اسی دارالمطالعہ میں مجھے بھی کئی مرتبہ اُردو کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کا موقع ملتا اور میں مشکل مقامات کے بارے میں آپ سے استفسار کرتا۔ آپ بڑی ہی توجہ ‘پیار اور محبت سے استفسار کا جواب دیتے اور سوالات پر کبھی اکتاہٹ کا شکار نہ ہوتے تھے۔ آپ اپنی زندگی کے آخری ایک ‘دو سالوں میں بہت زیادہ مصروفیت کی وجہ سے ہمیں سکول چھوڑنہ پاتے تھے۔ اس سے قبل آپ ہمیں سکول چھوڑنے بھی چلے جایا کرتے تھے۔ کئی مرتبہ گاڑی پر سکول ڈراپ کرتے اور کئی مرتبہ اپنی بائیسکل کو میری بائیسکل کے ساتھ لگا کر مجھے سکول کے گیٹ تک چھوڑنے چلے جاتے۔ جن ایام میں آپ دنیا سے رخصت ہوئے ان ایام میں میرے میٹرک کے امتحانات ہو رہے تھے۔ آپ کو میرے امتحانات سے غیرمعمولی دلچسپی تھی اور آپ میری کامیابی کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا گو بھی رہتے۔ امتحانی سینٹر کی طرف جب ڈرائیور چھوڑنے جا رہا ہوتا تو آپ گاڑی کے ساتھ چلتے ہوئے مجھے قرآنی دعاؤں کو پڑھنے کی تلقین کرتے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی قیمتی نصیحتوں سے بھی نوازتے۔ آپ کو اپنی اولاد کی تربیت سے گہری دلچسپی تھی اور ان کی نماز کے بارے میں انتہائی متفکر رہا کرتے تھے اور ہر نماز کے بارے میں استفسار کرتے کہ اس کو پابندی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے۔ اس میں کسی قسم کی غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ تو نہیں کیا گیا۔
بابا شہیدؒ کے ساتھ مجھے بعض بین الاقوامی سفروں پر جانے کا موقع بھی ملا۔ میں نے سفر کے دوران ان کو انتہائی شفیق باپ پایا اور آپ خوشگوار انداز میں سفر کے دوران محو گفتگو ہوتے اور آپ کی دلنشیں گفتگو کا سحر انسان کی طبیعت پر غیرمعمولی انداز میں مرتب ہوتا۔ مجھے آپ کے ساتھ سفرِ حج پر جانے کا بھی موقع میسر آیا۔ اس سفر کے دوران میں نے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں شدت کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے دیکھا۔ مسجد نبوی شریف میں داخل ہوتے ہوئے میں نے آپؒ کی آنکھوں کو تر دیکھا۔ حب ِرسولﷺ کے ساتھ آپ کی آنکھیں بھیگی ہوئی نظر آئیں اور آپ کایہ معاملہ زندگی کے روز وشب کے دوران دیگر کئی موقعوں پر بھی دیکھنے کو ملا کہ جب بھی نبی کریمﷺ کا ذکر آتا آپ کی آنکھوں میں نمی آجایا کرتی تھی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ آپ کو غیر معمولی محبت تھی۔ سیدنا صدیق اکبرؓ اور سیدنا فاروق اعظمؓ کو اپنا آئیڈیل تصور کیا کرتے تھے اور نظام خلافت راشدہ کے احیا اور قیام کو انسانی معاشروں کی تعمیر وترقی کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ آپ کا یہ پختہ موقف تھا کہ دنیا کا کوئی حکمران بھی خشیت الٰہی اور خدمتِ عوام کے حوالے سے خلفائے راشدین کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آپ کے نزدیک ابوبکر ‘عمر‘ عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دورِ حکومت سے ہر عہد کے حکمرانوں کو رہنمائی لینی چاہیے تاکہ قیادت و سیادت کی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے نبھایا جا سکے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ کے علم اور تفقہ کے دل کی گہرائیوں سے معترف تھے اور ان کی سیرت کا بیان بڑے جذب اور احترام کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی بحیثیت والدہ شخصیت کے غیرمعمولی مداح تھے اور اس بات کا اظہار بھی کیا کرتے تھے کہ حسنین کریمینؓ جیسی ہستیاں حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ جیسی ماؤں کی گود میں ہی پروان چڑھتی ہیں۔ آپ اپنی اولاد کو بھی اپنے جذبات سے متعارف کرواتے اور ان خوبصورت جذبات کو بڑے ہی پیار اور محبت سے اپنی اولاد کے دل ودماغ میں بھی منتقل کرتے۔ آپ سعودی عرب جانے سے قبل جب زخمی حالت میں میو ہسپتال میں زیر علاج تھے تو اس موقع پر بھی میں ملاقات کے لیے آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے بڑے ہی صبر‘ تحمل اور استقامت کا مظاہرہ کیا اوراس موقع پر میرے لیے نیک تمناؤں اور دعاؤں کا اظہار کیا۔
باباشہید کے اس دنیا سے اتنی جلدی چلے جانے کا کبھی تصور نہ کیا تھا ‘لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ہر خوشی اور غمی کے موقع پر ان کی یاد زندگی کا حصہ بنی رہی اور کسی موقع پر بھی ان کی یاد کو اپنے دل ودماغ سے محوہوتے ہوئے محسوس نہیں کیا۔ بلکہ زندگی کے تلخ اور شیریں سفر کے دوران پہلے سے زیادہ ان کی یادوں کو تروتازہ محسوس کیا۔ ان کی تقریر اور تحریر کی تازگی آج بھی محسوس کی جاتی ہے اور جب بھی کبھی ان کی تقریرسننے یا تحریر پڑھنے کا موقع ملتا تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا ابھی وہ دنیا سے کچھ دیر قبل ہی رخصت ہوئے ہیں۔ وہ والد کے ساتھ ساتھ ایک رول ماڈل کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد میں نے اس بات کو محسوس کیا کہ انسان کو اپنے والدین کی زندگی میں ان کی قدر کرنی چاہیے اور دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے۔ اسی طریقے سے انسان اپنے والدین کی محبتوں کا کچھ قرض اُتارنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے اور جتنے والدین زندہ ہیں ان کی عمروںمیں برکت عطا فرمائے اور جتنے والدین دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین