قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے ساتویں پارے کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نرم دل اور ایمان شناس عیسائیوں کی جماعت کا ذکر کیا ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے کلام کی تلاوت کی جاتی ہے تو حقیقت کو پہچاننے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیںاور وہ لوگ حق کو پہچاننے کے بعد اس کو قبول کر لیتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے‘ ہمارا نام بھی (اسلام کی)گواہی دینے والوں میںلکھ دے۔ قرآنِ مجید کی یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب کفار کے شر سے بچنے کیلئے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں اور کافر مسلمانوں کے بارے میںحبشہ کے بادشاہ کو اکسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حبشہ کا نرم دل عیسائی بادشاہ نجاشی جنابِ جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی زبان سے قرآن پاک کی تلاوت سنتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسوبہنا شروع ہوگئے اور اُس نے اپنا شمار اسلام کی گواہی دینے والوں میں کروالیا۔
ساتویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مخاطب ہو کر کہا کہ اُنہیں پاک چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہیں کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے پاک رزق کو کھانا چاہیے اور اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی بلا ارادہ کھائی گئی قسموں پر مواخذہ نہیں کرتے‘ لیکن جب کسی قَسم کو پوری پختگی سے کھایا جائے‘ تو ایسی صورت میں انسان کو اس قَسم کو پورا کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات کا نزول فرمایا ہے‘ جن میں صراحت سے شراب کو حرام قرار دیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اے ایمان والو! بے شک شراب‘ جوا‘ بت گری اور پانسہ ناپاک اور شیطانی کام ہیں۔ پس‘ تم ان سے بچو‘ تاکہ کامیاب ہوجائو‘ بے شک شیطان جوئے اور شراب کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور عداوت پیدا کرنا چاہتا ہے اور تمہیں اللہ کی یاد اورنماز سے روکنا چاہتا ہے تو کیا تم لوگ باز آجائو گے‘‘ جب ان آیات کا نزول ہوا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے کہا :یا اللہ! ہم رک گئے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے سمندری شکار کو حلال قرار دیا ہے اور حالتِ احرام میںخشکی کے شکار کو منع کیا ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بکثرت سوال کرنے سے بھی روکا ہے۔ کئی مرتبہ کثرتِ سوال کی وجہ سے جائز اشیاء بھی حرام ہو جاتی ہیں۔ اللہ نے اس سورت میںیہ بھی بتلایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام سے کہا ''کیا آپ کا رب ہمارے لیے آسمان سے دستر خوان کو اتار سکتا ہے؟ عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں کے اس بلا جواز مطالبے پر انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہا ''اللہ سے ڈر جائو، اگر تم مومن ہو‘‘ حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی اس نصیحت کے جواب میں کہا کہ ''ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور اپنے دلوں کو مطمئن کریں اور ہم جان لیں کہ ہمیں سچ بتایا گیا ہے اور اس پر گواہ رہیں‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں کے اصرار پر دعا مانگی: ''اے اللہ، اے ہمارے پروردگار! ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل فرماجو ہمارے اول اور آخر کے لیے عید اور تیری جانب سے ایک نشانی بن جائے اور ہمیں رزق عطافرما اور تو بہت ہی بہتر رزق دینے والا ہے‘‘۔ اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''میں وہ (دستر خوان) تمہارے لیے اتاروں گا پھر جوکوئی تم میں سے اس کے بعد کفر کرے گا تو میں اس کو ایسا عذاب دوں گا جو جہان والوںمیں سے کسی کو نہیں دیا ہوگا‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے نبی کی باتوں کو بلا چون وچراماننا چاہیے۔ جب بھی کبھی اللہ تبارک و تعالیٰ سے نشانی مانگ کر اس کے راستے کو چھوڑا گیا تو اللہ نے چھوڑنے والوں کو بہت برا عذاب دیا۔
سورۃ المائدہ میں اللہ نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جناب عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھیں گے کہ کیاانہوں نے لوگوں کو کہا تھا کہ ان کی اوران کی والدہ سیدہ مریم کی عبادت کی جائے اور انہیں خدا کا بیٹا کہا جائے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب میں کہیں گے: یا اللہ! میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں جسے کہنے کا مجھے حق نہیں۔ میں تو ان کو ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ میرے اور اپنے رب اللہ کی عبادت کرو۔ انبیاء کرام نے ہمیشہ اپنی اُمتوں کو توحید کا درس دیا‘ لیکن یہ ان اقوام کی بد نصیبی تھی کہ انبیاء کرام کے راستے کو چھوڑ کر شرک کی دلدل میں اتر گئے۔
سورۃ الانعام
قرآن مجید کی مصحفی ترتیب میںسورۃ المائدہ کے بعد سورہ انعام ہے۔ سورہ انعام کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو زمین اور آسمان کا خالق ہے اور جس نے اندھیروں اور اُجالوں کو پیدا کیا لیکن کافر پھر بھی اس کا شریک بناتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ اس نے انسا ن کو مٹی سے پیدا کیا‘ پھر اس کو رہنے کا ایک وقت دیا پھر ایک مخصوص مدت کے بعد اس کو زندہ کیا جائے گا‘ لیکن انسان ہے کہ دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں شک کا شکار ہے۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ ہی ہے آسمان اور زمین میں اور جو انسان کے ظاہر اور باطن کو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے‘ جو وہ کماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی ملکیت کی وسعت کا بھی ذکر کیا اور ارشاد فرمایا کہ دن اور رات میں جو کچھ بھی موجود ہے‘ اسی کا ہے اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ انسان کو کوئی گزند، کوئی ضرر یا کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو اس کو کوئی نہیں ٹال سکتا اور اگر وہ اس کو خیریت، عافیت اور امان سے رکھیں تو بھی وہ ہر چیز پر قادر ہیں‘ یعنی انسان کی حالت کو بدلنا اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام میں یہ بھی بتلایا کہ اہلِ کتاب کے صاحبِ علم لوگ رسول اللہﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح کوئی اپنے سگے بیٹے کو پہچانتا ہے‘ اس کے باوجود یہ لوگ ایمان نہ لا کر اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کافروں کے طعن و تشنیع رسول اللہﷺ کو دکھ پہنچاتے تھے۔ اللہ نے اپنے نبی کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ یہ ظالم لوگ در حقیقت آپ کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی وسعت کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس غیب کے خزانوں کی چابیاں ہیں اور ان کو ا س کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ خشکی اور سمندر میں جو کچھ بھی موجود ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں اور کوئی پتا جو زمین پر گرتا ہو‘ اللہ تعالیٰ اس کو بھی جانتے ہیں اور کوئی ذرہ جو زمین کے کسی اندھیرے مقام پر پڑا ہے‘ وہ اس کو بھی جانتے ہیں اور ہر خشک و تر سے پوری طرح واقف ہیں۔
اس پارے میں اللہ نے اس امر کا ذکرکیا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آزر اور اپنی قوم کی بت پرستی کی بھر پور طریقے سے مذمت کی۔ بت پرستی کی مذمت کے ساتھ ساتھ آپ نے اجرامِ سماویہ کی حقیقت کو بھی لوگوں پر کھول دیا۔ جگمگ کرتے ستارے‘ چانداور سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر اعلان کیا کہ میں قوم کے شرک سے بری ہوں اور اپنے چہرے کا رخ اس ذات کی طرف کرتاہوں‘ جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں شامل نہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ انہیں غیراللہ کے پجاریوں کو گالی نہیں دینی چاہیے کہ یہ لوگ معاذ اللہ جواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کو گالی دیں گے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ آنکھوں کو پاتا ہے‘ مگر آنکھیں اس کو دنیا میں نہیں دیکھ سکتیں؛ تاہم سورۃ القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ جنتی جنت میں جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دیدار کی نعمت سے بھی بہرہ ور ہوںگے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو قرآنِ مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!