کسی بھی معاشرے میں رائے کا اختلاف ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ معاشرے کے مختلف طبقات مختلف قسم کی سوچ وفکر کے حامل ہوتے ہیں‘ اس لیے مختلف معاملات پر ان کی آرأ مختلف ہوتی ہیں۔ اسی طرح معاشرے کے تمام طبقات کی علمی، فکری اور شعوری سطح برابر نہیں ہوتی؛ چنانچہ مختلف اُمور پر ان کا زا ویۂ نگاہ ایک دوسرے سے جدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں مختلف مذہبی اور سیاسی نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں اور ہر نقطۂ نظر کا پیروکار اپنی دانست میں صحیح راستے پر گامزن ہوتا ہے۔ ایک اچھے اور کامیاب معاشرے کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ مختلف طبقات فکری اور نظری اختلافات کے باوجود دیگر طبقات کو برداشت کرتے اور زندگی کا سفر ان کے ہمراہ طے کرتے ہیں۔
کئی مرتبہ کسی حادثے‘ سانحے یا سازش کے نتیجے میں معاشرے میں لسانی، گروہی،علاقائی اور مذہبی تعصبات زور پکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ داخلی طور پر غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میںمعاشرے کے ذمہ دار عناصر اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے معاشرے کے تمام طبقات کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان میں کئی مرتبہ لسانی اور مذہبی بنیادوں پر اختلافات شدت پکڑ چکے ہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے مذہبی رہنماؤں، اداروں اور حکمرانوں نے اپنی ذـمہ داریوں کو بطریق احسن نبھایا جس کے نتیجے میں داخلی اختلافات دم توڑ گئے۔
بدنصیبی سے‘ پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک کئی مرتبہ سیاسی طور پر بھی اس انداز میں تقسیم ہو چکا ہے کہ مختلف طبقات کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کسی بھی طور پر ہم آہنگ ہونے پر تیار نظر نہیں آتے اور ایک دوسرے کے خلاف بھرپور انداز میں نفرتوں کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اس داخلی اختلاف کی وجہ سے ملک کو بہت سے بحرانوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن ہمارے بہت سے سیاسی رہنماؤں نے اس حوالے ماضی سے سبق حاصل نہ کیا۔ سقوط ِڈھاکہ کا سانحہ بھی درحقیت سیاسی عدم برداشت ہی کا نتیجہ تھا کہ معاشرے میں سیاسی جماعتیں کسی بھی طور پر ایک دوسرے کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہ ہوئیں۔ جس کے نتیجے میں 'اِدھر ہم اُدھر تم‘ کے نعرے بھی لگائے گئے اور نتیجتاً ہمارا مشرقی بازو ہم سے جدا ہو گیا۔ 1977ء میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف چلنے والی تحریک کے نتیجے میں قوم ایک دفعہ پھر تقسیم ہوئی اور اس حکومت مخالف تحریک کے نتیجے جہاں دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کھل کر سامنے آئی‘ وہیں نتیجتاً ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کواپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے حکومت پر انتخابی دھاندلیوں کا الزام لگایا اور ملک بھر میں احتجاجی جلسے اور جلوسوں کا انعقاد کیا گیا اور پھر طویل دھرنا دیا جس سے معاشرہ طویل عرصے تک سیاسی اعتبار سے عدم استحکام کا شکار رہا۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو دھاندلی کی پیداوار قرار دیا اور مختلف مقامات پر احتجاجی جلسے، جلوس اور اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ ان تمام احتجاجوں پر وقتی طور پر تو حکومت قابو پانے میں کامیاب ہوتی رہی مگر چند مہینے قبل اِن ہاؤس تبدیلی کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں اپوزیشن کامیاب رہی اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وفاق اور صوبہ پنجاب میں اقتدار سے محروم ہو گئی۔ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس تبدیلی کو بیرونی سازش کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے حکومت کے خلاف بھر پورانداز میں احتجاج کیا اور بعض اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ملک کے طول وعرض میں احتجاجی اجتماعات کا انعقاد کرنے کے ساتھ ساتھ اب انہوں نے اسلام آباد کے گھیراؤ کا بھی عندیہ دیا ہے۔
جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتوں کے قائدین ایک دوسرے کے بارے میں اپنی آرا کا اظہار کرتے اور حکومت کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں لیکن یہ اختلاف اس وقت خطرناک ہو جاتا ہے جب سیاسی جماعتوں کے کارکنان ایک دوسرے کے خلاف نامناسب حد تک نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ حالیہ ایام میں معاشرہ دو طبقات میں تقسیم ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اور ملک میں داخلی اعتبار سے اس حد تک عدم برداشت داخل ہو چکا ہے کہ قریبی، دوست احباب اور رشتہ دار بھی ایک دوسرے کی رائے کو قبول کرنا تو درکنار‘ ایک دوسرے کی بات سننے پر بھی آمادہ وتیار نہیں۔ جس مجلس میں بھی سیاسی بحث کا آغاز ہو جائے‘ اس میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہو جاتے اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور تعصب کا اظہار کرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے میں داخلی رواداری اور احترام کی فضا عدم برداشت اور کشیدگی کے ساتھ تبدیل ہو چکی ہے۔ اپنے اپنے سیاسی قائدین اور اپنی اپنی سیاسی جماعت کی حمایت میں ایک دوسرے کو سب وشتم کرنا اور الزام دھرنا عام ہو چکا ہے۔ اختلاف کی یہ سطح کسی بھی طور پر معاشرے کے لیے مفید نہیں ہے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتو ں کو اسلام اور پاکستان کی نسبت سے ایک دوسرے کوبرداشت کرنا چاہیے اور سیاسی اختلافات اور الزام تراشی میں اس حد تک آگے نہیں بڑھ جانا چاہیے کہ دوسرے کو مسلمان، پاکستانی یا انسان ماننے ہی سے انکار کر دیا جائے۔ اختلاف کو مدلل انداز میں کرنا اور دوسرے کے نقطۂ نظر کی تردید کرنا کسی بھی طور پر غلط نہیں لیکن جب اختلافـ مخالفت کی سطح پر داخل ہو جائے اور دوسرے نقطہ نظر کے حامل شخص کسی بھی طور پر برداشت نہ کیا جائے اور اس کے وجود کو تسلیم کرنا تو درکنار‘ اس کے خاتمے کی جستجو کرنا شروع کر دی جائے تو معاشرہ داخلی اعتبار سے کمزور ہو جاتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی سیاست کا مقصد فقط اپنی پارٹی کے لوگوں کی ترجمانی کرنا یا ان کی نمائندگی کرنا نہیں ہوتا بلکہ برسرِاقتدار آنے کے بعد سیاسی جماعت پوری قوم کی ترجمان ہوتی ہے اور اس کو پوری قوم کے مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔ فقط اپنی جماعت اور اپنی سیاست ہی کو حرفِ آخر سمجھ کر دوسری سیاسی جماعت کے لوگوں کو قوم کا حصہ سمجھنے سے انکار کر دینا ایک ایسا عمل ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں صحت مند سیاست کے بجائے منفی سیاست کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور معاشرہ داخلی اعتبار سے منتشر اور تقسیم ہو جاتا ہے۔ معاشرہ اس کمزوری کی وجہ سے اندرونی و بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے اور اندرونی دشمنوں کو سازشیں اور بیرونی دشمنوں کو جارحیت کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس ساری صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہمیں کتاب وسنت کی تعلیمات کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔
قرآنِ مجیدمیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا اور لڑائی جھگڑے کی صورت میں ان کے درمیان صلح کرانے کی تلقین کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات میں ارشاد فرماتے ہیں:''یقینا صرف مومن (تو ایک دوسرے کے) بھائی ہیں۔ پس صلح کرا دو اپنے دونوں بھائیوں کے مابین اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم رحم کیے جاؤ‘‘۔ (آیت: 10) اسی طرح سنن ابو داؤد میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ '' رسول اللہﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے‘ تم جنت میں نہ جاؤ گے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور تم (کامل) مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ رکھنے لگو۔ کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں کہ جب تم اسے کرنے لگو گے تو تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو‘ آپس میں سلام کو عام کرو‘‘۔
اگر کتاب وسنت کی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اختلافات خواہ کسی بھی حد تک کیوں نہ پہنچ جائیں‘ ہمیں باہمی رواداری اور اخوت کے رشتے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ خواہ ہم کسی بھی سیاسی جماعت وابستہ ہوں ہم اسلام اور پاکستان کی نسبت سے ایک دین اور ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں اور سیاسی نقطہ نظر کے اختلاف کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک دوسرے کو مسلمان،پاکستانی اور انسان تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔ کسی بھی سیاسی لیڈر کی ناپسندیدگی یا محبت میں اس حد تک آگے نہیں بڑھ جانا چاہیے کہ ہم داخلی اعتبار سے منتشر، غیر متحد اور کمزور ہو جائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اہلِ پاکستان کو محبت، اخوت اور رواداری کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق دے‘ آمین !