مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ کی ایک فعال مذہبی تنظیم ہے۔ اس کے زیرِ انتظام برطانیہ کے طول وعرض میں درجنوں مسجدیں، ادارے اور اسلامی سنٹرز کام کر رہے ہیں۔ جمعیت اہلحدیث کی ترویج میں مولانا محمود میر پوری مرحوم نے نمایاںکردار ادا کیا۔ ان کے بعد ڈاکٹر عبدالہادی عمری اور مولانا شعیب احمد میر پوری اس کی ترقی کے لیے مؤثر کردار ادا کرتے رہے۔ اس وقت مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ کے روحِ رواں مرکزی ناظم اعلیٰ حافظ حبیب الرحمن ہیں اور ان کے ہمراہ مرکزی ناظم تبلیغ مولانا شریف اللہ شاہد اور مولانا شفیق الرحمن شاہین مرکزی جمعیت اہلحدیث کی خدمات سرانجام دینے میں مصروف ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال اسلامی دعوت کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں دنیا بھر سے اہل علم وفکر شرکت کرتے اور سامعین کے سامنے علم وحکمت کے موتیوں کو بکھیرتے ہیں۔ مجھے بھی کئی مرتبہ اسلامی دعوت کانفرنس میں شرکت کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔ بالعموم اسلامی دعوت کانفرنس ستمبر اور اکتوبر کے مہینے میںبرمنگھم شہر میں منعقد ہوتی ہے لیکن اس دفعہ مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ نے 29 مئی کو مرکز اُم القریٰ کی تاسیس کے موقع پر اس کانفرنس کا انعقاد بریڈ فورڈ میں کیا۔
بریڈ فورڈ میں ایک بڑے مرکز کی تاسیس کے حوالے سے مولانا شریف اللہ شاہد نے نمایاں کردار ادا کیا۔ مولانا شریف اللہ شاہد کے ساتھ میرے دیرینہ تعلقات ہیں اور وہ مجھے جمعیت کی سرگرمیوں سے آگاہ بھی کرتے رہتے ہیں۔ کچھ روز قبل بھی انہوں نے جہاں مجھے مرکزی جمعیت اہلحدیث کی سرگرمیوں سے آگاہ کیا‘ وہیں بریڈ فورڈ میں ہونے والی اسلامی دعوت کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھی دی۔ ناسازیٔ طبع کی وجہ سے میں کانفرنس میں شرکت کے لیے برطانیہ کا سفر نہ کر سکا لیکن مولانا حبیب الرحمن اور بھائی شریف اللہ شاہد کے اصرار پر میں نے برطانیہ کے دوستوں سے وڈیو لنک پر خطاب کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر پروفیسر ساجد میر، ڈاکٹر حافظ عبدالکریم،ڈاکٹر حماد لکھوی، مولانا ظفر الحسن مدنی، رانا شفیق پسروری اور دیگر احباب موجود تھے۔ وڈیو لنک کے ذریعے اسلامی دعوت کانفرنس میں جو گفتگو میں نے کی‘ اس کو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
یقینا یہ دن اس اعتبار سے انتہائی خوشی اور مسرت کا دن ہے کہ مرکزی جمعیت کے زیر اہتمام بڑی تعداد میں لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے مرکز اُم القریٰ کی اس افتتاحی تقریب کے موقع پر ہونے والی اسلامی دعوت کانفرنس میں موجود ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے راہِ حق اور راہِ ہدایت کی طرف ہماری رہنمائی کی۔ یقینا ہدایت اور ایمان اللہ تبارک وتعالیٰ کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں ہر نعمت بے وزن ہو کر رہ جاتی ہے۔ فرعون وقت کا بادشاہ تھا لیکن ایمان کی نعمت نہ ہونے کی وجہ سے راندۂ درگاہ ہو گیا، قارون سرمایہ دار تھا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے راہِ ہدایت پر نہ ہونے ور اس کے گھمنڈ کی وجہ سے اس کو زمین میں دھنسا دیا، شدادجاگیر دار ہونے کے باجود باعثِ عبرت اور حسرت ویاس کی ایک تصویر بن گیا۔ ابو لہب چونکہ راہِ ہدایت کا متلاشی نہیں تھا اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ایک مستقل سورت اس کی مذمت میں نازل فرما دی۔ اس کے مدمقابل جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی کو ایمان کی نعمت سے بہرہ ور فرما دیتے ہیں تو ہر نعمت اس کے ساتھ معنی خیز ہو جاتی ہے۔ جب ایمان والا سردار ہوتا ہے تو اس میں سیدنا صدیق اکبرؓ کی ذات نمونہ بن جاتی ہے، جب ایمان والا صاحب منصب ہوتا ہے تو اس کے لیے سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کا کردار مشعل راہ بن جاتا ہے، جب صاحب ثروت اور سرمایہ دار ہوتا ہے تو اس کے لیے سیدنا ذوالنورین ؓاور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا عظیم کردار نمونہ بن جاتا ہے اور اگر کو ئی صاحب ایمان بوریا نشین اللہ تعالیٰ کے آستانے پر جھکنے والا،شب زندہ دار، تہجد گزارہو تو اس کے لیے سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کا کردار مثال بن جاتا ہے؛ چنانچہ ہمیں اس دورِپر آشوب میں‘ جبکہ مادی کشمکش اپنے عروج پر ہے‘ اپنے ایمان کو بچانے اور بڑھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں ارشاد فرما :اپنے آپ اور اپنے اہلِ خانہ کو آگ کے عذاب سے بچا لو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔
یورپ کی سرزمین پر رہتے ہوئے اگر ہم نے بڑے گھر کو حاصل کر لیا، سرمائے کو اکٹھا کر لیا، بینک بیلنس کو بڑھا لیا، گاڑیوں کو اپنی سواری اور آمدورفت کے لیے حاصل کر لیا اور یہ سمجھ لیا کہ سارے کے سارے یہ کام کرنے کے ساتھ ہم کامیاب ہو چکے ہیں تو یہ ہماری خام خیالی ہو گی۔ ہم حقیقت میں اس وقت ہی کامیاب وکامران ہوں گے جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا اور پیغمبر آخر الزمان حضرت رسول اللہﷺ کی اتباع میں اپنے آپ کو مکمل طور پر وقف کر دیں گے۔
اسلامی دعوت کانفرنس کے موقع پر اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام کے ساتھ وابستگی کو اختیار کرکے،اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو حاصل کرکے،اور اس کی بندگی کے ذوق کو اپنے اندر پیدا کرکے ہی ہم حقیقی معنوں میں کامیاب و کامران ہوں گے۔ اگرہم فقط مادی مال واسباب کو جمع کر لیتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے دور ہو جاتے ہیں اور پیغمبر آخر الزمان حضرت رسول اللہﷺ کی شریعت اور تعلیمات کو فراموش کر دیتے ہیں تو یوں سمجھ لیں ہم نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النازعات میں دو طرح کی جماعتوں کا ذکر کیا ایک جماعت وہ جو دنیا کے جھمیلوں میں اپنے آپ کو وقف کر گئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس نے طغیانی کا راستہ اختیار کیا اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی تو اس کا ٹھکانہ جہنم کے انگارے ہوں گے۔ اس کے مدمقابل جوشخص اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر گیا اور اس نے اپنی خواہش کو دبا لیا تو اس کا ٹھکانہ جنت میں ہوگا۔ لیکن یہ حکمت ہمیں کیونکر حاصل گی ؟ حکمت اور دانائی کی یہ باتیں ہمیں تب حاصل ہوں گی جب ہم نفع بخش علم یعنی علمِ دین حاصل کریں گے۔لوگوں کی اکثریت یہ بات سمجھتی ہے کہ شاید علمِ دین حاصل کرنا فقط ان لوگوں کی ذـمہ داری ہے جو مساجد کو چلانے والے اور مدارس کے اساتذہ ہیں۔ ہمیں اس بات کو ذہن نشیں کرنا چاہیے کہ اُتنا دینی علم‘ جنتا زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے اور جنتا ہمارے پیشے سے متعلق ہے‘ حاصل کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ اگر اس فرض کی ادائیگی میں ہم کوتاہی برتتے ہیں تو یقینا ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں دو عظیم الشان نبیوںکا ذکر کیا جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے عظیم الشان سلطنت سے بھی نوازا تھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام‘ جن کے ہمراہ پہاڑ اور پرندے بھی تسبیح کیا کرتے تھے اور حضرت سلیمان علیہ السلام‘ جن کے دربار میں جنات، انسان، پرندے اور حیوانات‘ سب کے نمائندے موجود ہوا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو حشرات الارض کی بولیاں بھی سمجھادی تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اتنی عظیم الشان نعمتیں عطا کرنے کے باوجود جب اپنے فضلِ بے پایاں کاذکر کیا تو علم کی نعمت کا ذکر کیا اور ارشاد فرمایا: کہ ہم نے داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو علم کی نعمت سے نوازا تھا، اور انہوں نے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس نعمتِ بے پایاں کا شکریہ بھی ادا کیا اور یہ الفاظ کہے: اس اللہ کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے ہمیں بہت سے لوگوں پر فضیلت عطا کی ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ علم ہی کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ''کہ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرنے والے اس کے عالم بندے ہوتے ہیں ‘‘۔ جوں جوں علم ترقی کرتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت، انابت اور بندگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے؛ چنانچہ جب ہم اپنی ترجیحات کا تعین کرتے ہیںتو اس میں علمِ دین کو بھی لازماً اہمیت دینی چاہیے۔ جامع اُم القریٰ کا قیام یقینا اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ یہاں سے علم دین کی شمعیں پھوٹیں گی اور یہاں سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین سے متعلق تعلیمات صرف بریڈ فورڈ کے علاقے ہی کو نہیں بلکہ پورے برطانیہ کو منور کرنے کا سبب بن جائیں گی۔
ان شاء اللہ یہ مساجد، مدارس اور علم دین سے متعلق اداروں کا قیام ہمارے لیے صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں دیارِ غیر میں بھی آکر اس بات کی جو توفیق عطا فرمائی ہے‘ اس پر اس کا شکر گزار بندہ بننا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے شکر کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شکر اد اکر و گے تو میں نعمتوں کو بڑھا دوں گا، اور اگر تم نے میری نعمتوں پر ناشکری کی تو میرا عذاب اور میری پکڑ انتہائی شدید ہے۔ چنانچہ میں اپنے بھائی شریف اللہ شاہداور حافظ حبیب الرحمن کو مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ آج ایک کارِخیر کی بنیاد رکھنے کے لیے جا رہے ہیں اور اس چشمۂ خیر سے لوگ فیض یاب ہوں گے اور یہاں سے علم کے جوچشمے پھوٹیں گے اس سے لوگ اپنی تشنگی کو دور کریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس موقع پر علم سے وابستگی اختیار کرنے، اپنے ایمان کی حفاظت، بقا اور ترویج وترقی کے لیے جستجو کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان شاء اللہ یہ ادارہ قیامت کی دیواروں تک کے لیے ہمارے لیے مینارۂ نور ثابت ہو گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!