پاکستان میں ایک عرصے سے جنسی جرائم اور تشدد کا سلسلہ جاری وساری ہے اور وقفے وقفے سے اس حوالے سے دل خراش اور تکلیف دہ خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ ایک عرصہ قبل قصور کے علاقے حسین خانوالا میں بڑے پیمانے پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا انکشاف ہوا تھا اور یہ خبر سننے کو ملی کہ اس عصمت دری کو وڈیوز کی شکل دے کر ڈارک ویب کی دنیا میں فروخت کرکے کروڑوں ڈالر بھی کمائے جا رہے ہیں۔ اس واقعے پر میڈیا نے بھرپور انداز میں آواز اٹھائی لیکن افسوس بوجوہ مجرموں تک رسائی نہ ہو سکی۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل موٹر وے پر بیرونِ ملک سے پاکستان منتقل ہونے والی خاتون کے ساتھ عصمت دری کا واقعہ پیش آیا جس پر پوری قوم کے سر شرمندگی کے ساتھ جھک گئے۔ معصوم زینب کے دلخراش واقعے نے بھی ایک عرصہ تک لوگوں کے اذہان و قلوب پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کیے رکھے۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل حجرہ شاہ مقیم میں بھی ایک معصوم بچی کی عصمت دری کے بعد اس کی لاش کو کھیتوں میں پھینک دیا گیا۔ کھڈیاں میں قاری خلیل الرحمن کے بیٹے کو بدفعلی سے انکار کرنے پر عید کے روز باپ کے سامنے گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ ان تمام واقعات کے حوالے سے لواحقین حکومت کے سامنے استدعا کرتے رہے لیکن افسوس کہ ان کی شنوائی نہ ہو سکی۔
چند روز قبل ایک مرتبہ پھر انتہائی دلدوز خبر سننے کو ملی ہے کہ پتوکی میں موٹر سائیکل سوار کو ڈکیتی کی واردات کا نشانہ بنایا گیا اور اس موقع پر باپ کی موجودگی ہی میں اس کی 15 سالہ بیٹی کوبے آبرو کیا گیا۔ اس واقعے نے قوم کے اعصاب پر انتہائی گہرے منفی اثرات مرتب کیے۔ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز موقع پر پہنچے اور انہوں نے دکھی خاندان کو دلاسہ دیا اور اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی کہ مجرموں کو قرارِ واقعی سزا دلائی جائے گی۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس قسم کے واقعات کے بعد حکومت کے نمایاں ذمہ دار موقع پر تو پہنچ جاتے ہیں لیکن مظلوم خاندان کی صحیح طریقے سے اشک شوئی نہیں ہو پاتی۔
جنسی جرائم کے انسداد کے حوالے سے قرآن وسنت کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر2 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''زنا کرنے والی عوت اور زنا کرنے والے مرد کو کوڑے مارو‘ پس ان دونوں میں سے ہر ایک کو 100کوڑے (مارو) اور نہ پکڑے تمہیں ان دونوں سے متعلق نرمی‘ اللہ کے دین میں‘ اگر ہو تم ایمان لاتے اللہ اور یومِ آخرت پر۔ اور چاہیے کہ حاضر ہو ان دونوں کی سزا کے وقت مومنوں میں سے ایک گروہ‘‘۔
کتبِ احادیث کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ سزا‘ جس کا ذکر سورہ نور میں کیا گیا غیر شادی شدہ افراد کے لیے ہے جبکہ شادی شدہ اگر بدکرداری کا ارتکاب کریں تو ان کو سنگسار کر دینا چاہیے۔ اس کے مدمقابل معصوم اور نا بالغ بچوں کے ساتھ برائی کا ارتکاب کرنے والے خصوصی سزاؤں کے مستحق ہیں۔ اس لیے کہ یہ لوگ فساد فی الارض کے مرتکب ٹھہرتے ہیں اور فساد فی الارض کی سزا شریعتِ اسلامیہ میں انتہائی سنگین بتلائی گئی ہے۔ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 33میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک سزا ان لوگوں کے لیے‘ جو جنگ کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور کوشش کرتے ہیں زمین میں فساد مچانے کی (یہ ہے) کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی پر چڑھا دیے جائیں یا کاٹ دیے جائیں ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف (سمتوں) سے یا وہ نکال دیے جائیں زمین (ملک) سے‘ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے‘‘۔
ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ جب وحشت ناک اور دردناک سانحے کی خبر سننے کو ملتی ہے اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے آواز اُٹھائی جاتی ہے تو انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں اس موقع پر مجرموں سے اظہار ِیکجہتی کے لیے میدان عمل میں اُتر آتی ہیں اور سزائے موت جیسی سزاؤں کی بھرپور انداز سے مخالفت اور مذمت کرکے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسانی حقوق کا حقدار وہ شخص ہے جو امن اور آشتی کی زندگی گزار رہا ہو اور ایسے شخص کو بھی یقینا انسانی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جودوسروں کو تکلیف اور ضرر پہنچانے کی نیت اور ارادہ نہ رکھتا ہو، لیکن جو شخص سرِعام معاشرے میں فساد اور انتشار پھیلائے اُس کے لیے انسانی حقوق کی بات کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں۔ درحقیقت مجرم کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنا مجرموں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ اسی وجہ سے کچھ عرصہ قبل قومی اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی گئی تھی کہ اگر کوئی معصوم بچوں کے ساتھ برائی کا ارتکاب کرے گا تو ایسے مجرموں کو سرِعام سزائے موت دی جائے گی جس کا مقصد دوسرے جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔
عہدِ رسالت مآبﷺ میں اس قسم مجرموں کے ساتھ عبرت ناک سلوک کیا جاتا رہا۔ اسی وجہ سے جزیرۃ العرب آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہر قسم کے جرائم سے پاک ہوگیا تھا۔ اس حوالے سے بعض اہم واقعات درج ذیل ہیں :
1۔ سنن نسائی میں سیدنا انس ؓسے مروی ہے کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کے کانوں میں بالیاں دیکھیں تو (ان کو حاصل کرنے کے لیے) اس نے لڑکی کو ایک پتھر سے مار ڈالا۔ اس بچی کو نبی اکرمﷺ کے پاس لایا گیا تو اس میں کچھ جان باقی تھی۔ آپﷺ نے اس سے پوچھا: ''تجھے فلاں نے قتل کیا ہے؟‘‘ اس نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ''فلاں نے قتل کیا ہے؟‘‘ اس نے سر کے اشارے سے کہا: نہیں۔ آپ نے پھر (تیسری بار) اس سے پوچھا: ''کیا تجھے فلاں نے قتل کیا ہے؟‘‘ اس نے سر کے اشارے سے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہﷺ نے حکم دیا اور اس قاتل کا سر بھی اسی طرح دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ قبائل عکل و عرینہ کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ آئے اور دینِ اسلام میں داخل ہو گئے۔ پھر انہوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہم لوگ مویشی رکھتے تھے‘ کھیت وغیرہ ہمارے پاس نہیں تھے‘ (اس لیے ہم صرف دودھ پر بسر اوقات کیا کرتے تھے) اور انہیں مدینہ کی آب و ہوا ناموافق آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے کچھ اونٹ اور چرواہا ان کے ساتھ کر دیا اور فرمایا کہ انہی اونٹوں کا دودھ وغیرہ پیو (تو تمہیں صحت حاصل ہو جائے گی) وہ لوگ (چراگاہ کی طرف) گئے۔ لیکن مقام حرہ کے کنارے پہنچتے ہی وہ اسلام سے پھر گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ اس کی خبر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملی تو آپﷺ نے چند صحابہ کو ان کے پیچھے دوڑایا۔ (وہ افراد پکڑ کر مدینہ لائے گئے) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں اور ان کے ہاتھ اور پیر کاٹ دیے گئے (کیونکہ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا) اور انہیں حرہ کے کنارے چھوڑ دیا گیا۔ آخر وہ اسی حالت میں مر گئے۔
رسول اللہﷺ انتہائی درگزر فرمانے و الے اور نہایت شفیق اور مہربان طبیعت کے مالک تھے لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی سزائیں دے کر اُمت کو یہ سبق دیا کہ جب کوئی شخص سطح انسانیت سے گر کر حیوانیت کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے اور معاشرے میں انتشار اور بگاڑ پیدا کرتا ہے تووہ کسی قسم کی رُو رعایت کا مستحق نہیں رہتا۔ خلفائے راشدین نے بھی نبی کریمﷺ کی سنتِ مطہرہ سے حاصل ہونے والے سبق کو اپنے عہدِ خلافت میں جاری وساری رکھا اور جب بھی کبھی سنگین نوعیت کے جرم کا ارتکاب کیا گیا تو مجرموں کو قرار واقعی سزا دی گئی۔نبی کریمﷺ نے انسانی جان کی حرمت کو بہت زیادہ اہمیت دی‘ اس حوالے سے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ سنن ابی داؤدمیں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے کسی مومن کو (ناحق) قتل کیا پھر اس قتل پر خوش بھی ہوا تو اللہ تعالیٰ اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائیں گے۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان سنا: تم میں سے کوئی شخص (اپنے)مسلمان(بھائی) کی طرف اسلحہ سے اشارہ نہ کرے،اس لیے کہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ ناحق قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں جا پڑے۔
ان احادیث مبارکہ سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ اسلام میں انسانی جان کی حرمت کو کس انداز میں واضح کیا گیا ہے؛ چنانچہ جب بھی کبھی معاشرے میں قتل وغارت گری یا عصمت دری کا کوئی واقعہ ہو تو ہماری ہمدردیاں مجرم و ظالم کے بجائے مقتول و مظلوم کے ساتھ ہونی چاہئیں۔ اور قاتل اور مجرم کو قرار واقعی سزا ملنے پر ہمیں کسی قسم کے افسوس کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔اس لیے کہ کڑی سزاؤں کے نفاذ ہی سے معاشرہ جرائم پیشہ عناصر سے پاک ہو سکتا اور امن و سکون کے راستے پر چل سکتا ہے۔