"AIZ" (space) message & send to 7575

معاشی ترقی

کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں اس کا معاشی استحکام کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مغربی اقوام کو اس لیے ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے معا شی معاملات ہموار انداز میں آگے بڑھتے رہتے ہیںجبکہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک معاشی اعتبار سے مختلف طرح کے بحرانوں کا شکار ہیں۔ معاشرے کو معاشی اعتبار سے ترقی دینے کے لیے کئی طرح کی حکمت عملیاں اپنائی جا سکتی ہیں۔ اگر معاشی ترقی کے لیے منظم منصوبہ بندی کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے میں موجود معاشی بدحالی کا مقابلہ نہ کیا جا سکے لیکن دکھ اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ تیسری دنیا کے بہت سے ممالک کے حکمران اس اعتبار سے منظم منصوبہ بندی کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
ہمارا ملک پاکستان بھی ایک عرصے سے معاشی بحرانوں کا سامنا کرتا چلا آ رہا ہے اور اس حوالے سے خاطر خواہ حکمت عملی کو نہیں اپنایا جا سکا۔ حکمرانوں کی اکثریت آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر ممالک سے قرضے حاصل کرکے حکومتی معاملات کو چلانے کی کوشش کرتی ہے۔ ہماری حکومتیں ان قرضوں کو ادا کرنا تو درکنار‘ ان پر عائد کردہ سود دینے سے بھی قاصر رہتی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان قرضوں اور سوددر سود کی موجودگی میں ہمارا ملک معاشی ترقی کی شاہراہ پر کیونکر گامزن ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں گردوپیش پر نظر ڈالنی چاہیے اور جن ممالک نے معاشی اعتبار سے اپنے معاملات کو بہتر بنایا ہے‘ ان سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں کتاب وسنت میں موجود تعلیمات سے بھی استفادہ کرنا چاہیے تاکہ ہمارا معاشرہ معاشی بحران سے باہر نکل سکے۔ توانائی کی پیداوار کے حوالے سے ہمیں اپنے ملک کے وسائل اور مسائل پر غور کرنے کے بعد اس حوالے سے بھی منظم منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر پٹرولیم مصنوعات روز بروز مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کے مہنگے ہونے کے نتیجے میں جہاں نقل وحرکت اور رسل ورسائل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ وہیں دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی خودبخود بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بجلی کی پیداوار کے لیے بھی جو ذرائع استعمال کیے جا رہے ہیں‘ وہ ہمارے ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نا کافی ہیں۔ اگر ہم اپنے ملک کی آب وہوا پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے ملک میں کھلا اور صاف آسمان موجود ہے جس پر چمکتا‘ دمکتا سورج ہر وقت مسکراتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہمارے ملک میں بادلوں کی آمدورفت اس حد تک نہیں کہ سورج کی روشنی ماند پڑ جائے بلکہ مجموعی طور پر سال کے بیشتر حصے میں سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمکتا اور دمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ یورپ کے بہت سے ممالک‘ جہاں بادل ہر وقت موجود رہتے ہیں‘ وہاں بھی گھریلو سطح پر شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ گو پاکستان میں بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شمسی توانائی کا استعمال بعض علاقوں میں کیا جاتا ہے لیکن مجموعی طور پر ملک بھر میں وسیع پیمانے پر اس ذریعے سے بجلی کے حصول پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر ہمارے ملک میں بڑے پیمانے پر شمسی توانائی کو بجلی بنانے کے لیے استعمال کیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے گھریلو اور علاقائی سطح کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر بھی توانائی کے بحران پر قابو پانے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ ہمارے ملک میں مختلف جگہوں پر بڑے سولر پارک بنانے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے وسیع پیمانے پر توانائی پیداکی جا سکے۔ برطانیہ کے مختلف سفروں کے دوران وہاں پر میں نے پن چکی کے ذریعے بڑے پیمانے پر بجلی کی پیداوار دیکھی ہے۔ جہاں کہیں بھی ہوا تیز رفتاری سے چلتی ہے‘ وہیں پن چکی کو نصب کر دیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں کئی مقامات پر ہوائیں بہت تیز چلتی ہیں لیکن ان تیز ہواؤں کے ذریعے توانائی کے حصول پر توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر اس ذریعے پر صحیح طریقے سے توجہ دی جائے تو ہمارے ملک میں توانائی کے بحران پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ سمندر کے کناروں اور پہاڑی علاقوں میں بالعموم تیز ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں‘ اگر ان جگہوں پر بجلی کی پیداوار کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تو آسانی سے بجلی کی پیداوار کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ایک عرصہ قبل اٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کا ایک بڑا مقصد جوہری توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنا تھا لیکن افسوس کہ اس ذریعے کو بھی صحیح طریقے سے استعمال میں نہیں لایا جا سکا۔
پاکستان میں پٹرول اور ڈیزل کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے الیکٹرک کار اور ہائبرڈ ٹیکنالوجی کے استعمال کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور لوکل سطح پر اسیمبل کی جانے والی گاڑیوں میں اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنا وقت کی بڑی ضرورت ہے۔ اگر لوکل سطح پر اسیمبل ہونے والی گاڑیوں میں ہائبرڈ انجن اور الیکٹرک نظام کو استعمال کیا جائے تو ملک میں پٹرول اور ڈیزل کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال کا احسن طریقے سے مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک کا ایک بڑا حصہ زراعت پر انحصار کرتا ہے اگر زرعی پیداوار کے حوالے سے صحیح طریقے سے منصوبہ بندی کی جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے جہاں ملک کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں وہیں آنے والے سالوں میں خوراک کے بحران سے نکلنے کی صورت بھی پید ا ہو سکتی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے عہد مبارک کا ذکر کیا کہ آپ علیہ السلام نے مصر میں پیدا ہونے والے غلے کی کچھ اس انداز میں تنظیم کی تھی کہ جب عالمی قحط نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا تو مصر کے لوگ نہ صرف یہ کہ جمع شدہ غلے سے اپنی ضروریات کو پورا کر رہے تھے بلکہ دنیا بھر میں غلے کی ترسیل میں بھی مصر نمایاں کردار ادا کرتا نظر آ رہا تھا۔
ہمارے ملک میں ٹیکس کا نظام اس اعتبار سے توجہ طلب ہے کہ ٹیکس اور مہنگائی کے اثرات بیک وقت امیر اور غریب طبقے پر مرتب ہوتے ہیں جبکہ حکومتوں کی یہ ذـمہ داری ہوتی ہے کہ اگر امیروں کے وسائل پر ٹیکس لگایا جائے تو اس کا فائدہ غریبوں کو پہنچنا چاہیے لیکن اس حوالے سے کوئی منظم منصوبہ بندی موجود نہیں۔
تعلیم ،صحت اور ضرورت کے مطابق چادر اور چاردیواری کی فراہمی‘ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے جس سے کسی کو بھی محروم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن بدنصیبی سے ہمارے ملک میں سوشل سیکورٹی کا کوئی منظم نظام موجود نہیں۔ انگلستان، آسٹریلیا، کینیڈا اور دیگر بہت سے ممالک میں سوشل سیکورٹی کا اس قدر منظم نظام ہے کہ وہاں پر کم آمدن والے لوگ اپنی کم آمدنی کے باوجود اپنے مستقبل کے بارے میں متردّد اور متفکر نہیں ہوتے بلکہ ان کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ حکومت ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ اس ماڈل کو انہوں نے درحقیقت خلافت راشدہ کے نظام سے اخذ کیا ہے اور اپنے ممالک میں جب یہ لاگو کیا تو معاشرے میں ہر طرف اطمینان اور خوشحالی نظر آئی۔ ہمارا وطن کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا‘ اس ملک میں بھی سوشل سیکورٹی کے ایک مضبوط اور منظم نظام کی ضرورت ہے۔ نبی کریمﷺ نے جب زکوٰۃ کی وصولی کا نظام متعارف کرایا تو آپﷺ نے زکوٰۃ امراء سے وصول کرکے غربا اور مفلوک الحال طبقات میں تقسیم کی تھی جس کے نتیجے میں معاشرے میں خودبخود غربت اور بدحالی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ ہمیں بھی نبی کریمﷺ کی تعلیمات سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بیت المال کا منظم نظام متعارف کرایا جائے جس میں معاشرے کے متمول اور صاحبِ ثروت لوگ اپنی زکوٰۃ اور اپنے صدقات و عطیات جمع کرائیں اور اس رقم کو غریبوں کی معاشی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے تا کہ معاشرے میں بدحالی کااحسن طریقے سے خاتمہ ہو سکے۔
ہمارے ملک میں کھلے دل والے صاحبِ ثروت لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو اپنے مال کو ہمیشہ غربا، مساکین اور محتاجوں کی ضروریات کے لیے وقف کیے رکھتے ہیں۔ اگر ان کو اس بات کا یقین ہو کہ حکومتی بیت المال میں جانے والی رقم صحیح طور پر اور درست جگہ پر استعمال ہو گی تو معاشرے میں ارب ہا روپے کا سرمایہ بیت المال میں داخل کیا جا سکتا ہے جس سے غریب اور مفلوک الحال طبقوں کی بحالی کا کردار احسن طریقے سے ادا کیا جا سکتا ہے۔
معاشی بہتری کے لیے غیر ضروری اور پر تعیش اشیا کی برآمدات پر پابندی عائد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے سامان ، لیدر‘ گارمنٹس اور دیگر مصنوعات کی برآمدات کی حوصلہ افزائی کرنا بھی وقت کی پکار ہے اس حوالے سے ملک میں کاٹیج انڈسٹری اور صنعت کاری کو فروغ دینے کے لیے حکومت کو ٹیکس فری زونز میں وسعت پیدا کرنی چاہیے تاکہ صنعت کاری کی حقیقی معنوں میں حوصلہ افزائی ہو سکے۔ اس مادی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ توبہ استغفار ، تقویٰ اور دعاؤں کو مسلسل جاری رکھنا چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کیا جا سکے اور معاشرے میں موجود بے برکتی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا شعور دے کہ وہ اچھے طریقے سے معاشی حکمت عملی وضع کریںتاکہ معاشرے میں رہنے والے بدحال اور مفلوک الحال طبقات احسن طریقے سے اپنی زندگی گزار سکیں، آمین !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں