جماعت اسلامی پاکستان کی متحرک مذہبی اور سیاسی جماعت ہے اور ملک میں جنم لینے والے سیاسی اور مذہبی ایشوز پر اپنا نقطۂ نظر بیان کرتی رہتی ہے۔ اہم ایشوز پر جماعت اسلامی کے زیرِ اہتمام ملک کے طول وعرض میں اجتماعات، جلسے اور جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بسا اوقات دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصے سے سودی معیشت کے خاتمے کے حوالے سے جماعت اسلامی نے ملک گیر رابطہ عوام مہم کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔ اس رابطہ عوام مہم کے زیر اہتمام ملک بھر کے بڑے شہروں میں بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا جا رہا ہے جن میں سود کے خلاف شرعی عدالت کے فیصلے کی پوری شدومد سے توثیق کی جاتی ہے اور سودی بینکاری کے ہمنواؤں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
چند روز قبل بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کی ترجمان نے نبی کریمﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی تو سود کے خلاف چلنے والی اس تحریک میں نبی کریمﷺ کی حرمت اور آپﷺ کی ناموس کے تحفظ کو بھی نمایاں اور کلیدی حیثیت دے دی گئی اوررابطہ عوام مہم کو سودی معیشت سے بڑھ کر ناموسِ رسالتﷺ کے دفاع کی تحریک کے طور پر متعارف کرانے کی جستجو کی گئی۔ اس حوالے سے لاہور میں ایک بڑے عوامی مارچ کا انعقاد کیا گیا جس سے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، جنرل سیکرٹری امیر العظیم، مولانا جاوید قصوری، ذکر اللہ مجاہد اور دیگر رہنماؤ ں نے خطاب کیا۔ اس موقع پر مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ ہفتے کے روز جب شام 6بجے میں مال روڈ پر پہنچا تو میں نے ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین کو اس اجتماع میں شریک دیکھا۔ اجتماع میں شریک مرد اور خواتین کی کثیر تعداد نبی کریمﷺ کی حرمت کے حوالے سے جوش وجذبے سے معمور نظر آئی اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ کے حوالے سے بھی عوام کے پُر جوش جذبات دیکھنے کو ملے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بہت سی اہم باتیں کہیں‘ جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
جماعت اسلامی کے ا میر سراج الحق نے کہا کہ پی ڈی ایم نے برسراقتدار آنے سے قبل عوام کو معاشی طور پر ریلیف دینے کے جو وعدے کیے تھے افسوس کہ ان وعدوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔بجلی، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ تشویش ناک ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عوام اس وقت شدید اضطراب اور پریشانی کا شکار ہیں۔ اس موقع پر سراج الحق صاحب نے یہ بات بھی کی کہ پاکستان اسلامی جمہوری ریاست ہے لیکن 75 برس گزر جانے کے باوجود تاحال پاکستان میں سودی معیشت اور سودی کاروبار اپنے پورے عروج پر نظر آتا ہے اور اس سودی بینکاری کے نظام کو ختم کرنے کے لیے کسی بھی حاکم نے کردار ادا نہیں کیا بلکہ ماضی میں شرعی عدالت کے فیصلوں کے خلاف سٹے لے لیا گیا۔ سراج صاحب نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان کے بیان پر حکومت سے جن اقدامات کی توقع تھی‘ اس نے وہ اقدامات نہیں کیے اور عوامی جذبات کی درست ترجمانی نہیں کی۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں آلو اور پیاز کی تجارت کے مقابلے پر نبی کریمﷺ کی حرمت کے معاملے کو اہمیت دینی چاہیے اور بھارت کے ساتھ کاروبار اور تجارت کو کلی طور پر بند کردینا چاہیے تاوقتیکہ بھارت گستاخی کرنے والی ملعونہ کے خلاف راست اقدام نہیں کرتا۔ اگر ہم نبی کریمﷺ کی حرمت پر صحیح معنوں میں احتجاج نہیں کر سکتے تو پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کس موقع پر اپنے ایمان کا اظہار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی مسائل کا اصل حل اسلامی نظام کے نفاذ میں پنہاں ہے۔ اگر اسلام کو عملی طور پرنافذ کر دیاجائے تو لوگوں کے تمام معاشی اور سماجی مسائل احسن طریقے سے حل ہو سکتے ہیں۔
اس موقع پر میں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا جنہیں میں کچھ ترامیم او ر اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جس کے حصول کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے لیے ایک ایسے دیس کا حصول تھا جس میں اسلام کی آفاقی تعلیمات کو لاگو کیا جا سکے۔ پاکستان کے قیام کے وقت برصغیر کے طول وعرض میں ایک ہی نعرہ لگایا گیا تھا ''پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ‘‘۔ پاکستان کے حصول کے لیے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے اپنے گھر بار کو چھوڑا، بوڑھوں کی داڑھیاں لہو میں تربتر ہوئیں، ہزاروںجوانوں کے سینوں میں سنگینوںکو اُتارا گیا، بڑی تعداد میں بہنوں اور بیٹیوں کی آبرو ریزی ہوئی۔ ان تمام قربانیوں کے بعد ہی پاکستان جیسا خوبصورت وطن حاصل ہوا۔پاکستان کی شکل میں ہمیں جو آزادی کی نعمت حاصل ہوئی اس کا تقاضا یہ تھا کہ جس مقصد کے لیے اس کو حاصل کیا گیا‘ اس کو پورا کرنے کے لیے بھرپور انداز میں جدوجہد کی جاتی۔ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کی جانے والے کوششیں حقیقی معنوں میں اس لیے بارآور نہیں ہو سکیں کہ پاکستان میں بہت سے ایسے کام جاری وساری ہیں جو پاکستان کے نظریاتی تشخص کے ساتھ کسی بھی طور پر مطابقت نہیں رکھتے۔ یہاں پر شراب، جوا، قحبہ گری اور دیگر بہت سے منفی کاموں کو تسلسل کے ساتھ انجام دیا جا رہا ہے۔ یہ بھی اس معاشرے کی بدنصیبی ہے کہ 75 برس سے یہاں پر سود کا لین دین جاری و ساری ہے جس کی روک تھام کرنا اس لیے انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان جب تک سودی معیشت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرے گا اس وقت تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں کا نزول نہیں ہو سکتا ہے۔سود ایک ایسا گناہ ہے جس کا ارتکاب کرنے والا اللہ اور رسو لﷺ کے ساتھ جنگ کرتاہے۔ ہمارے حکمران اپنی دانست میں پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سودی لین دین کو جاری کیے ہوئے ہیںلیکن وہ اس حقیقت کو فراموش کر چکے ہیں کہ وہ قرآنِ مجیدکی واضح تعلیمات کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے جہاں مضبوط حکمت عملی وضع کرنا انتہائی ضروری ہے‘ وہیں اُن اُمور کی انجام دہی کے لیے کوشاں رہنا بھی انتہائی ضروری ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کا ذریعہ ہوں۔ پاکستان میں سودی لین دین یقینا ملک کی معاشی ابتری کا سبب ہے اور ملکی قرضے اس سود کی آمیزش کی وجہ سے مسلسل بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ حکمرانوں کو اس مسئلے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کرنا چاہیے اور اس گناہ کو فوراً سے پیشتر ترک کر دینا چاہیے۔ پاکستان کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں پر معاشی حکمت عملی وضع کرتے وقت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ڈکٹیشن کو بھی قبول کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ بجٹ میں فلم انڈسٹری کے فروغ کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ اقدامات ایک مسلم ریاست میں کسی بھی طور پر مناسب نہیں۔ غیر مناسب و فحش مواد کی نشرواشاعت کے نتیجے میں دنیا وآخرت میں انسان کو دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان گناہوں کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ یہ غیرتِ ایمانی سلب کر لیتے ہیں۔ اس غیرتِ ایمانی کے سلب ہونے کی وجہ سے مسلمان اپنی ترجیحات کا درست تعین کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔مسلمانوں کی بنیادی ترجیح اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے ساتھ ساتھ نبی کریمﷺ سے وفاداری ہوتی ہے۔کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے نبی کریمﷺ کی حرمت جیسے حساس اور اہم ترین معاملات پر صحیح اور درست ردّعمل دینا بھی ممکن نہیں ہو پاتا۔ ہمارے حکمران دنیا بھر میں ہونے والی گستاخیوں پر درست ردّعمل دینے سے اس لیے قاصر رہتے ہیں کہ وہ بہت سے ممالک پر معاشی طور پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی حرمت کے دفاع کے لیے ہمارے حکمرانوں کو سوچ وفکر کے زاویوں کو درست کرکے ان غلط کاریوں سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔
بی جے پی کی ترجمان کا بیان ہر اعتبار سے قابلِ مذمت اور تشویش ناک ہے۔ اہلِ عرب نے اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے اور بھارت کی درست طریقے سے حوصلہ شکنی کی ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو بھی اس حوالے سے واضح موقف اپنا نا چاہیے اور سرکاری سطح پر بھارت کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم ہر چیز گوارہ کر سکتے ہیں لیکن نبی کریمﷺ کی حرمت پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کر سکتے۔ نبی کریمﷺ کی حرمت ہمارے ایمان کی بنیاد ہے جس میں کسی قسم کا سقم اور کمی‘ ہر اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو عقل وشعور عطا کرے تاکہ وہ سود اور سینما کی ترویج جیسے غلط اقدامات سے گریز کریں اور ہم سب کو مل جل کر حرمت رسولﷺ کے دفاع کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !