اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو دیگر مخلوقات کے مقابلے میں فضیلت دی اور سورۃ التین کی آیت نمبر 3میں ارشاد فرمایا: ''تحقیق ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو عقل اور کلام کی صفت سے متصف کرکے اس کے اندر شعور اور بیان کا ملکہ ودیعت فرمادیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں پر ہدایت اور گمراہی کے فرق کو واضح فرمایااور ان کو اندھیروں اور اُجالوں کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ بہت سے انسانوں نے ہدایت کے راستے کو اپنا کر اپنے آپ کو بلندیوں کا راہی بنا دیا‘جبکہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد اندھیرے راستوں پر چل کر گمراہی اور ضلالت کی دلدل میں اُتر گئی۔ ایسے لوگ قرآنِ مجید کے فرمان کے مطابق‘ چوپایوں سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری کے لیے وقف کر دینے والے انسان ہی حقیقی معنوں میں کامیاب اور کامران ہیں۔ ہدایت یافتہ گروہوں سے وابستگی رکھنے والے تمام لوگوں کا درجہ ایک جیسا نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کچھ کو کچھ کے مقابلے میں فضیلت دی ہے، جیسے صالحین کے مقابلے میں شہدا کو فضیلت حاصل ہے کیونکہ صلحا نے تو اپنی زبان سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت کی شہادت دی جبکہ شہدا نے لہو کی مہر لگا کر اپنے ایمان کا ثبوت دیا۔ شہدا کے مقابلے میں صدیقین کا مقام بلند وبالا ہے اس لیے کہ انہوں نے ہر سچی بات کی بلا چون و چرا تصدیق کی۔ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدیق اکبر کے مقام پر فائز ہوئے‘ اس لیے کہ آپؓ صداقت اور سچائی کی بلندترین سطح سے ہمکنار ہوئے۔ صدیقین کا مقام اپنی جگہ بلندوبالا ہے لیکن وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہم کلام ہونے والی منتخب اور برگزیدہ ہستیاں ہیں۔ نبیوں کا مقام نہایت بلند ہے لیکن انبیاء مرتبے میں صاحبِ شریعت رسل اللہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ انہوں نے قوانین شریعت کے ذریعے لوگوں کی درست راستے کی طرف رہنمائی کی۔ رسل اللہ کا مقام اعلیٰ ہے لیکن رسل اللہ اولوالعزم رسولوں کی شان وعظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اولوالعزم رسل اللہ کو یہ مقام حاصل ہے کہ وہ صبر اور استقامت کی بلندترین سطح پر فائز رہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں آنے والی تمام تکالیف اور پریشانیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔ اولوالعزم رسل اللہ میں سیدنا نوح علیہ السلام، سیدنا ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور اللہ کے آخری رسول حضرت سیدنا محمدﷺ شامل ہیں۔ ان پانچ ہستیوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سر بلندی اور نشرواشاعت کے لیے اپنے آپ کو مکمل طور پر وقف کیے رکھا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں آنے والی تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بستی والوں کی شقاوت اور عداوت کا مقابلہ کیا۔ اعدائے دین کی طرف سے ملنے والی تکالیف، اذیتوں، طعنوں اورمخالفتوں کو پوری شدومد سے برداشت کرتے رہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے بہت قربانیاں دیں۔ آپ علیہ السلام نے بستی والوں کی مخالفت کو سہنا گوارا کر لیا، اپنے والد آزر کی عداوت اور مخالفت کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور بڑی استقامت کے ساتھ اس کو دین کی دعوت دیتے رہے، آپ علیہ السلام نے بت کدے میں جا کر توحید کا کلہاڑا چلایا اور جواں عمری ہی میں نمردو کی جلتے ہوئے الائو میںکود نا گوارا کر لیا۔آپ علیہ السلام مختلف طرح کی آزمائشوں اور ابتلاؤں کو سہنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے حقدار ٹھہرے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو اپنا خلیل بنا لیا۔ آپ علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے محبتوں کی قربانیاں دیں، حضرت ہاجرہ اور ننھے اسماعیل کو وادی بے آب وگیا ہ میں چھوڑنا گوارا کر لیا اور جس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام دوڑ دھوپ کے قابل ہوئے تو آپ علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر اُن کے گلے پر چھری چلانے پر بھی آمادہ وتیار ہو گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تمام قربانیوں کو قبول ومنظور فرماتے ہوئے آپ علیہ السلام کو انسانیت کا مقتدا اور پیشوابنا دیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی رعونت کو نہیں دیکھا،قارون کے سرمایے کو نہیں دیکھا، ہامان کے منصب کو نہیں دیکھا، آپ علیہ السلام اعدائے دین کے مقابلے میں استقامت اور اولوالعزمی کی چٹان بنے رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بستی والوں کی شقاوت اور عداوت کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا۔ یہ تمام اولوالعزم ہستیاں یقینا ہر اعتبار سے قابلِ تحسین ہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو رتبہ ومقام، جو رفعت و شان حضرت رسول اللہﷺ کو عطا کی ہے وہ جمیع کائنات میں کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوئی۔ ایمان اور اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان لایا جائے لیکن مراتب کے اعتبار سے تما م رسل اللہ کا مقام یکساں نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض کو دیگر پر فضیلت دی ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام اور رسل اللہ میں سب سے زیادہ فضیلت رسول اللہﷺ کو دی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ میں استقامت، جرأت، شجاعت، صبر، حلم، دیانت، امانت جیسے عظیم اوصاف کو جمع فرما دیا اور آپﷺ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے لیے جو قربانیاں دیں‘ان کی مثال تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو رفعت، شان اور مقام آپﷺ کو عطا فرمایا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی عزت، احترام، توقیر اور آپ کے ادب کو یقینی بنایا جائے اور اس حوالے سے اگر کوئی گستاخانہ لب ولہجے کو اختیار کرتا ہے تو اس کا بھرپور طریقے سے سدباب کیا جائے۔ زمانہ رسالت مآبﷺ میں کعب ابن اشرف اور ابو رافع یہودی گستاخانہ طرزِعمل کی وجہ سے کیفر کردار تک پہنچے۔ صحابیٔ رسول حضرت محمد بن مسلمہ ؓنے کعب ابن اشرف کو، جبکہ حضرت عبداللہ ابن عتیک ؓنے ابو رافع یہودی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حضرت عمیر ابن عدیؓ نے اسماء بن مروان نامی عورت کو اس کی گستاخی کی وجہ سے واصلِ جہنم کیا۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی کبھی حرمت رسول اللہﷺ پر حملہ کیا گیا‘ تو شمع رسالت کے پروانے ناموسِ رسول اللہﷺ کے دفاع کے لیے میدانِ عمل میں اتر پڑے۔ خلافت کے سقوط کے بعد جب قومی ریاستیں منظر عام پر آئیں تو مختلف مسلم ریاستوں میں توہین رسالت کے انسداد کے لیے قوانین بنائے گئے۔ پاکستان میں بھی 295 سی کا قانون اس لیے بنایا گیا کہ حضرت رسول اللہﷺ کی شانِ اقدس کا بھرپور طریقے سے تحفظ کیا جائے اور جو شخص بھی آپﷺ کے بارے میں گستاخانہ لب ولہجے کو اختیار کرتا ہے‘ اس کو قانونی طریقہ کار سے کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔
بدنصیبی سے مسلمانوں کی سیاسی کمزوری اور اجتماعی غفلتوں کے نتیجے میں ایک عرصے سے غیر مسلم ممالک میں نبی کریمﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخیوں کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ ان گستاخیوں کی روک تھام کے لیے مسلمانوں کو اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوامِ مغرب اور عالم انسانیت اس بات پر مجتمع ہیں کہ کسی انسان کی کردار کشی پر ہتکِ عزت کے قوانین ہونے چاہئیں، جبکہ عدالتوں کی توہین پر توہینِ عدالت کے قوانین ضروری ہیں، گویا جمیع انسانیت اس بات پر متفق ہے کہ کسی بھی انسان کی بلا سبب کردار کشی نہیں کی جاسکتی نہ ہی کسی ادارے کی بلاجواز تنقیص کی جا سکتی ہے۔ اس لیے اس بات کا التزام کرنا انتہائی ضروری ہے کہ جو بدبخت لوگ مقدس مذہبی ہستیوں کی شانِ اقدس میں گستاخی کرتے ہیں‘ ان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے مغربی اور غیر مسلم ممالک میں بھی قوانین کا اجرا کیا جائے۔ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد اپنے اقتصادی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے مغربی اور غیر مسلم ممالک میں آباد ہے۔ ان کو اس حوالے سے مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ ایام میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نے جس انداز میں شانِ رسالت میں گستاخی کی ہے‘ وہ روش، وہ رویہ کسی بھی طور پر قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس قسم کے رویوں کی روک تھام کے لیے عالمِ اسلام بشمول پاکستان کے حکمرانوں کو اپنا کردار مؤثر طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو واشگاف انداز میں یہ پیغام دینا چاہیے کہ مسلمان ہر چیز کو گوارا کر سکتے ہیں لیکن رسول اللہﷺ کی شانِ اقدس میں کی جانے والی گستاخیوں کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے دینی جماعتوں کے رہنماؤں پر بھی خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حکمرانانِ وقت کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لیے مؤثر طریقے سے آواز اُٹھائیں اور حکمرانانِ وقت کو چاہیے کہ وہ حضرت رسول اللہﷺ سے اپنی وابستگی کا اظہار کرنے کے لیے حرمت رسول اللہﷺ پر حملہ آور ہونے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے مؤثر انداز میں سفارت کاری کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اُمت مسلمہ اور اس کے حکمرانوں کو شانِ رسالتﷺ او ر حرمت رسول اللہﷺ کا تحفظ کرنے کی توفیق دے، آمین !