اکثر مغربی ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے۔ مغربی ممالک میں جمہوری عمل کے ذریعے قومی اور علاقائی انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور کسی بھی حلقے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے اُمید وار کو کامیاب قرار دے کر اسے اسمبلی کا ممبر بنا دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی کے ارکان مختلف امور پر بحث کرنے کے بعد کثرت رائے سے قانون سازی کرتے رہتے ہیں اور قانون سازی کا دائرہ کار بالعموم غیر محدود ہوتا ہے یہاں تک کہ بائبل اور الہامی قوانین پر بھی مغربی پارلیمانی قوانین کو فوقیت حاصل ہوتی ہے اور ایک مرتبہ بن جانے والے قوانین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دو تہائی اکثریت اگر کسی قانون پر نظر ثانی کرے تو سابقہ قانون کالعدم قرار پاتا ہے اور نیا قانون بن جاتا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں مختلف جماعتیں انتخابات کے دوران اپنے اپنے منشور کو عوام کے سامنے رکھتی ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں دو جماعتیں اور کئی ملکوں میں اس سے زائد جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور اپنے منشور کے مطابق ملک کو نئے قوانین دیتی اور ملک کے لیے نئی راہوں کا تعین کرتی ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے دیگر اسلامی ممالک میں بادشاہت ہے جہاں پر بادشاہ کی کہی ہوئی بات حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے اور بادشاہ کے کہے ہوئے یا بنائے ہوئے قانون کو چیلنج کرنے کا اختیار کسی فرد یا ادارے کے پاس نہیں ہوتا۔ سعودی عرب‘ کویت‘ متحدہ عرب امارات‘ بحرین اور عرب ممالک کی اکثریت میں اس وقت بھی بادشاہی نظام رائج ہے۔ بادشاہی نظام میں بادشاہ اپنی صوابدید سے شوریٰ کی تشکیل کرتا ہے اور اپنی مرضی ہی سے اس کے نمائندگان کو نامزد کرتا ہے۔ شوریٰ بادشاہ کے لیے ایک مشاورتی باڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کے دیے ہوئے مشورے کو قبول کرنا یا مسترد کرنا بادشاہ کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔
پاکستان‘ ملائیشیا‘ ترکی‘ بنگلہ دیش اور بہت سے دیگرمسلمان ممالک میں جمہوری نظام رائج ہے۔ مغربی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی انتخابات کے ذریعے عوام اپنے نمائندگان کو چنتے ہیں اور انتخابی عمل کے ذریعے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کو منتخب کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو جمہوریت کے حوالے سے تحفظات ہیں اور وہ جمہوری نظام کے بارے میں بدظن اور بدگمان ہیں۔ مسلمان علما اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد یہ بات سمجھتی ہے کہ شاید اسلامی جمہوریت یا پاکستان میں مروّج جمہوریت بالکل مغربی جمہوریت ہی کی مانند ہے۔ جہاں پر اراکینِ پارلیمان کے پاس قانون سازی کے لامحدود اختیار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والے کئی علما اور دینی اداروں کو اس حوالے سے اپنی معلومات کو اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں انتخابی عمل ہی کے ذریعے ممبرانِ اسمبلی کا انتخاب کیا جاتا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کا آئین اور دستور اللہ تبارک و تعالیٰ کی حاکمیت اور قرآن وسنت کی عملداری کی ضمانت دیتا ہے۔ پاکستان کے قانون کے دیباچے میں قراردادِ مقاصد پوری آب و تاب سے موجود ہے جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ حاکمیت فقط اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات کے لیے ہے۔
قراردادِ مقاصد ایک قرارداد تھی جسے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 12مارچ 1949ء کو منظور کیا۔ یہ قرارداد 7مارچ 1949ء کو وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان نے اسمبلی میں پیش کی۔ اس کے مطابق مستقبل میں پاکستان کے آئین کا ڈھانچہ یورپی طرز کا قطعی نہیں ہوگا‘ بلکہ اس کی بنیاد اسلامی جمہوریت و نظریات پر ہوگی۔ قراردادِ مقاصد کے متن پر غور کرنے سے مختلف باتیں واضح ہوتی ہیں۔ قراردادِ مقاصد کا متن درج ذیل ہے:
٭اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے‘ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے‘ وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
٭مجلس دستور ساز‘ جو جمہورِ پا کستان کی نما ئندہ ہے‘ نے آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔
٭جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
٭جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت‘ حریت‘ مساوات‘ رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔
٭جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
٭جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں‘ اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے‘ عمل کر نے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔
٭جس کی رو سے وہ علاقے جو اب تک پاکستان میں داخل یا شامل ہو جا ئیں‘ ایک وفاق بنا ئیں گے۔
٭جس سے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہو گی۔
٭جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جا ئے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں‘ مساوات‘ حیثیت و مواقع کی نظر میں برابری‘ عمرانی‘ اقتصادی اور سیاسی انصاف‘ اظہارِ خیال‘ عقیدہ‘ دین‘ عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔
٭جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
٭جس کی رو سے نظامِ عدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی۔
٭جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت‘ آزادی اور جملہ حقوق‘ بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جا ئے گا۔ تاکہ اہلِ پاکستان فلاح و بہبود کی منزل پا سکیں اور قوامِ عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امنِ عالم اور بنی نوع انسان کی تر قی و خوش حالی کے لیے اپنا بھر پور کر دار ادا کر سکیں۔
قراردادِ مقاصد میں جس انداز میں اسلام کی بالادستی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے اس سے اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اِس قرارداد میں پاکستان کے مستقبل کے آئینی خدوخال کو ہر اعتبارسے اسلامی قرار دینے کی ضمانت دی گئی ہے۔ اب پاکستان کی اسمبلی کے ممبران منتخب ہونے کے بعد جن قوانین پر بحث کرنے کے مجاز ہیں اُن کا تعلق اداروں کے اختیارات‘ دفاعی ضروریات‘ ملکی ضروریات کے مطابق مختلف مقامات پر ڈیموں‘ ہسپتالوں‘ پلوں کی تعمیر اور دیگر عصری امورکے ساتھ ہے۔ قراردادِ مقاصد اور 73ء کے آئین میں کتاب و سنت کی بالادستی کی دی گئی ضمانت اراکینِ اسمبلی کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ وہ کتاب و سنت کے خلاف کسی بھی قسم کی قانون سازی نہیں کر سکتے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ درحقیقت آئین اور قانون سے انحراف کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ پاکستان میں اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک مستقل ادارے کی حیثیت دی گئی ہے جو قانون سازی کے لیے مختلف طرح کی سفارشات کو مرتب کرکے قومی اسمبلی کو روانہ کرے گی اور وہ سفارشات جو کتاب و سنت کے مطابق ہوں ان کو قانون بنا کر پاکستان کے آئین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ شرعی عدالت کو مستقل آئینی حیثیت دی گئی ہے جس کا مقصد ملک میں خلافِ دین اقدامات کو چیلنج کرنے کی سہولت دینا ہے۔ شرعی عدالت کی موجودگی میں ملک میں ہونے والے غیراسلامی اقدامات کا صحیح طور پر احتساب کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ قراردادِ مقاصد‘ اسلامی نظریاتی کونسل اور شرعی عدالت کی موجودگی میں اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہا کہ پاکستان کا قانون اسلام کی عملداری کی ضمانت دیتا ہے اگرچہ اب بھی اس حوالے سے بہت سے سقم اور کمزوریاں موجود ہیں جن کو دور کرنے کے لیے دینی سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا لیکن مندرجہ بالا سہولیات کی موجودگی میں اس بات کا گمان کرنا کہ پاکستان میں مروجہ جمہوریت مغربی جمہوریت ہی کی طرح ہے‘ درست نہیں پاکستان کے آئین میںکتاب و سنت کی بالا دستی کی جو ضمانت دی گئی ہے اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیں مملکتِ خدا داد میں اسلام کی عملداری کے لیے بھرپور انداز میں جدوجہد کرنی چاہیے۔ اگر دینی جماعتیں مشترکہ جدوجہد کریں تو سودی معیشت‘ قحبہ گری کے اڈوں‘ شراب کی تجارت اور دیگر منکرات کا خاتمہ کچھ مشکل نہیںہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی زکوٰۃ اگر مرکزی بیت المال میں جمع کرکے غریب عوام کی بحالی کے لیے استعمال کی جا ئے تو پاکستان میں باآسانی غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور پاکستان بتدریج ایک خوشحال ریاست بن سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل فرمائے۔ آمین