یہ کائنات بلا سبب پیدا نہیں ہوئی بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کائنات کو ایک خاص مقصد کے تحت بنایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیات 16 تا 17میںارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہیں ہم نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کھیلتے ہوئے (یعنی بے مقصد پیدا نہیں کیا)۔ اگر ہم چاہتے کہ ہم بنائیں کوئی کھیل تماشا (تو) یقینا ہم بنا لیتے اسے اپنے پاس سے‘ اگر ہم ہوتے کرنے والے‘‘۔ اسی حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مومنون کی آیت نمبر115 میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ''تو کیا تم نے سمجھ لیا کہ بے شک ہم نے پیدا کیا تمہیں بے مقصد(ہی ) اور یہ کہ بے شک تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟ ‘‘۔ا ن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کائنات اور انسان کو بلا سبب پیدا نہیں کیا گیا بلکہ انسان کو مرنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا پڑے گا۔ چنانچہ انسان کو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی ولادت اور پیدائش کا اصل مقصد کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس مقصد حقیقی کو سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ عصر میں اسی حقیقت کو نہایت احسن انداز میں بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا: '' قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو وصیت (تلقین) کی حق (بات) کی اور ایک دوسرے کو وصیت(تلقین) کی صبر کی‘‘۔ اس سورۃ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو ایمان کے بعد عملِ صالح والی زندگی گزارنے کے لیے بھرپور انداز میں جستجو کرنی چاہیے۔ وہ لوگ جو دنیا کی زندگی میں کچھ اس انداز میں مگن ہو جاتے ہیں کہ اِس کے حصول کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ اور یومِ حساب کو بھلا دیتے ہیں‘ ایسے لوگ قیامت کے دن ناکام اور نامراد ٹھہریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا ذکر سورہ کہف کی آیات 103تا 106میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے کیا ہم خبر دیں تمہیں اعمال کے اعتبار سے زیادہ خسارہ پانے والوں کی؟ (یہ) وہ لوگ (ہیں کہ) ضائع ہو گئی ان کی کوشش دنیوی زندگی میں حالانکہ وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے انکار کیا اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا ‘ تو ضائع ہو گئے ان کے اعمال‘ سو نہیں ہم قائم کریں گے ان کے لیے قیامت کے دن کوئی وزن۔ یہ ان کی سزا ہے، جہنم،اس وجہ سے کہ انہوں نے انکار کیا اور انہوں نے بنایا (اُڑایا) میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق‘‘۔ اس کے مدمقابل نیک اعمال کرنے والے صاحبِ ایمان لوگوں کے لیے اجرِ عظیم کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ کہف ہی کی آیات 107 تا 108میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل کیے نیک‘ ہوں گے ان کے لیے فردوس کے باغات بطور مہمانی۔ (وہ) ہمیشہ رہنے والے ہیںاس میں‘ نہیں وہ چاہیں گے اس سے جگہ بدلنا‘‘۔
ان تمام آیات پر غور وخوض کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ حقیقی کامیابی اسی شخص کو حاصل ہو گی جس نے نیک اعمال کیے ہوں گے۔ ویسے تو انسان کو اپنی پوری کی پوری زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت میں صرف کرنی چاہیے لیکن بعض اوقات اور ایام ایسے ہوتے ہیں جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت اور بندگی کو دل جمعی سے کرنے کا اجر باقی ایام کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ رمضان المبارک کے ایام بالخصوص اس کی طاق راتوں میں عبادت کرنا جس طرح انتہائی مفید ہے اسی طرح ذی الحجہ کے دس دنوں میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادت کرنا بہت زیادہ اجروثواب کا سبب ہے۔
ذی الحجہ ان چار مہینوں میں سے ہے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 36میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک شمار مہینوں کا اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں۔ اللہ کی کتاب میں‘ (اس دن سے) جس دن اس نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو۔اُن میں سے چار (مہینے) حرمت والے ہیں یہی سیدھا دین ہے تو نہ تم ظلم کرو ان میں اپنی جانوں پر‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہیں کرنا چاہیے بلکہ بڑھ چڑھ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادت کے فریضے کو احسن طریقے سے انجام دینا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رمضان المبارک کے ماہِ مبارک اور اس کے آخری عشرے کی طاق راتوں کو نزولِ قرآن مجید کی وجہ سے غیرمعمولی فضیلت سے نوازا۔ اسی طرح قربانی اور حج جیسے عظیم مناسک کی ادائیگی کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے عشرہ ذی الحجہ کے تمام دس دنوں کو انتہائی محترم اور قابلِ عزت بنا دیا۔ چنانچہ ہمیں ان ایام میں بڑھ چڑھ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادت کرنی چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا والے کاموں کو انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کے حوالے سے احادیث مبارکہ میں بہت سی خوبصورت باتیں وارد ہوئی ہیں‘ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
(1) صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نیکی‘جس قدر ان ایام میں فضیلت والی ہوتی ہے‘ اتنی دیگر ایام میں نہیں ہوتی۔ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں‘ سوائے اس شخص کے جو اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کے لیے روانہ ہوا اور اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لایا۔(یعنی لڑتے ہوئے اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا)۔
(2) مسند احمد میں ایک حدیث ہے جس کے راوی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی نظروں میں ان ایام سے زیادہ افضل کوئی بھی دن نہیں کہ جن میں کیے جانے والے نیکی کے کام ان ایام میں کیے جانے والے نیکی کے کاموں سے زیادہ اللہ کو محبوب ہوں۔
چنانچہ ان دنوں میں بکثرت تسبیح‘ تہلیل‘ تکبیر اور تحمیدکرنی چاہیے۔یوم عرفہ کے حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ اس دن کی بہترین دعا جو نبی کریمﷺ اورآپ سے پہلے انبیاء کا ذکر بھی ہے‘ وہ ''لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیٔ قدیر‘‘ ہے۔ ان ایام میں روزے رکھنے کی بھی خصوصی فضیلت ہے۔ عرفہ کے روزے کی فضیلت تو واضح ہے کہ اس دن روزہ رکھنے والے کے گزشتہ اور آئندہ آنے والے برس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ صحیح مسلم میں حدیث شریف ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: عرفہ کے دن کا روزہ‘ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ‘ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی۔ لیکن باقی ایامِ ذوالحج میں بھی روزہ رکھنا باعثِ ثواب ہے۔ مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں حدیث مذکور ہے کہ نبی کریمﷺ ذی الحجہ کے نو دن اور یومِ عاشورکا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اگرچہ اس حدیث کی صحت کے بارے میں محدثین کا اختلاف ہے؛ تاہم عصرِحاضر کے مشہور محدث علامہ شیخ البانی کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔ لہٰذا ان ایام میں کثرت سے توبہ و استغفارکا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ ہماری زندگی میں ہمارے گناہوں کی وجہ سے آنے والی تکالیف اور پریشانیوں کا خاتمہ ہو جائے اور دنیا وآخرت کی فلاح بھی ہمارا مقدر بن جائے۔
سنت ِ نبوی شریف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی آمدکے بعد‘ جس نے قربانی کرنا ہو‘ اس کو اپنے بال اور ناخن نہیں کاٹنے چاہئیں۔ صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ اور سنن نسائی میں حدیث مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''جس شخص کے پاس قربانی کا جانور ہو‘ جسے وہ ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو‘ جب ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے‘ تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے‘ یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں قربانی کر لے‘‘۔
انسان کی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں کسی وقت بھی موت اس کو اپنی آغوش میں لے سکتی ہے؛ چنانچہ انسان کو نیکی کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ کل قیامت کے دن انسان کا مال، حسب ونسب اس کے کسی کام نہیں آئیں گے۔ اس دن انسان کے کام ایمان اور عمل صالح ہی آئیں گے؛ چنانچہ ہمیں موت کے بعد آنے والی زندگی کی ابھی سے تیاری کرنی چاہیے اور بڑھ چڑھ کر نیکیاں کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں نیک اعمال کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق دے، آمین!