تاریخِ انسانیت میں بہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اچھے اوصاف کی وجہ سے تاریخِ انسانیت پر اپنے نقوش ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیے اور آنے والی نسلوں کے لیے اُن کا کردار وعمل ایک نمونے کی حیثیت اختیار کر گیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار بھی ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؓ کو گوناگوں قسم کی صفات سے نوازا تھا اور آپؓ ان صفات کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے ایک مثال بن گئے۔ حضرت عثمان غنیؓ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے شرم وحیا اور سخاوت کے غیر معمولی اوصاف پیدا کیے تھے اور زمانۂ جاہلیت میں بھی آپؓ ان عظیم اوصاف کی وجہ سے جاہلانہ معاشرے سے متاثر ہونے کے بجائے متانت اور وقار کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے رہے۔ نبی کریمﷺ نے جب دعوتِ اسلام کا آغاز کیا تو حضرت عثمان غنیؓ فوراً اسلام کی دعوت کو قبول کرنے والی جلیل القدر شخصیات میں شامل ہوگئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے لیے جن لوگوں نے ابتلاؤں کو برداشت کیا اُن میں حضرت عثمان غنیؓ کا نامِ نامی بھی سرفہرست ہے۔اپنے دین کو بچانے کے لیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاکے حصول کے لیے آپؓ نے دو دفعہ ہجرت کی۔ پہلی ہجرت حبشہ اور دوسری ہجرت مدینہ طیبہ کی طرف تھی۔
نبی کریمﷺ نے جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں جنت کی بشارت دی اُن میں حضرت عثمان غنیؓ کا نام بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔صحیح بخاری میں حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک باغ (بئر اریس) کے اندر تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں دروازہ پر پہرہ دیتا رہوں۔ پھر ایک صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دو، وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری سنا دو، وہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے پھر فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور (دنیا میں) ایک آزمائش سے گزرنے کے بعد جنت کی بشارت بھی سنا دو، وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔
2۔سنن ابو داؤد میں حدیث ہے کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے، آپﷺ فرماتے تھے: ''دس اشخاص جنتی ہیں۔ نبی کریمﷺ جنت میں ہیں، ابوبکرؓ جنت میں ہیں، عمرؓ جنت میں ہیں، عثمانؓ جنت میں ہیں، علیؓ جنت میں ہیں، طلحہؓ جنت میں ہیں، زبیرؓ بن عوام جنت میں ہیں، سعدؓ بن مالک جنت میں ہیں اور عبدالرحمنؓ بن عوف جنت میں ہیں‘‘۔ اگر میں چاہوں تو دسویں کا نام بھی لے سکتا ہوں۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ تو وہ خاموش ہو رہے۔ لوگوں نے پوچھا: وہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: وہ سعید بن زید ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے پناہ مال سے نوازا تھا اور آپؓ اپنے مال کے ذریعے دین کی خدمت کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ آپؓ نے مسلمانوں کی ضرورت کے وقت بئر رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کیا۔ اسی طرح مسجد نبوی کی توسیع کے لیے بھی آپؓ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ جیش عسرہ یعنی غزوۂ تبوک کے موقع پر آپؓ نے اپنے مال کے ذریعے اسلامی لشکر کی بھرپور طریقے سے معاونت کی اور ان تمام مواقع پر نبی کریمﷺ آپؓ کے عمل سے انتہائی مسرور ہوئے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
جامع ترمذی میں ثُمَامَۃَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَیْرِیِّ سے روایت ہے کہ میں اس وقت گھر میں موجود تھا جب عثمان رضی اللہ عنہ نے گھر کی چھت سے جھانک کر انہیں دیکھا اور کہا تھا: تم میرے سامنے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو لاؤ، جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے، چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا گویا وہ دونوں دو اونٹ تھے یا دو گدھے (یعنی بڑے موٹے اور طاقتور) تو عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں جھانک کر دیکھا اور کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں بئررومہ کے علاوہ کوئی اور میٹھا پانی (کا کنواں) نہیں تھا جسے لوگ پیتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''کون بئررومہ کو اس سے بہتر چیز کے عوض (جنت ) خرید کر اپنے ڈول کو دوسرے مسلمانوں کے ڈول کے برابر کر دے گا؟‘‘، یعنی اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی پینے کا برابر کا حق دے گا، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس کے پینے سے روک رہے ہو، یہاں تک کہ میں سمندر کا (کھارا) پانی پی رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا: ہاں! یہی بات ہے۔ انہوں نے کہا: میں تم سے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ مسجد (نبوی) لوگوں کے لیے تنگ ہو گئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''کون آل فلاں کی زمین کے ٹکڑے کو اپنے لیے جنت میں اس سے بہتر چیز کے عوض خرید کر اسے مسجد میں شامل کر دے گا؟‘‘، تو میں نے اسے اپنے اصل مال سے خریدا اور آج تم مجھ ہی کو اس میں دو رکعت نماز پڑھنے نہیں دے رہے ہو؟ لوگوں نے کہا: ہاں! بات یہی ہے۔ پھر انہوں نے کہا: میں اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر تم سے پوچھتا ہوں: کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے پہاڑ ثبیر پر تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما تھے اور میں تھا، تو پہاڑ لرزنے لگا، یہاں تک کہ اس کے کچھ پتھر نیچے کھائی میں گرے تو رسول اللہﷺ نے اسے اپنے پیر سے مار کر فرمایا: ''ٹھہر اے ثبیر! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی اور نہیں‘‘، لوگوں نے کہا: ہاں بات یہی ہے۔ تو انہوں نے کہا: اللہ اکبر! قسم ہے رب کعبہ کی! ان لوگوں نے میرے شہید ہونے کی گواہی دے دی، یہ جملہ انہوں نے تین بار کہا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سخاوت کے حوالے جہاں پر بہت سے اجتماعی واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں وہیں پر یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ آپؓ نے نبی کریمﷺ کے بعد اُمہات المومنین کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا سلسلہ برقرار رکھا۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
مسند احمد میں بکر بنت مسور سے مروی ہے کہ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓنے اپنی ایک زمین سیدنا عثمان بن عفانؓکو چالیس ہزار دینار میں فروخت کی اور انہوں نے یہ ساری رقم بنو زہرہ کے فقرا، مہاجرین صحابہ کرامؓ اور امہات المومنینؓ میں تقسیم کر دی۔ مسور کہتے ہیں: میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حصہ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے دریافت کیا کہ یہ رقم کس نے بھیجی ہے؟ میں نے عرض کیا: سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓنے۔ سیدہؓنے کہا: میں نے رسول اللہﷺکو اپنی بیویوں کے حق میں فرماتے سنا ہے کہ میرے بعد صبر کی صفت سے متصف لوگ ہی تم پر شفقت و مہربانی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ عبدالرحمن بن عوفؓکو جنت کی سلسبیل سے سیراب فرمائے۔
حضرت عثمان غنی کی فضیلت کے حوالے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپؓ کو صدیق و فاروق کے بعد سب سے بلند مقام دیا کرتے تھے اس حوالے سے اہم حدیث درج ذیل ہے: صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ ہی میں جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے، پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریمﷺ کے عہد مبارک میں خدمت دین عظیم الشان فریضے کو انجام دیتے رہے۔اس کے بعد آپ سیدنا صدیق وفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ہمراہ بھی دین حنیف کی خدمت میں مسلسل مصروف رہے۔ حضرت عمرفاروقؓ کے بعد آپؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خلعت ِ خلافت عطا فرما د ی اور آپؓ نے اپنے عہد میں دین اسلام کی خدمت کا بھرپور انداز میں فریضہ انجام دیا۔ آپؓ کی خلافت کے آخری کچھ عرصے میں بلوائیوں اور باغیوں نے آپؓ کی ذات کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مسئلے میں نرم دلی اور رحمدلی کا مظاہرہ کیا اور اپنی ذات کے لیے کسی کو انتقام کا نشانہ نہ بنایا۔ رفتہ رفتہ یہ بغاوت زور پکڑتے ہوئے یہاں تک پہنچی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے گھر میں محصوری کی حالت میں تلاوتِ قرآن مجید کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہو گئے لیکن آپؓ نے اپنی ذات کے دفاع کے لیے کسی ایک مسلمان کا خون بھی مدینہ منورہ میں گرنے نہیں دیا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک تاریخی شخصیت ہیں اور آپؓ کی عظمت اورآپؓ کا کردار یقینا تاریخ انسانیت میں ایک مثالی کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم سب کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار وعمل سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنی زندگی کوخلفائے راشدین کی سیرت کے سانچے میں ڈالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔