انسانی معاشرے عرصۂ دراز سے قدرتی آفات کی لپیٹ میں ہیں۔ معاشروں میں کبھی وبائیں پھوٹتی ہیں تو کبھی انسانوں کو زلزلوں، طوفانوں اور سیلابوںکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح کئی مرتبہ انسانوں کو آتش فشانی سے بھی پالا پڑا۔ ان آفات کے نتیجے میں لاکھوں انسان دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ بہت سے لوگ ان آفات سے بچ نکلنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ طب، جغرافیہ اور ارضیات کے ماہرین ان قدرتی آفات کا اپنے اپنے انداز میں تجزیہ کرتے رہتے ہیں۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد اس حوالے سے بہت سی مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ انسانی معاشروں میں آنے والی مشکلات اور پریشانیوں کی بنیادی طور پر تین وجوہات ہوتی ہیں۔
1۔ مجرموں کے لیے عذاب کا کوڑا: کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دنیا میں بہت سی اقوام اور افراد کو اپنے گناہوں کی پاداش میں مشکلات کو برداشت کرنا پڑا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں قومِ نوح پر آنے والے سیلابِ عظیم کا ذکر کیا ہے جس کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے لوگ صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قومِ عاد پر آنے والی آندھیوں، قومِ ثمود پر آنے والی چنگھاڑ،قومِ سدوم پر برسنے والے پتھروں اور قومِ مدین کی چیخ کے ذریعے ہلاکت کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قومِ فرعون پر بھی طرح طرح کے عذابوں کو مسلط کیا۔ کبھی ان پر ٹڈیوں کا عذاب، کبھی جوؤں، کبھی مینڈکوںکا عذاب نازل ہوا تو کبھی طوفان آئے اور کبھی خون کی بارش ہوئی۔ جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کو ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا۔ فرعون ان تمام نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود سرکشی اور بغاوت پر آمادہ رہا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو غرقِ آب کر دیا۔ قارون کو اپنے سرمائے پر ناز تھا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو زمین کے اندر دھنسا دیا۔
2۔گناہگاروں کو جھنجھوڑنا: اللہ تبارک وتعالیٰ کلامِ حمید میں اس بات کو بھی واضح فرماتے ہیں کہ انسانوں کی زندگی میں آنے والی بہت سی تکالیف ان کے گناہوں کی وجہ سے ہوتی ہیں اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اُن کو جھنجھوڑ کر سیدھے راستے پر لگا دیا جائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ الم سجدہ کی آیت نمبر 21میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بلاشبہ ضرور ہم چکھائیں گے اُنہیں قریب ترین عذاب (کا مزہ) سب سے بڑے عذاب سے پہلے تاکہ وہ لوٹ آئیں (ہماری طرف)‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30میں ارشا دفرماتے ہیں کہ انسانوں کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ان کے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے اور اللہ تبار ک وتعالیٰ بہت سے گناہوں پر گرفت نہیں فرماتے۔ ارشاد ہوا: ''اور جو (بھی) تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ درگزر کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے‘‘۔
جب انسانی معاشرے اجتماعی حیثیت سے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ اُن کے گناہوں کی وجہ سے خشکیوں اور تریوں میں فساد کو ظاہر کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر41 میں ارشاد فرماتے ہیں:''فساد ظاہر ہو گیا خشکی اور سمندر میں اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے اُنہیں بعض (اس کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں(یعنی باز آجائیں)‘‘۔
ان اجتماعی اور انفرادی مشکلات سے نکلنے کے لیے انسانوں کو مختلف طرح کی تدابیر کو اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضمن میں بعض اہم تدابیر درج ذیل ہیں:
الف۔ دُعا: دعا مومن ومسلمان کا ہتھیار ہے۔ جب انسان مصائب اور مشکلات میں مبتلا ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ سے نجات کے لیے دُعا مانگتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی مشکلات کو دور فرمادیتے ہیں۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو(بتا دیں کہ) بے شک میں قریب ہوں‘ میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو ‘ جب وہ مجھے پکارے۔ پس چاہیے کہ (سب لوگ) حکم مانیں میرا اور چاہیے کہ وہ ایمان لائیں مجھ پر تاکہ وہ راہِ راست پالیں‘‘۔
اس ضمن میں صحیح بخاری کی ایک حدیث شریف سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مصیبت میں کی گئی دعا کو کس انداز میں قبول کرتے ہیں۔ صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی جا رہے تھے کہ راستے میں بارش نے انہیں آ لیا اور انہوں نے مڑ کر ایک پہاڑی کی غار میں پناہ لی۔ اس کے بعد ان کے غار کے منہ پر پہاڑ کی ایک چٹان گری اور اس کا دہانہ بند ہو گیا۔ہر ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم نے جو نیک کام کیے ہیں ان میں سے ایسے کام کو دھیان میں لاؤ جو تم نے خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کیا ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کے ذریعے‘ اس کے وسیلے سے دعا کرو‘ ممکن ہے کہ وہ غار کو کھول دے اور ہم اس تکلیف سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے نیک اعمال کا ذکر کرنے کے بعد خلوصِ دل سے دُعا مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے غار کے دہانے سے پتھر ہٹا دیا اور ان کا راستہ کھول دیا۔
ب۔ توبہ واستغفار: کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تو بہ واستغفار کرنے والے انسانوں کی خطاؤں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ زمر کی آیت نمبر 53میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آپ کہہ دیجئے اے میرے بندو! جنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر نا اُمید نہ ہو جاؤ اللہ کی رحمت سے‘ بے شک اللہ بخش دیتا ہے سب گناہوں کو‘ بے شک وہی بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے‘‘۔ جب انسانوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی زندگی میں آنے والی تکالیف کو بھی دور فرما دیتے ہیں۔
ج۔ تقویٰ: جب انسان تقویٰ کو اختیار کرتا ہے تو اللہ تبار ک وتعالیٰ اس کے لیے تنگیوں سے نکلنے کا راستہ بنا دیتے ہیں۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے (مشکلات سے ) نکلنے کا کوئی راستہ‘‘۔
د۔انفاق فی سبیل للہ: قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں مال کو خرچ کرنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے خوف اور غم کو دور فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274میں ارشاد فرماتے ہیں: ''وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال کو رات اور دن کو، چھپا کر اور علانیہ طور پر تو ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اور نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔
3۔نیکو کاروں کے لیے آزمائش: کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسانوں کی زندگی میں آنے والی تکالیف اور مشکلات نیکوکاروں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155میں اس بات کا اعلان فرماتے ہیں : ''اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے)‘‘۔
اسی آیت کے اگلے حصے اور بعد میں آنے والی دو آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس بات کا ذکر فرماتے ہیں کہ جو لوگ صبرکرتے ہیں ان کے لیے بشارت ہے۔ '' اور خوشخبری دے دیں صبرکرنے والوں کو۔ وہ لوگ کہ جب پہنچتی ہے اُنہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔وہی لوگ ہیں کہ ان پر عنایات ہیں ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے والے لوگ کامیاب وکامران ہو جاتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ ان آزمائشوں کے نتیجے میں ان کے درجات کو بلند فرما دیتے ہیں۔ دنیا دارالعمل ہے؛ چنانچہ اس میں انسانوں کو اونچ‘ نیچ کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اعلیٰ رتبے والے اور کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبتوں اور اس کے کرم کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ مذکورہ بالا نکات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قدرتی آفات مجرموں کے لیے عذاب کا کوڑا، گناہگاروں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہے جبکہ نیکوکاروں کے لیے یہ اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں اور ان سے نکلنے کے لیے انسانوں کو ان تدابیرِ شریعہ کو اختیا رکرنا چاہیے جن پر عمل پیرا ہو کر انسان کی زندگی کے غم اور دُکھ دور ہو سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو قدرتی آفات کے اسباب کو سمجھ کر ان کا تدارک کرنے کی توفیق دے، آمین !