مولانا ثناء اللہ زاہدی صاحب حدیث و سنت کے ایک عظیم استاد ہیں اور خدمتِ حدیث کے حوالے سے ملک کے طول وعرض میں آپ کی حیثیت مسلم ہے۔ آپ سے استفادہ کرنے والے لوگ کثیر تعداد میں ملک بھرمیں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ صادق آباد میںایک عظیم الشان ادارے کے مہتمم ہیں۔آپ کے تحقیقی اسلوب،تحریروں اور تقریروں کی وجہ سے اہلِ علم آپ کے علمی استدلال سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ شیخ ثناء اللہ زاہدی سے میرا دیرینہ قلبی تعلق ہے۔ گو ہماری ملاقاتیں زیادہ نہیں لیکن جب بھی ہم ملتے ہیں بہت ہی چاہت اور محبت کے ساتھ ملتے ہیں اورہر ملاقات دینی تعلق کو پہلے سے زیادہ پختہ کرتی چلی جاتی ہے۔ مولانا ثناء اللہ زاہدی کو اتوار کے روز ایک بہت بڑے صدمے کاسامنا کرنا پڑا۔ آپ کا بڑا بیٹا چالیس برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ آپ کا فرزند صالح اور متقی انسان تھا اور علم ِدین کے ساتھ اس کی والہانہ وابستگی تھی۔ مرحوم کے لواحقین میں صحیح بخاری کی تعلیم حاصل کرنے والے دو بیٹے بھی شامل ہیں۔ اس صدمے کی اطلاع ملنے پر میں نے مولانا سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تو مولانا نے کمال استقامت اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا پر ہم بھی راضی ہیں۔ مولانا کی گفتگو سے ایک دفعہ پھر یہ یقین حاصل ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشوں پر صبر کرنا یقینا مردِ مومن کا شیوہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیات 155 سے 157 میں ارشاد فرمایا ہے: ''اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ کہ جب پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں: بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں (کہ)ان پر عنایات ہیں ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔
مولانا کے صبر اور استقامت کو دیکھ کرمجھ پر رقت کی کیفیت طاری ہو گئی اور میں اس بات پر غور کرنے لگا کہ دنیا میں بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کے باوجود شکوہ اور شکایت کرتے رہتے ہیں جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بہت سے بندے ایسے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی کسی بھی آزمائش کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ مولانا کے فرزند کی رحلت کی وجہ سے میرے ذہن کی سکرین پر بہت سے ایسے لوگوں کی رخصتی کے مناظر چلنا شروع ہو گئے جنہوں نے دنیا میں ایک مثالی زندگی گزاری تھی۔
کچھ عرصہ قبل دنیا سے صوفی عیش رخصت ہو گئے۔ صوفی عیش صاحب نے بھی بڑی باکمال اور خوبصورت زندگی گزاری۔ ساری زندگی للہیت، تقویٰ، انابت الی اللہ کی تصویر بنے رہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور سربسجود رہنا،اس کی بارگاہ میں آکر مناجات کرنا، ا س کی بارگاہ میں راتوں کا قیام کرنا مولانا کے امتیازی اوصاف تھے۔ مولانا کی سادگی ان تمام باتوں پر ایک اضافے کی حیثیت رکھتی تھی۔ صوفی عیش صاحب سادہ غذا کھاتے اور سادہ لباس پہنتے۔ صوفی صاحب کے ساتھ بھی میری ملاقاتیں گاہے گاہے ہوتی رہیں اور جب بھی آپ لاہور تشریف لاتے‘ مرکزِ قرآن وسنہ میں بھی جلوہ افروز ہوتے۔ صوفی صاحب کی مجلس ہر اعتبارسے ایک روحانی محفل ہوا کرتی۔ یقینا جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے بندے ہوتے ہیں ان کی مجالس اور صحبت انسان کو آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ دنیا میں جو بھی آیا ہے ایک دن اس کو دنیا سے جانا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآنِ مجیدکے مختلف مقامات پر واضح فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ رحمان کی آیات 26 تا 27میں ارشاد فرماتے ہیں:''ہر ایک جو اس (زمین) پر ہے فنا ہونے والا ہے۔ اور باقی رہے گا آپ کے رب کا چہرہ (جو) صاحبِ جلال اور عزت والا ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قصص کی آیت نمبر 88میں ارشاد فرمایا: ''ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے مگر اُس کا چہرہ (یعنی ذات)‘‘۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے دنیا میں نہ تو اللہ تبارک وتعالیٰ سے بغاوت کرنے والے لوگ باقی رہے اور نہ ہی اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے اپنی زندگی کو وقف کرنے والے باقی رہے۔ ہر شخص ایک مخصوص مدت تک زمین پر قیام کرنے کے بعد دنیا سے رخصت ہو گیا۔ ہر شخص نے اپنے خاندان، اعزہ واقارب اور گردوپیش میں اُٹھتے ہوئے جنازوں کو دیکھا ہے لیکن اس کے باوجود نجانے انسان کیوں اس بات کو فراموش کر دیتا ہے کہ جلد یابدیر اسے بھی اپنے خالقِ حقیقی کے پاس جانا ہو گا۔
دنیا کی بے ثباتی انسان کو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی کبریائی کا احساس دلاتی ہے۔ اگر انسان اس حقیقت کو بھانپ لے تو انسان کی سوچ وفکر اور عمل کے سارے زاویے درست ہو سکتے ہیں۔ لیکن انسانوں کی بہت بڑی تعداد نجانے قبروں اور اُٹھتے ہوئے جنازوں کو دیکھ کر بھی اپنے آپ کو لافانی سمجھنے کے خبط میں کیوں مبتلا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کو دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری بھرپور انداز سے کرنی چاہیے اس لیے کہ حقیقی کامیابی تو صرف اسی شخص کو حاصل ہو گی جو آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 185میں اس حقیقت کو بیان فرما دیا: ''ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا تمہارے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن پس جو بچا لیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا‘‘۔
انسان کی یہ بہت بڑی کوتاہ بینی ہے کہ وہ اس فانی دنیا کی فنا اور بے ثباتی کو دیکھنے کے باوجود بھی اپنی تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو اس فانی دنیا کی بہتری اور عروج کے لیے استعمال کرتا ہے اور آخرت‘ جو باقی رہنے والی ہے‘ کے لیے اپنے آپ کو آمادہ وتیار نہیں کرتا۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو ارکانِ اسلام کی بجاآوری کے لیے بھی تیار نہیں اور کبیرہ گناہوں سے دوری اختیار کرنے کے لیے بھی اپنے آپ کو آمادہ نہیں کرتے۔ جو لو گ زندگی کی حقیقت کو سمجھ جاتے ہیں وہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے ملاقات کی تیاری کے لیے اپنے آپ کو تیار ضرور کر لیتے ہیں۔ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ترکِ دنیا اور دنیا سے بے رغبتی کا درس دینے کے بجائے دنیا میں رہتے ہوئے اُمور ِدنیا کی انجام دہی کی اجازت بھی دی اور آخرت کو سنوارنے کے مواقع بھی عطا فرما دیے۔ بہترین انسان وہی ہے جو دنیا اور آخرت میں توازن پیدا کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی توازن کے حصول کے لیے کی جانے والی دعا کو قرآنِ مجید میں نہایت احسن انداز میں ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 201میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے ہمارے رب ہمیں دے دنیا میں بھلائی اور آخرت میں (بھی) بھلائی اور ہمیں بچا لے آگ کے عذاب سے‘‘۔ یہ دعا اس قدر اہم ہے کہ اس دعا کو بیت اللہ کے طواف کرتے ہوئے، رُکن یمانی اور حجرِاسود کے مابین پڑھا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ دنیا کو حرفِ آخر سمجھ کر آخرت کو فراموش کر دیتے ہیں یقینا وہ لوگ خسارے میں مبتلا ہیں۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نازعات کی آیات 37 تا 39 میں ارشاد فرمایا: ''پس (ناکام) رہا جس نے سرکشی کی اور اس نے ترجیح دی دنیوی زندگی کو تو بے شک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانا ہے‘‘۔ اس کے مدمقابل وہ لوگ جو اپنے نفس کو دبا کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے طلبگار ہو جاتے ہیں اُنہیں کامیاب اور کامران قرار دیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نازعات کی آیات 40 تا 41 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور (کامیاب) رہا وہ جو ڈر گیا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکا (اپنے) نفس کو (بُری) خواہش سے تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ کہف میں بھی دو طرح کے گروہوں کا ذکر کیا؛ ایک وہ گروہ جو فقط دنیا ہی کی زندگی میں گم رہا اور اسی کو اپنے لیے حرفِ آخر سمجھتا رہا‘ ایسے لوگوں کو ناکام اور نامراد قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ کہف کی آیات 103 تا 104ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے کیا ہم خبر دیں تمہیں زیادہ خسارہ پانے والوں کی‘ اعمال کے اعتبار سے‘ (یہ) وہ لوگ (ہیں کہ) ضائع ہو گئی ان کی کوشش دنیوی زندگی میں حالانکہ وہ گمان کرتے تھے کہ بے شک وہ اچھے کام کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے مدمقابل ان لوگوں کو کامیاب قرار دیا گیا جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کے راستے کو اختیار کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ کہف کی آیات 107 تا 108میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے فردوس کے باغات بطور مہمانی ہوں گے۔ (وہ) ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں، نہیں وہ چاہیں گے یہاں سے جگہ بدلنا‘‘۔
مذکورہ بالا آیات اور قرآنِ مجید کے دیگر بہت سے مقامات پر غوروفکر کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کو حرفِ آخر سمجھ کر اپنے پروردگار سے ملاقات کو فراموش کر چکے ہیں یقینا ایسے لوگ شقاوت کے راستے پر ہیں۔ اور وہ لوگ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھنے والے ہیں اور اس زندگی میں رہتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ سے ملاقات کی تیاری کرتے ہیں یقینا وہ لوگ کامیاب وکامران ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے اور اپنے سے ملاقات کے لیے آمادہ وتیار ہونے کی توفیق دے‘ آمین !