اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا منتخب کردہ دین ہے۔ اس حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3میں یوں بیان فرماتے ہیں: ''آج (کے دن ) میں نے مکمل کر دیا ہے تمہارے لیے تمہارا دین اور میں نے پوری کر دی ہے تم پر اپنی نعمت اور میں نے پسند کیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین‘‘۔ اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر 19میں ارشاد ہوا: '' بے شک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے‘‘۔ قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو بطور دین پسند کرے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے دین کو قبول نہیں فرمائیں گے۔ چنانچہ سورہ آل عمران ہی کی آیت نمبر 85میں ارشاد ہوا: ''اور جو تلاش کرے اسلام کے سوا (کوئی اور) دین تو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اس سے اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والے لوگوں میں سے ہو گا‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر208 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! داخل ہو جاؤ اسلام میں پورے پورے اور مت پیروی کرو شیطان کے نقشِ قدم کی‘ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
اسلام کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مکمل ضابطۂ حیات ہے اور عقائد، عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات میں بھی انسانوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے۔ معاملات میں جہاں زندگی کے دیگر اہم شعبے شامل ہیں وہیں سیاست کے حوالے سے بھی اسلام کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اچھے حکمرانوں کے اعلیٰ اوصاف کا ذکر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حکمرانوں کی ذـمہ داریوں کا بھی ذکر کیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے عہدِ مبارک میں قیام توحید کے لیے بے پناہ جستجو کی، حضرت طالوت نے فتنوں کا قلع قمع کرنے کے لیے اپنے وسائل کو استعمال کیا، حضرت یوسف علیہ السلام نے غلے کی تدوین کے لیے اپنی تنظیمی اور اقتصادی مہارت کو استعمال کیا، حضرت ذوالقرنین نے یاجوج وماجوج کے فتنے کو کچلنے کے لیے اپنی طاقتوں کو استعمال کیا۔ ان تمام واقعات سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ حکمرانانِ وقت کو کس انداز میں حکومت کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں حکمرانوں کی بعض اہم ذمہ داریوں کو علیحدہ سے نہایت احسن انداز میں واضح کیا۔ چنانچہ سورہ حج کی آیت نمبر 41میں ارشاد ہوا: ''وہ لوگ جو‘ اگر ہم اقتدار دیں انہیں زمین میں (تو) وہ نماز قائم کریں اور ادا کریں زکوٰۃ اور حکم دیں نیکی کا اور وہ روکیں برائی سے اور اللہ ہی کے اختیار میں ہے تمام اُمور کا انجام‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جن لوگوں کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ زمین پر اقتدار دیں ان کو اللہ کی توحید کے قیام کے بعد نماز کے قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی، مرکزی بیت المال کی تنظیم اور معروف کاموں کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ منکرات سے روکنا چاہیے۔ یہ آیت حکمرانوں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک فیصلہ کن آیت کی حیثیت رکھتی ہے۔ نبی کریمﷺ نے بطور والیٔ حجاز خود بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت کے ساتھ ساتھ نمازوں کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ معروف کاموں کا حکم دیا اور منکرات کو روکنے کے لیے حدود وتعزیرات کے نظام کو قائم کیا۔ حدودوتعزیرات کے قیام کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل سے معاشرے سے مکمل طور پر جرائم کاخاتمہ ہو گیا۔ زنا، ڈکیتی، چوری، قتل و غارت گری کا خاتمہ کچھ اس انداز میں ہواکہ معاشرہ امن اور سکون کا گہوارہ بن گیا۔ بعد ازاں خلفائے راشدینؓ نے بھی انہی اصولوں کے تحت ایک مثالی حکومت کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نازل کردہ قوانین کی برکت سے اہلِ ایمان اور اہلِ اسلام مدتِ مدید تک فیض یاب ہوتے رہے۔ ایک عرصے تک مسلمانوں نے انہی اصولوں کے تحت دنیا پر حکومت کی۔ بعد ازاں جب ہم دین سے دور ہوئے اور مادہ پرستی اور حسن پرستی کا شکار ہوئے تو بتدریج زوال پذیر ہوتے چلے گئے۔
خلافت کے سقوط کے بعد جب قومی ریاستیں اُبھریں تو دنیا میں مختلف طرح کے نظام منظر عام پر آئے۔ کہیں پر بادشاہت کا نظام سامنے آیاتو کہیں پر آمرانہ حکومت سامنے آئی۔ اسی طرح جمہوری نظام نے بھی دنیا میں بہت سے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مغربی جمہوری تصور کے مطابق پارلیمان کے ارکان کو مکمل طور پر قانون سازی کا اختیار حاصل تھا اور وہ اس حوالے سے بائبل کی تعلیمات کے بھی پابند نہ تھے۔ اسلامی ممالک میں جب جمہوریت نظام داخل ہوا تو مسلمان مفکرین نے جمہوریت کو کتاب وسنت کا پابند قرار دیا اور پارلیمان کی حدود کو متعین کیا کہ وہ عصری اور انتظامی اُمور کے حوالے سے قانون سازی کر سکتی ہیں مگر جہاں بھی کتاب وسنت کی تعلیمات واضح ہوں گی تو اس مقام پر قانون سازی کی اجازت نہیں ہو گی اور وہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب اور نبی کریمﷺ کے فرامین مبارکہ ہی کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گی۔
پاکستان کا قیام ایک مثالی اسلامی جمہوری ریاست کے طور پر ہوا تھا۔ بدنصیبی سے پاکستان کے قیام کے باوجود بھی صحیح معنوں میں اسلام کی عملداری نہ ہو سکی۔ گو کہ یہاں پر شعائر اسلام کے حوالے سے مسلمان اپنے اُمور کے انجام دہی کے لیے آزاد ہیں لیکن ابھی تک ملک میں سودی بینکاری نظام موجود ہے، قحبہ گری کے اڈے اور منشیات فروشی کا نظام بھی خفیہ اور اعلانیہ طور پر جاری وساری ہے۔ منکرات کے خاتمے کے لیے اہلِ دین ودانش اپنی آوازیں بلند کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بالعموم اپنے منشور میں رفاہِ عامہ کے اُمور کا ذکر تو کرتی ہیں لیکن دین کے قیام کے حوالے سے اُن کے منشور میں کوئی واضح روڈ میپ نظر نہیں آتا۔ جس کا نتیجہ کچھ یوں نکلتا ہے کہ مذہبی جماعتیں اور سیاسی جماعتیں الگ الگ دائرۂ کار میں کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں کئی مرتبہ اس بات کا بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے ''مذہب کارڈ‘‘ کا استعمال کرتی ہیں لیکن عملی طور پر اسلام کی بالا دستی کے لیے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو استعمال نہیں کرتیں۔
پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری ریاست بنانے کے لیے دینی جماعتوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن یہ افسوسناک امر ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد دینی جماعتوں کے منشور کی طرف التفات کرنے کے بجائے بڑی سیاسی جماعتوں کے گرد ہی منڈلاتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے ہمارے ملک میں دین اور مذہب کو کئی مرتبہ بطور کارڈ تو استعمال کیا جاتا ہے مگر اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت اور نبی کریمﷺ کے عطاکردہ نظام کے قیام کے لیے مخلصانہ جدوجہد نہیں کی جاتی جس کے نتیجے میں ختم نبوت اور ناموسِ رسالت جیسے حساس قوانین میں تبدیلیوں کے حوالے سے سازشیں منظر عام پر آتی رہتی ہیں اور کبھی اخلاق باختگی کو عام کرنے کے لیے نت نئے قوانین بنانے کی جستجو کی جاتی ہے جن کو بالعموم مذہبی جماعتیں اپنے اثرورسوخ کے ذریعے زائل کر دیتی ہیں لیکن حقیقی معنوں میں دین کے مکمل قیام و نفاذ کے لیے مذہبی جماعتوں کو ایک پیج پر آکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر دین اور سیاست کو یکجا کر دیا جائے تو یقینا مذہب کی افادیت کی وجہ سے پوری کی پوری پاکستانی قوم متحد ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں اور عنایات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔
پاکستان ایک کثیرالقومی ریاست ہے اور مذہب کی قوت ان کے جڑاؤ کا کام بہترین انداز میں انجام دے سکتی ہے۔ اس لیے کہ سندھی، بلوچ، پختون اور پنجابیوں کے درمیان جو قدر مشترک ہے وہ مذہب ہی کی قدر ہے۔ اس وجہ سے ہمیں مذہب کی افادیت کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور وہ عناصر جو ریاست سے مذہب کو علیحدہ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلام کا قلعہ بنایا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی معاشرے میں تبدیل فرمائے۔
یہاں پر اس بات کو سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ بہت سے لوگ اس شبہے کاشکار ہیں شاید مذہبی جماعتوں کے غالب آنے کی وجہ سے ملک میں فرقہ وارانہ یا مذہبی منافرت پھیلے گی۔ یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے قوانین کے نفاذ کی وجہ سے تمام مذاہب اور فرقوں کے لوگ یہاں رہتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں اور فیوض و برکات سے مستفید ہو سکیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو مل جل کر اسلام کے غلبے کے لیے کام کرنے کی توفیق دے، آمین !