اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد مختلف طرح کی جاندار مخلوقات کو پیدا کیا۔ بہت سی مخلوقات علم،شعور اور قوتِ ابلاغ سے محروم رہیں جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنات، انسانوں اور فرشتوں کو قوتِ ابلاغ اور شعور سے سرفراز فرمایا۔ فرشتے معصوم ہیں اور ان میں نفس امارہ نہیں ہے۔ وہ ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادات اور تسبیحات میں مشغول رہ کر اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہتے ہیں۔ جنات اور انسانوں میں نفس امارہ موجود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو دنیا میں امتحان کی غرض سے بھیجا اور اس امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے آخرت کی سر بلندیوں کو تیار کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جن وانس کی ہدایت کے لیے ہر زمانے میں انبیاء اور رسل علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے رسول اور انبیاء کرام مختلف زمانوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ ایک نبی کے جانے کے بعد دوسرا نبی اس کی جگہ کو لیتا رہا یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے امامِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمیع انسانیت کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے مبعوث فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ سبا کی آیت نمبر 28 میں ارشاد فرماتے ہیں: '' نہیں ہم نے بھیجا آپ کو مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا (بنا کر) اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر 158 میں ارشاد فرمایا: ''کہہ دیجئے اے لوگو! بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف‘‘۔
مذکورہ بالا آیات سے اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جمیع کائنات کے لیے رہنما و ہادی بنا کر بھیجا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی ذات کو جہاں پر بشارت دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا وہیں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرما کر کائنات کے لوگوں پر اپنی رحمت کا نزول بھی فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء کی آیت نمبر 107میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر رحمت بنا کر سب جہانوں کے لیے‘‘۔
آپﷺ چونکہ جمیع کائنات کے لیے ہادی، رہنما اور مقتدا بنا کر بھیجے گئے اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذاتِ اقدس میں گونا گوں قسم کی صفات کو پیدا فرما دیا۔ عدالت، ذہانت، فطانت، جرأت، شجاعت، سخاوت، ایثار، قربانی، خیر خواہی، ہمددری‘ غرض اللہ تبارک وتعالیٰ نے سبھی اعلیٰ صفات آپﷺ کی ذات میں کچھ اس انداز میں ودیعت کی تھیں کہ نہ تو آپﷺ سے پہلے کوئی اس قسم کے اوصافِ حمیدہ سے متصف ہوا اور نہ ہی آپﷺ کے بعد کائنات میں کوئی بھی شخص اس انداز میں تمام خوبیوں سے اس طرح متصف ہو سکتا ہے جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبیِ مہرباں حضرت محمد مصطفیﷺ کو متصف فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی بعثت کو ایک احسان کے طور پر قرآنِ مجید میں ذکر فرمایا اور سورہ آل عمران کی آیت نمبر 164میں ارشاد ہوا: ''پس تحقیق احسان کیا ہے اللہ نے مومنوں پر جب بھیجا اُن میں ایک رسول اُنہی میں سے (جو) پڑھتا ہے اُن پر اُس کی آیات اور اُنہیں پاک کرتا ہے (شرک سے) اور تعلیم دیتا ہے اُنہیں کتاب وحکمت کی اور اگرچہ تھے وہ اس سے قبل یقینا واضح گمراہی میں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے چونکہ آپﷺ کی بعثت کو بنی نوع آدم کے لیے بطور احسان ذکر کیا اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذات کو اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار اور اوصاف سے بھی متصف فرما دیا۔ سورہ قلم کی آیت نمبر 4 میں ارشاد ہوا: ''اور بلاشبہ یقینا آپ خلقِ عظیم پر (فائز) ہیں‘‘۔ بنی نوع انسان میں سے کسی بھی شخصیت میں اخلاقی اعتبار سے رہنمائی کے وہ لوازمات نظر نہیں آتے جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس میں ودیعت فرما دیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آنے والی انسانیت کے لیے آپﷺ کے اسوہ کو اسوہ ٔحسنہ بنا دیا اور سورہ احزاب کی آیت نمبر 21 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امر کا اعلان بھی فرما دیا : ''بلاشبہ یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات)میں بہترین نمونہ ہے (ہر اس شخص) کے لیے جو اللہ (سے ملاقات) اور یوم آخرت کی اُمید رکھتا ہو‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی اطاعت کرنے والوں پر اس بات کو بھی واضح فرما دیا کہ جو آپﷺ کی اطاعت کرتا ہے درحقیقت آپﷺ کی اطاعت نہیں کرتا بلکہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے؛ چنانچہ سورہ نساء کی آیت نمبر 80میں ارشاد ہوا: ''جو اطاعت کرے گا اللہ کے رسول کی تو درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ کی اور جو منہ موڑ لے تو نہیں ہم نے بھیجا آپ کو ان پر نگہبان بنا کر‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی اتباع کرنے والوں اور آپﷺ کے نقش قدم پر چلنے والوں کو کلام حمید میں اپنا محبوب قرار دیا اور سورہ آل عمران کی آیت نمبر31 میں اس امر کا اعلان فرمایا: ''آپ کہہ دیں اگر ہو تم محبت کرتے اللہ سے تو میری پیروی کرو‘ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا‘‘۔ اس کے مدمقابل جو لوگ آپﷺ کے اسوۂ کامل اور فرامینِ مبارکہ سے انحراف کرتے ہیں ان کے بارے میں اس امر کو واضح فرما دیا کہ انہیں دنیا میں فتنے اور آخرت میں دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 63 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں اس (رسول) کے حکم کی کہ پہنچے انہیں کوئی آزمائش (دنیا میں) یا پہنچے انہیں دردناک عذاب (آخرت میں)‘‘۔
جہاں آپﷺ کی اتباع کی اہمیت کو قرآنِ مجید میں بہت زیادہ اجاگر کیا گیا وہیں اہلِ ایمان سے اس بات کا بھی تقاضا کیا گیا کہ ان کو نبی کریمﷺ سے غیر معمولی محبت رکھنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 24 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (کہ) تم نے کمایا ہے اُس کو اور (وہ) تجارت (کہ) تم ڈرتے ہو اُس کے مندا پڑ جانے سے اور (وہ) گھر (کہ) تم پسند کرتے ہو اُنہیں زیادہ محبوب ہیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے‘ تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ لے آئے اللہ اپنے حکم کو، اور اللہ نہیں ہدایت دیتا نافرمانی کرنے والے لوگوں کو‘‘۔
نبی کریمﷺ سے غیر معمولی محبت کا ذکر مختلف احادیث مبارکہ میں بھی آیا ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اہم حدیث حضرت انس بن مالک اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہلِ ایمان کو رسول اللہﷺ کی اتباع کے ساتھ ساتھ آپﷺ سے غیر معمولی اور والہانہ محبت بھی کرنی چاہیے۔ ایمان کی تکمیل کے لیے رسول اللہﷺ کی اتباع اورآپﷺ کی محبت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ آج اُمت مسلمہ کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ اُمت کے لوگ بڑی تعداد میں رسول اللہﷺ سے محبت کا دعویٰ کرنے کے باوجود صحیح معنوں میں آپﷺ کی اتباع کے راستے پر گامزن نہیں ہیں‘ اور معاشرے میں بعض ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو آپﷺ کی اطاعت کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ان میں آپﷺ کی ذات اور عظمت کے حوالے سے محبت اور حمیت نہیں پائی جاتی۔ جبکہ اہلِ ایمان کو ان دونوں اوصاف کو اپنی ذات میں جمع کرنا ہو گا۔ حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہﷺ سے بیک وقت محبت بھی کیا کرتے تھے اور آپﷺ کی غیر مشروط اتباع بھی کیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ کی اتباع اور محبت کی وجہ ہی سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ اعزاز حاصل ہو اکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں پوری دنیا پر غالب فرما دیا۔ آج کا مسلمان دنیا میں زوال پذیر نظر آتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے اس پر جو اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ ان کو کماحقہٗ نبھا نے سے قاصر نظر آتا ہے۔ بلادِ اسلامیہ میں رہنے والے مسلمان اتباع کے اعتبار سے کمزور نظر آتے ہیں اور غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمان رسول اللہﷺ کی حرمت، حمیت اور غیرت کے حوالے سے تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔ جب تک ہم آپﷺ کی اطاعت اور محبت کو اپنے دل میں یکجا نہیں کریں گے اس وقت تک دنیا اور آخرت میں سربلند نہیں ہو سکتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں آپﷺ کی اطاعت اور آپﷺ سے والہانہ محبت کی توفیق عطا فرما دے، آمین !