ایک اچھاانسان اپنے محسنین کے احسان کے بدلے کو چکانے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں بھی ہمیں احسان کا بدلہ چکانے کی تلقین کی ہے۔ سورہ رحمن کی آیت نمبر60 میں ارشاد ہوا: ''نہیں ہے احسان کا بدلہ مگر احسان ہی‘‘۔ والدین چونکہ انسان کے بہت بڑے ـمحسن ہوتے ہیں اور اس کی کفالت اور تربیت میں نمایاں ترین کردار ادا کرتے ہیں‘ اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے متعدد مقامات پر والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیات 23 تا 24 میں ارشاد ہوا: ''اور فیصلہ کر دیا آپ کے رب نے کہ نہ تم عبادت کرو مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا (حکم دیا) اگر واقعی وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو دونوں (یا)ان دونوں میں سے ایک‘ تو مت کہہ ان دونوں سے اُف بھی اور مت ڈانٹ ان دونوں کو اور کہہ ان دونوں سے نرم بات۔ اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو رحمدلی سے اور کہہ (اے میرے ) رب! رحم فرما ان دونوں پر جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے بچپن میں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں والدین کے ساتھ ساتھ دیگر رشتہ داروں، مساکین، یتامیٰ کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 83 میں ارشاد فرمایا : ''اور جب ہم نے لیا بنی اسرائیل سے پختہ عہد (کہ) نہیں تم عبادت کرو گے مگر اللہ کی اور ولدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو گے اور قریبی رشتہ داروں اور یتیموں اور مساکین سے (بھی) اور لوگوں سے اچھی بات کہنا‘‘۔ اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد ہوا: ''اور تم عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی اور نہ تم شریک بناؤ اُس کے ساتھ کسی کو‘ اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو اور قرابت والوں اور یتیموں کے ساتھ اور مسکینوں اور قرابت والے (رشتے دار) ہمسائے اور اجنبی ہمسائے اور پہلو کے ساتھی اور مسافر اور جس کے مالک بنے ہیں تمہارے داہنے ہاتھ (یعنی تمہارے غلام، ان سب کے ساتھ حسنِ سلوک کرو) بے شک اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا جو ہو مغرور (اور) فخر کرنے والا‘‘۔
ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں ہر قرابت دار ‘تعلق دار کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی زندگی پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ روئے زمین پر جس شخصیت کے احسانات بنی نوع انسان پر سب سے زیادہ ہیں وہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔
آپﷺ کی تعلیمات کی وجہ سے انسانیت کو توحید کا شعور ہوا اور لوگوں نے شرک کے راستوں سے قطع تعلقی اختیار کی۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات کی وجہ سے لوگ حلال راستوں سے آگاہ ہوئے اور حرام اور منکرات کی حقیقت ان پر واضح ہوئی۔ نبی کریمﷺ نے لوگوں کو طیب چیزوں سے آگاہ کیا اور خبیث چیزوں کی نشاندہی کی اور ان پر سے ان بوجھوں کو اُٹھا لیا جن کے نیچے انسانیت دبی ہوئی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 157میں ارشا دفرماتے ہیں: ''اور وہ حلال کرتا ہے اُن کے لیے پاکیزہ چیزیں اور حرام کرتا ہے اُن پر ناپاک چیزیں اور دور کرتا ہے اُن سے اُن کا بوجھ اور (وہ) طوق جو اُن پر تھے‘‘۔
نبی کریمﷺ کے اِن احسانات کی وجہ سے ہم پر بعض اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ ہم آپﷺ کے عظیم احسانات کو پہنچانتے ہوئے اُن حقوق کی ادائی کی کوشش کریں جو بحیثیت اُمتی ہم سب کے ذمہ واجب الادا ہیں۔ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے آپﷺ کے اُمتیوں پر جو اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:۔
1۔ آپﷺ کی عظمت کا اعتراف: نبی کریمﷺ کی عظمت کا اعتراف ہر مسلمان کو سچے دل سے کرنا چاہیے اور اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ رسولوں پر یکساں ایمان لانا چاہیے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 285 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''نہیں ہم فرق کرتے کسی ایک کے درمیان اس کے رسولوں میں سے‘‘۔ تاہم قرآنِ مجیدکے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض رسولوں اور پیغمبروں کو دیگر پر فضیلت عطا فرمائی ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر253 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یہ سب رسول‘ ہم نے فضیلت دی ہے ان میں سے بعض کو بعض پر۔ان میں سے (کوئی ایسا ہے) جس سے ہم کلام ہوا اللہ اور بلند کر دیا ان میں سے بعض کے درجا ت کو‘‘۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اولوالعزم رسولوں کا مقام دیگر رسل کے مقابلے میں اعلیٰ ہے جبکہ نبی کریمﷺ کا مقام جمیع انبیاء کرام علیہم السلام میں سے سب سے اعلیٰ ہے۔ آپﷺ کی فضیلت کا ادارک کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو بھی اپنے دل میں جگہ دینی چاہیے کہ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبوت اور رسالت کو تمام فرما دیا اور آپﷺ کے بعد کسی نئے نبی کی آنے کی قطعاً کوئی گنجائش باقی نہیں رہی؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 40میں ارشاد فرماتے ہیں: ''نہیں ہیں محمد (ﷺ) باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے اور لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی ) ہیں‘‘۔
2۔ غیر مشروط اطاعت: نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے ہم پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ہم آپﷺ کی غیر مشروط اطاعت کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 80 میں ایک اہم بات کوواضح فرما دیا۔ ارشاد ہوا: ''جو اطاعت کرے گا اللہ کے رسول کی تو درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ تعالیٰ کی‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی اتباع کو بہت بلند عمل قرار دیتے ہوئے آپﷺ کی اتباع کرنے والوں کو اپنا محبوب بنانے کا اعلان فرمایا ہے۔ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 31میں ارشاد ہوا: ''آپ کہہ دیں اگر ہو تم محبت کرتے اللہ کی تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور وہ معاف کر دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے‘‘۔
3۔ والہانہ محبت : نبی کریمﷺ کے ساتھ والہانہ محبت کرنا ہم سب پر لازم ہے اور اللہ، رسول اور جہاد فی سبیل اللہ پر کسی دوسری محبت کو فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 24میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے اگر ہیں تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (کہ) تم نے کمایا ہے اُس کو اور (وہ) تجارت (کہ) تم ڈرتے ہو اُس کے مندا پڑ جانے سے اور (وہ) گھر (کہ) تم پسند کرتے ہو اُنہیں‘ زیادہ محبوب ہیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ لے آئے اللہ اپنے حکم کو، اور اللہ نہیں ہدایت دیتا نا فرمانی کرنے والوں کو‘‘۔
4۔ نبی کریمﷺ کی حرمت کا تحفظ : نبی کریمﷺ کی حرمت کے تحفظ کے لیے جستجو کرنا بھی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اگر کوئی بدطینت شخص نبی کریمﷺ کی توہین کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو قانون کے کٹہرے میں پہنچانا بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپﷺ کی توہین کاارتکاب کرنے والا شخص سزائے موت کا حقدار ہے۔ پاکستان کے قانون 295-C میں نبی کریمﷺ کی حرمت کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی ہے؛ چنانچہ اگر کوئی شخص ذاتِ اقدس کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کو قانون کے کٹہرے میں لا کر سزائے موت دلوانے کی کوشش کرنا بحیثیت مسلمان ہم سب کی ذـمہ داری ہے۔
5۔نبی کریمﷺ کی تعریف اور توصیف: آپﷺ کی تعریف اور توصیف کرنا بھی بحیثیت مسلمان ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ آپﷺ کی سیرت کا نثری اور شعری بیان ہر عہد میں آپﷺ سے محبت کرنے والے لوگ کرتے رہے ہیں۔ حضرت حسان بن ثابت ؓ کو بہت زیادہ بلند مقام اس لیے حاصل ہوا کہ آپؓ نے نبی کریمﷺ کی تحسین کے لیے خوبصورت اشعار کہے تھے۔
6۔ آپﷺ کی ذات پر درود شریف بھیجنا: نبی کریمﷺ کی ذات پر درود بھیجنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 56میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بلاشبہ اللہ اور اُس کے فرشتے صلاۃ (رحمت )بھیجتے ہیں نبی کریمﷺ پر، اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی درود بھیجو ان (نبیﷺ ) پر اور تم سلام بھیجو خوب سلام بھیجنا‘‘۔ جو شخص نبی کریمﷺ کی ذات پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی ذات پر دس دفعہ رحمت نازل فرماتے ہیں اور جو درود بھیجتا ہی رہتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے غموں کو دور اور اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
7۔ آپﷺ کے نظام کا قیام اور غلبے کی کوشش کرنا: نبی کریمﷺ ایک مکمل ضابطہ حیات کے ساتھ اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے۔ آپﷺ کے نظام کے غلبے کی کوشش کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے ہمیں اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے دلائل، براہین، تقاریر اور مذاکرات کے ذریعے لوگوں کو آپﷺ کے نظام کے قیام کی دعوت دینی چاہیے۔
مندرجہ بالا حقوق کی ادائیگی کے لیے کوشاں رہنے والا شخص حقیقی طور پر اپنی نسبت رسولﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ کرنے کا حقدار ہے اور جو اس حوالے سے غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کرتا یا لا پروائی کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اپنی نسبت کے اظہار کا دعویٰ تو کر سکتا ہے لیکن حقیقت میں اس کا یہ دعویٰ اس وقت تک وزنی نہیں ہو گا جب تک وہ ان حقوق کی ادائیگی کے لیے بھرپور انداز میں جستجو نہیں کرے گا۔