اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان مختلف طرح کی مصیبتوں کی زدّ میں رہتا ہے۔ انسان زندگی بھر مختلف انواع کی بیماریوں، مصائب اور پریشانیوں کا سامنا کرتا رہتا ہے۔ ان پریشانیوں میں کئی مادی نوعیت کی ہوتی ہیں لیکن کئی پریشانیاں مافوق الطبیعیات اثرات سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ انسان پر جن منفی اثرات کے مرتب ہونے کے خدشات رہتے ہیں ‘ان میں ایک طرف جادو اور جنات کے حملے شامل ہیں اور دوسری طرف کئی مرتبہ انسان نظرِ بد کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔ نظرِ بد اُن اشیا میں شامل نہیں جن کے بارے میں ہم یہ بات کہہ سکیں کہ ان کا تعلق توہم پرستی کے ساتھ ہے۔ نظرِ بد کے حوالے سے قرآن وسنت کا موقف بالکل واضح ہے اور نبی کریمﷺ نے نظرِ بد کو حق قرار دیا ہے۔ ام المومنین حضرت سیدہ اُم سلمہؓ روایت فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ایک بچی کو دیکھا جس کے چہرے پر داغ یا دانے تھے۔ آپﷺ نے اس موقع پر اس بات کا حکم دیا کہ اس بچی کو دمّ کیا جائے‘ یہ نظرِ بد کا شکار ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نظر بد لگ جانے کے بعد اس کے اثرات اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ کئی مرتبہ اس کے حسی نتائج ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ کئی آئمہ نے اس حوالے سے کلام کیا اور اس کلام کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ نظرِ بد بسا اوقات انسان کو مختلف طرح کی پریشانیوں میں مبتلا کر دیتی ہے، کئی مرتبہ نظرِ بد کے اثرات انسان کے وجود میں ایک حسی اور واضح بیماری کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نظرِ بد کا تعلق توہم پرستی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ کتاب و سنت میں صریحاً بتایا گیا ہے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ سورۃ القلم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نظرِ بد کے اثرات کو واضح طور پر بیان کیا کہ کافر اپنی بد نظروں کے ذریعے نبی کریمﷺ کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔
نظرِ بد جو عموماً انسانوں کو لگتی ہے‘ وہ ملامت اور حسد والی نگاہ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں انسان کئی مرتبہ دل کی گرانی، سر کے دباؤ، اعصاب کی شکستگی جیسے امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ کئی مرتبہ وہ ایسی بے چینی یا اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کے بارے میں صحیح طور پر اندازہ لگانا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے جبکہ حقیقتاً اس کے پس منظر میں نظرِ بد کا اثر ہوتا ہے۔ کئی علما کرام‘ جن کا تعلق روحانی علاج ومعالجے کے ساتھ ہے‘ کا موقف ہے کہ نظرِ بد کے اثرات کئی مرتبہ جادو سے بھی زیادہ سخت اور شدید ہوتے ہیں۔ بعض روایات سے ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اُمت کی ایک بڑی تعداد نظرِ بد کی وجہ سے قبروں تک جا پہنچے گی۔ اسی طرح نظرِ بد کے حوالے سے ہمیں کتاب وسنت سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اونٹ کو بری نظر ہنڈیا تک پہنچا دیتی ہے۔ یہاں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحت مند آدمی نظرِ بد کی وجہ سے مصائب اور مختلف طرح کے مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔
اللہ تبار ک وتعالیٰ کے دین کا ایک بہت بڑا اعجاز ہے کہ اس میں زندگی گزارنے کے حوالے سے انسان کو جتنے مسائل دامن گیر ہو سکتے ہیں‘ ان سب کے بارے میں بڑے میں کامل اور مکمل انداز میں رہنمائی کی گئی ہے۔ حاسد ہر شخص کے ہو سکتے ہیں لیکن کئی لوگ حاسدین کے باوجود اچھی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل بہت سے لوگ حسد کی وجہ سے زندگی میں نشیب وفراز کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نظرِ بد، جادو یا شیطانی اثرات ہوں یا جنات کی طرف سے ہونے والی پیش قدمی‘ ان تمام کے تمام اثرات کا تعلق درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے امر کے ساتھ ہے۔
جادو گر اگرچہ جادو کے ذریعے اپنے شکار کو گرانے اور حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کے باوجود جب تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی اجازت یا اس کا امر نہیں ہوتا‘ اس وقت تک جادو کا وار بھی مؤثر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح حسد کا جو حملہ ہوتا ہے کئی مرتبہ انسانوں پر اس کے اثرات مرتب ہو جاتے ہیں اور کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی حفاظت کا بندوبست فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کی وجہ سے انسان ان حاسدانہ عزائم کے باوجود پُر امن زندگی گزارتا رہتاہے۔ جادو گری کے اثرات کے حوالے سے کلامِ حمید میں ہمیں یہ بات بتلائی گئی کہ جادوگروں نے جب سحر کا وار کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آنکھوں کو بھی رسیاں کچھ یوں محسوس ہوئی تھیں کہ گویا سانپ دوڑ رہے ہوں۔ حتیٰ کہ حضرت رسول اللہﷺ کو بھی اپنی حیاتِ مبارکہ میں جادو کے اثرات محسوس ہوئے۔ جادو کے اثرات اتنی جلیل القدر ہستیوں پر مرتب ہونے کی وجہ ان کی آزمائش تھی۔
کچھ یہی معاملہ نظرِ بد کا بھی ہے۔ جب نظرِ بد انسان پر حملہ کرتی ہے تو جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ تحفظ عطا فرما دیتے ہیں اس کے لیے وہ غیر مؤثر ہو جاتی ہے جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے جب کوئی آزمائش انسانی زندگی پر آنی ہو تو پھر یہی نظرِ بد انسان پر اثر انداز ہوناشروع ہو جاتی ہے۔ گو کہ نظرِ بد بالعموم حاسدانہ نظر ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس مشاہدات میں یہ بات بھی آئی ہے کہ کئی مرتبہ انسان پیار اور محبت کے ساتھ کسی چیز پر اپنی توجہ مرتکز کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں بھی ''ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ‘‘ یا ''الحمدللہ‘‘ جیسے الفاظ نہ کہنے کی وجہ سے نظرِ بد کے اثرات محبت والی نگاہ میں مرتکز ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ ایک روایت میں مذکور ہے کہ ایک صحابی نے دوسرے صحابی کے وجود کی تعریف کی تو جس کی تعریف کی گئی تھی وہ اسی موقع پر زمین پر گر کر بے ہوشی کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔ حالانکہ ایسے عالم میں تعریف کرنے والے کے دل میں اپنے بھائی کے لیے کوئی بغض نہیں تھا، فقط محبت، چاہت اور پیار کے جذبات تھے لیکن اس چاہت اور پیار کے اظہار میں جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی مشیت اور حمد کو تعریف میں شامل نہیں کیا گیا تو وہ محبت والی نگاہ بھی اثراتِ بد کے مرتب ہونے کا سبب بن گئی؛ چنانچہ نظرِ بد بنیادی طور پر ملامت کرنے والی نگاہ ہوتی ہے یا حسد کرنے والی والی نگاہ لیکن کئی مرتبہ چاہت والی نگاہ کے نتیجے میں بھی انسان کے اوپر اثراتِ بد مرتب ہوجاتے ہیں۔
نظرِ بد کے نتیجے میں کئی مرتبہ مادی نقصانات یا مادی بیماری انسان پر مسلط ہو جاتی ہے اور کئی مرتبہ روحانی بے قراری، تشنگی، مایوسی یا گراوٹ کی کیفیات انسان پر طاری ہوجاتی ہیں۔ ان کیفیات سے نبردآزما ہونے کے لیے جب تک انسان کا کتاب وسنت میں مذکورہ حقائق پر پختہ یقین نہ ہو وہ ان سے باہر نہیں نکل سکتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان اطبا، حکما اور ڈاکٹرز کی مشاورت سے ان چیزوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرے گا اور ہمارے ڈاکٹرز یا حکما وغیرہ عام طور پر اس قسم کی کیفیات کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان کو مسکن ادویات دیتے ہیں جن کی وجہ سے انسان کا دماغ وقتی طور پر سکون میں آجا تا ہے اور انسان نیند کی وادی میں اتر جاتا ہے۔ اس کا تعلق مادی حقائق یا بیرونی دنیا سے کٹ جاتا ہے اور اسے وقتی طور پر ریلیف مل جاتا ہے لیکن یہ نظرِ بد کا حقیقی علاج نہیں ہے۔ نظرِ بد کا حقیقی علاج وہی ہے جو کتاب وسنت میں مذکور ہے۔ نبی کریمﷺ کی سیرتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانوں کو جو دم کرنا چاہیے وہ بنیادی طور پر نظرِ بد کے حوالے سے کرنا چاہیے یا انسان کو کوئی دانے، پھوڑے، پھنسی قسم کے معاملات درپیش ہوں تو اس صورت میں بھی انسان کو دم کرنا چاہیے یا وہ کسی روحانی و جسمانی عارضے کا شکار ہو جائے تو ایسی صورت میں بھی دم کرنا چاہیے۔ نبی کریمﷺ خود بھی دم کیا کرتے تھے اور اپنے اصحاب کو بھی دم والی آیات یاد کرایا کرتے تھے۔
کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نظرِ بد کے علاج کے حوالے سے ہمیں کتاب اللہ کے ساتھ تمسک کو اختیار کرنا چاہیے اور حدیث رسول اللہﷺ میں مذکور جو ماثور دعائیں ہیں‘ ان کے ساتھ بھی تعلق اختیار کرنا چاہیے۔ جب ہم ان کی پابندی کریں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے نظرِ بد کے اثرات بتدریج زائل ہوتے چلے جائیں گے۔ کئی مرتبہ انسان کتاب اللہ کی تلاوت اور ماثورہ دعاؤں کا التزام کرتا ہے لیکن اس کے باوجود طبیعت میں بہتری والی کیفیت پیدا نہیں ہوتی لہٰذا وہ مایوس ہوکر ان چیزوں کا التزام چھوڑ دیتا ہے۔ حالانکہ کلام اللہ کی آیات ہوں یا حدیث طیبہ میں مذکور ماثورہ دعائیں‘ ان کے نتائج اگر فی الفور مرتب نہیں ہوں گے تو انسان کے استقامت اور تمسک اختیار کرنے کے سبب لازماً ان کے ا ثرات انسانی زندگی پہ مرتب ہوں گے۔ انسانوں کو اپنی دعاؤں میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اذکار کے حوالے سے نتائج کے فوراً نہ نکلنے کی صورت میں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس حقیقت پر یقین رکھنا چاہیے کہ ہماری زندگی میں آنے والے جملہ مصائب ہمارے رب کے امر سے آ رہے ہیں اور وہی ہمارا والی، کارساز اور پروردگار ہے۔ اہلِ ایمان کا اللہ تبار ک وتعالیٰ ہی پر توکل اور ایمان ہونا چاہیے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں نظرِ بد کے اثرات سے محفوظ و مامون فرمائے، آمین !