اس وقت ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر عدم برداشت کی لپیٹ میں ہے اور لوگ چھوٹی چھوٹی بات پر ایک دوسرے سے دست وگریبان ہونے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ خاندانی سطح پر شوہر اور بیوی کے جھگڑوں کی باتیں ہم آئے دن سنتے رہتے ہیں۔ بالعموم اس قسم کی اطلاعات بھی موصول ہوتی ہیں کہ شوہر نے غصے میں آکر اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اسی طرح کئی شوہر بیوی کو مار پیٹ کر گھر سے نکال دیتے ہیں۔ کچھ یہی کیفیت عورتوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ شوہر کی معمولی سی نصیحت کو بھی قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتیں اور بات معمولی جھگڑے سے بڑھتی بڑھتی خلع اور تنسیخِ نکاح کے مقدمات تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ بات مذہبی معاملات میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ دلائل کے تبادلے کے بجائے بہت سے لوگ ذاتیات پر اتر آتے ہیں اور دوسرے فریق کو زیر کرنے کے لیے ہر قسم کے غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کا سہارا لینے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جہاں نجی خاندانی اور مذہبی سطح پر تعصبات کا مظاہرہ کیا جاتا ہے‘ وہیں سیاسی حریفوں کے خلاف بھی نا مناسب گفتگو کی جاتی ہے اور کئی مرتبہ اس گفتگو کی زدّ میں ملک کے موقر ادارے اور محترم شخصیات بھی آ جاتی ہیں۔ لوگ عدم برداشت کی وجہ سے اس سطح پر اتر آتے ہیں کہ اپنے ہمنوا کی ہر جائز وناجائز بات کا دفاع کرتے اور مخالف کی معمولی سے معمولی خامی کی تشہیر کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔
قرآنِ مجید نے اس حوالے سے انسانوں کی بہترین انداز میں رہنمائی کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اہلِ ایمان کو عدل اور انصاف کے راستے پر چلنے کا حکم دیا ہے اور عادلانہ اندازِگفتگو اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر135 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! ہو جاؤ انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دینے والے اللہ کی خاطر اور اگرچہ اپنے آپ کے خلاف ہی ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے (خلاف ہی کیوں نہ ہو) اگر ہو وہ امیر یا فقیر تو اللہ تعالیٰ (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے اُن دونوں کا‘ تو نہ پیروی کرو خواہشِ نفس کی کہ تم عدل (نہ) کرو اور اگر توڑ مروڑ کر بات کرو گے (گواہی دیتے ہوئے) یامنہ موڑو گے (گواہی دینے سے) تو بے شک اللہ (اُس سے) جو تم عمل کرتے ہو‘خوب خبردار ہے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں کسی کی دشمنی اور عداوت کے حوالے سے بھی نامناسب طرزِ عمل اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔ اگر دشمن کے حوالے سے بھی کوئی بات کی جائے تو اس بارے میں بھی عدل اور انصاف سے کام لینا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ہو جاؤ قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے انصاف کی اور نہ ہرگز آمادہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو، عدل کیا کرو (کہ) وہ زیادہ قریب ہے تقویٰ کے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ، بے شک اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے اس سے جو تم عمل کرتے ہو‘‘۔ انسانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں لیکن اُنہیں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ تکریمِ بنی آدم کے حوالے سے ان کا طرزِ عمل کتاب وسنت کے مطابق ہو نا چاہیے اور ان کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ انسانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو عزت او ر عظمت عطا کی ہے‘ اختلاف کے باوجود بھی اس میں تخفیف کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تکریمِ بنی آدم کے حوالے سے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 70 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بلاشبہ یقینا ہم نے عزت دی بنی آدم کو اور ہم نے سوار کیا انہیں خشکی میں اور سمندر (میں) اور ہم نے رزق دیا انہیں پاکیزہ چیزوں سے اور ہم نے فضیلت دی انہیں بہت سی مخلوقات پر‘ ان میں سے جنہیں ہم نے پیدا کیا‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ التین میں اس بات کو واضح فرمایا کہ اللہ نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا ہے۔ سورۃ التین کی آیت نمبر 4 میں ارشاد ہوا: '' بلاشبہ یقینا ہم نے پیدا کیا انسان کو بہترین شکل وصورت میں‘‘۔
بعض لوگ ایک دوسرے کی مخالفت اور عناد میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ دوسرے کو غلط القاب اور ناموں سے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں اس طرزِعمل کی شدید انداز میں مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ حجرات کی آیت نمبر 11 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو نہ مذاق کرے کوئی قوم کسی (دوسری) قوم سے‘ ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں اُن سے اور نہ کوئی عورتیں (مذاق کریں دوسری) عورتوں سے‘ ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں اُن سے اور نہ تم عیب لگاؤ اپنے نفسوں (یعنی ایک دوسرے) پر اور ایک دوسرے کو مت پکارو (برے) القاب سے (کسی کو) فسق والا نام (دینا) بُرا ہے ایمان لانے کے بعد ، اور جس نے توبہ نہ کی تو وہ لوگ ہی ظالم ہیں‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں غیبت ، بدگمانی اور تجسس کی شدید اندازمیں مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ حجرات ہی کی آیت نمبر 12 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے (وہ لوگو!) جو ایمان لائے ہو اجتناب کرو بہت گمان کرنے سے‘ بے شک بعض گمان گناہ ہیں اور تم جاسوسی نہ کرو، اور نہ غیبت کرے تم میں سے کوئی (کسی) دوسرے کی‘ کیا تم میں سے کوئی ایک (بھی اس بات کو) پسند کرتا ہے کہ وہ گوشت کھائے اپنے مردہ بھائی کا؟ تو تم ناپسند کرتے ہو اُسے ، اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘۔
اختلافات سیاسی ہوں یا مذہبی ‘ہمیں اپنے مخالفوں کے ساتھ مشترکات کو تلاش کرتے رہنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ہم آہنگی کو برقرار رکھا جا سکے۔ ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی یا مذہبی اختلافات کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے اسلام اور پاکستان کے رشتے کی وجہ سے ہم ایک لڑی میں پروئے گئے ہیں۔ یہ بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ مساوات بنی آدم اور مذہب کے اشتراک کو فراموش کرکے لوگ فقط اپنے اپنے تعصبات کو فروغ دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل کسی بھی طور پر درست نہیں ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد قومی اور لسانی تعصبات کے فروغ ہی نے اس ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا حالانکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے رہنے والے لوگوں کا مذہب ایک ہی تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، رسول اللہﷺ کی رسالت اور قرآنِ مجید کے اللہ کا کلام ہونے کی نسبت سے ہم سب کو یکجائی کو اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے اور اس کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے ہمیں مشترکات کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہیے اور اس بات کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے کلمہ طیبہ کی نسبت سے ہم ایک جسد واحد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے اسلام کی نسبت سے عالمگیر اخوت کے تصور کو پیش کیا اور مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند قرار دیا۔
صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیرؓسے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مومن بندوں کی مثال (ان کی آپس میں محبت‘ اتحاد اور شفقت میں) جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضا میں سے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور وہ بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔
اختلافات کو اس حدتک نہیں بڑھا دینا چاہیے کہ مشترکات کو یکلخت نظر انداز کر دیا جائے۔ ملکی سلامتی ، سرحدوں کے تحفظ، نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے ملک کے تمام طبقات کو ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے اورا س حوالے سے عدم برداشت کے بجائے رواداری، تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے لوگ الگ الگ منشور رکھنے کے باوجود بھی ملکی اور قومی مفاد کے لیے یکجان ہو کرکام کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں اور حساس اور نازک مواقع پر حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کا تصور بالکل مٹ جاتا ہے۔ برطانیہ میں باقاعدہ طور پر حزبِ اختلاف کو شیڈو کابینہ بنانے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے اور شیڈو کابینہ کے ممبران حقیقی کابینہ کے ممبران کی طرح اُمور ملکی سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں اور وقت آنے پر اپنے ملک کے دفاع اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ ہماری قومی سیاست کا المیہ ہے کہ ہم مخالفت میں اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے وجود کو مٹانے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں حالانکہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ بوقت ضرورت اور گاہے گاہے ایک ٹیبل پر بیٹھنا اور ایک دوسرے کے ساتھ مثبت اور مفیدکاموں میں تعاون کرنا درحقیقت ملک کی ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔
ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنا ،ہر وقت ایک دوسرے کو گرانے ،مٹانے کی کوشش کرنا اور ایک دوسرے کو نامناسب القابات سے یاد کرنے کے نتیجے میں معاشرہ تعصبات، نفرت اور بداخلاقی کا مظہر بن جاتا ہے۔ ہمارے ملک کو اس وقت جتنی ضرورت برداشت، تحمل اور صبر کی ہے شاید قومی استحکام اور ترقی کے لیے کسی اور چیز کی اتنی ضرورت نہ ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے میں بسنے والے تمام طبقات کو پیار، محبت ، الفت، رواداری اور بردباری کے ساتھ رہنے کی توفیق دے، آمین!