علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کے مسلمانوں کے ایک فکری قائدکی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے اُمتِ مسلمہ کے سیاسی زوال کے دوران اُمت کو بیدار کرنے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ نے اپنی شاعری اور خطابات کے ذریعے اُمتِ مسلمہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ علامہ اقبال کو ہم سے جدا ہوئے کئی عشرے بیت چکے ہیں لیکن آج بھی آپ اپنے کلام‘ اپنے خطابات اور افکار کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں دھڑکن کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہر محب دین اور محب وطن مسلمان علامہ اقبال سے ایک روحانی وابستگی اور انسیت محسوس کرتا ہے۔ گو علامہ اقبال قیامِ پاکستان سے نو برس قبل ہی دنیا سے رخصت ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود قیام پاکستان کے حوالے سے جو کردار آپ نے ادا کیا‘ اس کو تحریکِ پاکستان کا ایک سنہری باب تصور کیا جاتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کی بھی پاکستان کے قیام کے حوالے سے خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کومختلف حوالوں سے بیدار کیا۔ اُن کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت، رسول اللہﷺ کی محبت اور خلافت راشدہ سے وابستگی کا درس دیا۔مسلمانوں کے دلوں اور ضمیروں کو بیدار کرنے کے حوالے سے علامہ اقبال کی شاعری نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک مقام پر آپ کہتے ہیں:
یا رب! دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
پھر وادیٔ فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے پھر ذوقِ تقاضا دے
محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے
دیکھا ہے جو کچھ میں نے اوروں کو بھی دکھلا دے
ایک اور مقام پر علامہ محمد اقبال نے حضرت صدیقِ اکبرؓ اور حضرت علی المرتضیٰؓ کی تمنا کو اپنانے کا بڑے خوبصورت انداز میں اظہار کیا اور بنیادی طور پر اس کا مقصد انسانوں کے روحانی جذبات کو بیدار کرنا ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ، سوزِ صدیقؓ دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
آپ نے سوز اور روحانیت کے حصول کے لیے جس طرح اُمت کو رغبت دلائی‘ اسی طرح آپ نے محبتِ مصطفی اور حضرت رسول اللہﷺ سے وفاداری کا بھی بڑے خوبصورت انداز میں درس دیا۔ علامہ اقبال ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ‘لوح و قلم تیرے ہیں
علامہ اقبال نے اُمتِ مسلمہ کو خوداری کا درس دیا اور اُن کو یہ سبق پڑھایا کہ غیرت اور خودداری کے ذریعے ہی انسان دین ودنیا میں سربلند ہو سکتا ہے۔ اپنی ایک خوبصورت نظم ''بڈھے بلوچ کی نصیحت‘‘ میں علامہ اقبال ارشاد فرماتے ہیں:
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
اسی طرح آپ نے اس بات کو واضح کیا کہ جب انسان خوددار ہو جاتا ہے تو کاتبِ تقدیر اور مالکِ کائنات بھی اس پر اس انداز میں مہرباں ہو جاتا ہے کہ اس کی زندگی کے جملہ مراحل میں اپنی تائید اور نصرت کو اس کے شاملِ حال فرما دیتا ہے۔ علامہ اقبال ارشاد فرماتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے‘ بتا تیری رضا کیا ہے
علامہ اقبال نے نوجوانوں میں قوتِ عمل کو بیدار کرنے کے لیے شاہین پرندے کو بطور مثال پیش کیا اور مسلمان نوجوانوں کو اس بات کی رغبت دلائی کہ ان کو شاہین کی سی صفات اپنانی چاہئیں اور قوتِ عمل سے بہرہ ور ہونا چاہیے۔ ان کا ہدف دنیاوی بادشاہت کا حصول یا ناز ونعمت کو اپنانا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کو زندگی کے نشیب وفراز کا سخت جانی سے مقابلہ کرنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ علامہ فرماتے ہیں:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
آپ نے نوجوانوں میں قوتِ عمل کو بیدار کرنے کے لیے منزل سے بڑھ کر جدوجہد کو اہمیت دی ہے۔ مادی دنیا میں رہتے ہوئے بہت سے لوگ اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب نہ ہونے کی صورت میں دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں ۔ علامہ اقبال کے نزدیک منزل کے مل جانے سے کہیں زیادہ اہم جدوجہد کا کرنا ہے۔ علامہ اقبال اس حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں:
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
بہت اس نے دیکھے ہیں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
سفر زندگی کے لیے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت، حضر ہے مجاز
علامہ اقبال کے افکارپر غور کرنے سے یقینا انسان میں للہیت، محبتِ مصطفیﷺ، ملت کا درد اور عمل کی قوت بیدار ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنے اور ان کے افکار کو عام کرنے کے لیے ہر سال مختلف سیمینارز اور پروگراموں کا انعقاد ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے طلبہ تنظیم ایم ایس او نے ایوانِ اقبال میں ایک خوبصورت ''فکرِ اقبال سیمینار‘‘ کا انعقاد کیا جس میں ملک کے مؤقر صحافی مجیب الرحمن شامی، پنجاب کے وزیر قانون خرم شہزاد ورک اور دیگر بہت سے اکابرین کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ مجھے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے بلایا گیا۔ ایم ایس او کے مرکزی امیر رانا ذیشان اور ناظم اعلیٰ مظہر علی نے بڑے خوبصورت انداز میں اس تقریب کو منظم کیا۔ مجیب الرحمن شامی صاحب اور خرم شہزاد ورک نے اس موقع پر اپنے اپنے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میں نے بھی اس موقع پر اپنی فکر کو سامعین کے سامنے رکھا ‘ جس کو کچھ کمی بیشی کے ساتھ میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
علامہ اقبال نے جہاں اُمت کی ـمختلف حوالوں سے رہنمائی کی‘ وہیں انہوں نے سیاست اور مذہب کے باہمی ربط کو بھی بڑے خوبصورت انداز میں واضح کیا۔ اقبال فرماتے ہیں:
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
علامہ اقبال اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ مسلمانوں کی ریاست کی اساس اُن کا مذہب ہے۔ علامہ اقبال اس بات کو ایک دوسری جگہ یوں بیان فرماتے ہیں :
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دین ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
علامہ اقبال نے وطنیت اور قومیت کے بتوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جانے کا درس بڑے ہی خوبصورت انداز میں کچھ اس طرح دیا:
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی ہے باقی‘ نہ ایرانی نہ افغانی
علامہ اقبال کی سیاسی فکر نے دو قومی نظریے کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا اور برصغیر کے مسلمانوں کو اس بات کا سبق دیا کہ برصغیر کے مسلمان ایک جداگانہ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خودشناسی اور خود آگہی کے اس درس کی وجہ سے مسلمانوں کو برصغیر کے طول وعرض میں منظم ہونے کا موقع ملا اور تحریک پاکستان پوری قوت سے بپا ہوئی اور بالآخر دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک سب سے بڑی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ابھر آیا۔ اس کثیر القومی ریاست کی تعمیر وترقی کے لیے مذہب ایک جڑاؤ کا کردار ادا کرتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد قومی اور لسانی عصبیتوں کی وجہ سے ملک کی وحدت کو جو نقصان پہنچا اس کی جہاں دیگر بہت سی وجوہات تھیں وہیں تصورِ ملت کا معدوم ہو جانا بھی ایک بڑی وجہ تھی۔ اگر آج ہم وطن کو لسانی اور قومی بتوں سے آزاد کرکے ایک اکائی کی حیثیت سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں فکرِ اقبال سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور ریاستی اُمور کو دین اور شریعت کے تابع بنانے کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ الحمدللہ! آئینِ پاکستان کتاب وسنت کی عملداری کی ضمانت دیتا ہے اور اس ضمانت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے اپنے دائرۂ کار میں جدوجہد کرنے میں مصروف ہیں ۔ اگر یہ جدوجہد باہم مربوط اور ہم آہنگ ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک عظیم اسلامی فلاحی ریاست کی حیثیت سے ایک رہنما کردار ادا نہ کر سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں فکرِ اقبال کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!