چند روز قبل میری ہمشیرہ نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ ان کی بچپن کی ایک کلاس فیلو کا 23 سالہ جوان بیٹا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گیا ہے۔ اس خبر نے مجھے چونکا کر رکھ دیا اور میں گہری سوچ میں چلا گیا۔ میرے ذہن میں خیال آیا ہے کہ 23 سالہ جوان بیٹے کی رحلت کی خبر یقینا والدین کے اعصاب پر بجلی بن کر گری ہو گی اور ان کی آنے والی زندگی پر اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ کئی مرتبہ اس قسم کے حادثات والدین اور اعزہ واقارب کو نفسیاتی اذیتوں اور محرومیوں میں ا س حد تک مبتلا کر دیتے ہیں کہ زندگی کی تمام خوشیاں پھیکی پڑ جاتی ہیں۔ میرے بیٹے مؤذن الٰہی کا ہم مکتب سادہ طبیعت کا خوش اخلاق نوجوان ہے۔ کچھ سال قبل اس کے 16 برس کے بھائی کا انتقال ہو گیا جس کی وجہ سے تاحال اس کے والدین ذہنی طور پر معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں اور زندگی کی خوشیاں ان کے لیے ماند پڑ چکی ہیں۔ میں اس واقعے کے دباؤ سے ابھی آزاد بھی نہیں ہو ا تھا کہ 19 تاریخ کو گوجرانوالہ منی سٹیڈیم میں ہونے والی کانفرنس کی طرف سفر کرتے ہوئے اس بات کی اطلاع موصول ہوئی کہ ہمارے انتہائی قریبی ساتھی اور دوست عزیز الرحمن مغل کے بڑے بھائی عبدالرحمن مغل کا انتقال ہو گیاہے۔ عبدالرحمن مغل ایک زبردست سماجی شخصیت تھے اور لوگوں کے دکھ درد کو بانٹنے کا کام بڑی تندہی سے کیا کرتے تھے۔ ان کی 42 سال کی عمر میں رحلت یقینا خاندان کے لیے ایک عظیم صدمے کا باعث تھی۔ اس موقع پر یہ سن کر تسلی ہوئی کہ بھائی عزیز الرحمن نے خود اُن کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس میں شہر بھر سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
فٹ بال سٹیڈیم کے جلسے کے بعد جب میں ان کے گھر پہنچا تو میں نے اس موقع پر جہاں دکھ اور کرب کے احساسات کو محسوس کیا وہیں صبر، خندہ پیشانی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہونے والے مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔ سلجھی ہوئی طبیعت کے یہ بھائی یقینا دین سے محبت کرنے والے لوگ ہیں اور جہاں پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں وہیں مساجد میں جاکر اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور باقاعدگی سے سر جھکا رہے ہیں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد میں توازن کو برقرار رکھنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لاہور واپسی پر بھائی عبدالرحمن کی رحلت کی وجہ سے میری طبیعت پر غیر معمولی بوجھ تھا۔ اگلے ہی دن ایک اور افسوس ناک خبر سننے کو ملی کہ سادھوکی سے گوجرانوالہ تک ہونے والی قرآن وسنہ موومنٹ کی ریلی میں شرکت کرنے والے اور فٹ بال سٹیڈیم میں ختم نبوت کے عنوان پر منعقد ہونے والے جلسے میں انتہائی جوش اور جذبے سے شریک ہونے والے نوجوان کارکن علی شیر ٹریفک حادثے میں اچانک انتقال کر گئے ہیں۔
جواں سال موت یقینا جہاں مرحوم کے خاندان کے لیے گہرے صدمے کا باعث تھی وہیں ایک جانثار ساتھی کی رحلت نے میرے دل پر گہرے اثرات مرتب کیے اور میں دنیا کی بے ثباتی پر غور کرنے اور زندگی کی حقیقت کی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف ہو گیا۔ ابھی ان خبروں کے اثرات دل سے محو بھی نہیں ہوئے تھے کہ آج اچانک خبر ملی کہ جلیل القدر عالم دین مولانا عطااللہ حنیف بھوجیانی ؒ کے باعمل فرزند حافظ احمد شاکر دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ احمد شاکر صاحب انتہائی درویش صفت اور ملنسار انسان تھے۔ آپ کے تقویٰ، للہیت اور دین سے وابستگی کو دیکھ کر انسان کے دل میں آپ کی محبت ہو جاتی تھی۔ کتب فروشی کے کاروبار سے منسلک تھے اور ہفت روزہ الاعتصام کی ادارت کا فریضہ بھی بطریق احسن انجام دیتے رہے۔ اپنی پیشہ ورانہ اور کاروباری مصروفیات کے دوران آپ نے اپنی اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور ان کی دین کے مطابق نشوونما میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سیرتِ نبوی پر مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی شہرہ آفاق تصنیف ''الرحیق المختوم‘‘ کے اُردو ترجمے کی نشرواشاعت میں حافظ احمد شاکرنے نمایاں کردار ادا کیا۔ علماء کرام سے غیرمعمولی پیار اور محبت کیا کرتے تھے اور لوگوں کے ساتھ دین کی نسبت سے عقیدت اور محبت کا اظہارکرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ انہوں نے مولانا عطااللہ حنیف کے تعلق دار دوست احباب کے ساتھ اپنے تعلقات کو نہایت احسن طریقے سے بحال رکھا اور ان کی خوشی غمی میں باقاعدگی سے شریک ہوتے رہے۔
یہ تمام واقعات اور اس طرح کی غمناک خبریں درحقیقت انسان کی توجہ اس حقیقت کی طرف ملتفت کرتی ہیں کہ انسان کا قیام اس دنیا میں عارضی ہے۔ جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد والدین کی شفقتوں اور محبتوں سے بہرہ ور ہو رہی ہے وہیں بہت سے لوگ والدین کی نعمت، سرپرستی اور دُعاؤں سے بھی محروم ہو چکے ہیں اور دادا، دادی یا نانا، نانی کے جنازوں کو ہر خاندان میں اُٹھتے ہوئے دیکھا جا چکا ہے۔ قریبی دوستوں، اعزہ واقارب کی اموات کے ساتھ ساتھ جواں سال اموات کو دیکھنے اور سننے کا بھی گاہے گاہے موقع ملتا رہتا ہے۔ یہ تمام سانحے انسان کو جھنجھوڑتے ہیں اور اسے اس حقیقت کا یقین دلاتے ہیں کہ جلد یابدیر اس نے بھی دنیائے فانی کو خیرباد کہہ کے موت کی وادی میں اتر جانا ہے۔ انسانوں کی ایک بڑی تعدا د کثرت کی ہوس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے موت کو فراموش کر دیتی ہے لیکن موت اپنے ہونے کا احساس دلا کر رہتی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے موت کی حقیقت کو قرآنِ مجیدکے کئی مقامات پر نہایت احسن انداز میں بیان کیا۔ سورہ تکاثر میں اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتے ہیں: ''غافل کر دیا تمہیں باہمی کثرت کی خواہش نے۔ یہاں تک کہ تم نے جا دیکھیں قبریں۔ ہرگز نہیں! عن قریب تم جان لو گے۔ پھر ہرگز نہیں! عنقریب تم جان لوگے۔ ہر گز نہیں! کا ش تم جان لیتے یقین کا جاننا۔ یقینا ضرور تم دیکھ لو گے جہنم کو۔ پھر یقینا ضر ور تم دیکھ لو گے اسے یقین کی آنکھ سے۔ پھر ضرور بالضرور تم پوچھے جاؤ گے۔ اس دن نعمتوں کے بارے میں‘‘۔
موت کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں زندگی کی نعمت سے نواز رکھا ہے۔ اس زندگی میں ہونے والے تمام اعمال اور افعال انسان کو روزِ محشر اپنے آنکھوں کے سامنے دیکھنے ہوں گے۔ جس شخص کا دایاں پلڑا بھاری ہوا وہ جنتی ہو گا اور جس شخص کا بایاں پلڑا بھاری ہوا اس کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں کو تیار کر دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورہ القارعہ کی آیات 6 تا 11میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں :''پس (کامیاب) رہا وہ جو (کہ) بھاری ہو گئے اس کے پلڑے۔ تو وہ پسندیدہ زندگی میں ہو گا۔ اور رہا (ناکام) وہ جو (کہ) ہلکے ہو گئے اس کے پلڑے، تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔ اور آپ کیا جانیں وہ (ہاویہ) کیا ہے۔ آگ ہے دہکتی ہوئی‘‘۔
سورہ آلِ عمران میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حقیقی کامیاب اسی شخص کو قرار دیا ہے جو جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں سے بچ کر جنت میں داخل ہو گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 185میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا تمہارے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن‘ پس جو بچا لیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا جنت میں تو یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور نہیں ہے دنیا وی زندگی مگر دھوکے کا سامان‘‘۔
موت کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری کے لیے زندگی کی ساعتوں کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور ان ساعتوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نازعات میں دو طرح کے لوگوں کا ذکر کیا؛ ایک جس نے دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہوئے آخرت کو فراموش کر دیا تو ایسے شخص کو ناکام اور نامراد قرار دیا گیا۔ آیات 37 سے 39 میں ارشاد ہوا: ''پس (ناکام) رہا وہ جس نے سرکشی کی اور اس نے ترجیح دی دنیوی زندگی کو۔ تو بے شک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانا ہے‘‘۔ اس کے مدمقابل اس شخص کی کامیابی کا بھی ذکر کیا جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر گیا اور اس نے اپنی خواہش نفس کو دبا لیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نازعات ہی کی آیات 40 تا 41میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور رہا وہ جو ڈر گیا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکا (اپنے) نفس کی (بُری ) خواہش سے۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہے‘‘۔
مذکورہ بالا آیات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کو دنیا میں رہتے ہوئے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور موت کے بعد آنے والی زندگی کی کامیابیوں کو سمیٹنے کے لیے ابھی سے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں موت کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے موت کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری کرنے کی توفیق دے، آمین !