پاکستان ہمارا دیس ہے اور اس کے ساتھ ہر پاکستانی کو والہانہ محبت ہے۔ پاکستان کے حصول کے لیے ہمارے اکابرین اور بزرگوں نے بہت زیادہ قربانیاں دی تھیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے ہجرتیں کیں‘ ماؤں کے دوپٹوں کونوچا گیا، بیٹیوں کی عصمت کو تار تار کیا گیا، نوجوانوں کے سینوں میں سنگینوں کو اتارا گیا اور معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پہ تڑپایا گیا۔بالآخر ہمیں وطن عزیز پاکستان کی شکل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک عظیم نعمت حاصل ہوئی۔ اس وطن میں قسم ہا قسم کے موسم موجود ہیں اور یہاں کی سرزمین کھیتی باڑی اور کاشت کاری کے لحاظ سے ایک مثالی سرزمین ہے لیکن اس کے باوجود ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ گزشتہ کئی عشروں کے دوران پاکستان سیاسی اور معاشی اعتبار سے مستحکم نہیں ہو سکا‘ جس کی متعدد وجوہات ہیں۔ جب تک ان وجوہات کا عمیق طریقے سے مطالعہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک پاکستان ایک مستحکم ریاست کی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں محب وطن افراد کی کوئی کمی نہیں‘ یہ محب وطن افراد وقفے وقفے سے ایسے پروگراموں،سیمینارز اور اجتماعات کا انعقاد کرتے رہتے ہیں جن میں پاکستان کے استحکام کے حوالے سے غوروخوض کیا جاتا ہے۔
11 مارچ کو اسی حوالے سے غلہ منڈی‘ تحصیل کامونکی‘ گوجرانوالہ میں قرآن وسنہ موومنٹ کے تحت ایک بڑے پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے دوست احباب نے نہایت جاںفشانی سے محنت کی۔ 11 مارچ کو میں جس وقت کامونکی پہنچا تو جلسے کی تشہیری مہم پورے عروج پرنظر آئی۔جب میں سٹیج پر پہنچا تو میں نے غلہ منڈی کے ہر طرف سروں کی ایک بڑی فصل کو دیکھا۔ لوگ ملت اور وطن کی محبت سے سرشار ہو کر اس اجتماع میں نہایت جوش و جذبے سے شریک ہوئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر فاروقی، مولانا عبدالرزاق اظہر، مولانا امانت الرحمن عثمانی نے سیر حاصل گفتگو کی اوراس بات کو اجاگر کیا کہ ملک کے تمام طبقات کو ملک کے استحکام کے لیے اپنی ذمہ داریوں کا پاس کرتے ہوئے اپنا کردار بطریقِ احسن ادا کرنا چاہیے۔ اس موقع پر مجھے جلسے کے آخری خطیب کے طور پر خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے اس موقع پر جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا ان کو کچھ کمی بیشی کے ساتھ سامعین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں بے پایاں ہیں اور ہر نعمت اپنی اپنی جگہ معنی خیز ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایمان سب سے بڑی نعمت ہے اور اس کے بعد دیگر بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جن کا انسان شمار بھی نہیں کر سکتا۔ انہی نعمتوں میں سے آزادی بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ پاکستان کے قیام کے لیے قائدینِ تحریکِ پاکستان اور علمائے برصغیر نے بھرپور کردار ادا کیا تھاا ور عوام الناس نے ان کی ہمراہی میں بے مثال قربانیاں دی تھیں اور ان سب کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ پاکستان ایک کثیرالقومی ریاست ہے جس میں مختلف اقوام سے وابستہ لوگ اور مختلف زبانیں بولنے والے افراد رہتے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد بعض عناصر نے اسے ایک نظریاتی ریاست کے بجائے ایک قومی ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش کی اوراس بات کو فراموش کر دیا کہ کثیر القومی ریاست کے جڑاؤ میں مذہب نمایاں اور بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد پہلا جھگڑا بنگالی کو اُردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ دینے کے حوالے میں بپا ہوا‘ جسے بہتر انداز میں حل نہ کیا جا سکا۔ نتیجے میں تعصبات نے جنم لیا اور یہ تعصبات اس وقت پورے عروج پر پہنچ گئے جب 70ء کے انتخابات میں مینڈیٹ ملنے کے باوجود اقتدار عوامی لیگ کے حوالے نہ کیا گیا۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اتنے بڑے سانحے سے اس طور سبق نہ سیکھا جس انداز میں ہمیں سبق سیکھنا چاہیے تھا۔
پاکستان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے 1973ء میں ایک ایسے متفقہ آئین کی نعمت سے نواز ا، جس نے اداروں اور قوم کے مختلف طبقات کے حقوق کے بارے میں بڑی وضاحت کے ساتھ رہنمائی کی۔ ساتھ ہی اس آئین میں کتاب وسنت کی عملداری کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا گیا اور ختمِ نبوت کے منکروں کو دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ اسی آئین میں حضرت رسول اللہﷺ کی ناموس کے تحفظ کے لیے 295-C کا قانون بھی بنایا گیا۔ آئین اپنی تحریری اور نظری حیثیت کے اعتبار سے ایک زبردست اسلامی آئین تھا۔ اس آئین کے عملی نفاذ کے لیے ملک کی دینی جماعتیں وقفے وقفے سے آوازیں بلند کرتی رہی ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو آوازیں اس کے عملی نفاذ کے لیے اُٹھیں‘ وہ ایک مطالبے کی حیثیت سے آگے نہ بڑھ سکیں اور بہت سے معاملات جوں کے توں رہے۔ پاکستان میں تاحال سودی لین جاری وساری ہے، جسم فروشی کے اڈے بھی موجود ہیں اور منشیات اور شراب کاکاروبار بھی خفیہ اور اعلانیہ طور پر جاری رہتا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ کئی عناصر پاکستان کے نظریاتی خدوخال کو تبدیل کرنے کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں؛ چنانچہ ٹرانس جینڈر بل جیسے معاملات بھی منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں اور اس کیساتھ ساتھ پاکستان کے غریب اور پسماندہ طبقات کے استحصال کا معاملہ بھی جاری وساری ہے۔ پاکستان میں لبرل ازم اور صنفی آزادی کے حصول کے لیے کئی مرتبہ حدود سے تجاوز کرنے والے معاملات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کچھ سال سے ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ 8 مارچ کو عورت مارچ کے نام پر مذہبی، سماجی اور اخلاقی اقدار کو فراموش کرکے ایسی باتیں یا ایسے مطالبات کیے جاتے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے آئین، سماج اور دینِ اسلام کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ ان حالات میں ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے کئی مضبوط اور مربوط اقدامات کرنے ہوں گے۔ شراب، بدکاری اور سودی لین کے خاتمے کے لیے ملک کے اربابِ اقتدار کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ اسی طرح جرم وسزا کے نظام کو بھی مؤثربنانے کی ضرورت ہے۔ کچھ ہفتہ قبل میں نے اپنے کالم میں خان محمد مری پر ہونے والے ظلم کے حوالے سے بعض گزارشات تحریر کی تھیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سانحۂ بارکھان کے حوالے سے تاحال کوئی مؤثر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ہمارے ملک میں یہ تاثر عام ہے کہ ا س ملک کے قانون کا شکنجہ غریبوں اور مظلوم طبقات کے لیے ہے جبکہ با اثر، طاقتور اور دولتمند افراد اکثر وبیشتر قانون کے شکنجے سے بچ نکلتے ہیں۔ حالانکہ اس حوالے سے نبی کریمﷺ کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں جب بنومخزوم کی فاطمہ نامی عورت نے چوری کی تو آپﷺ نے اس پر چوری کی حد لاگو کرنے کا حکم فرمایا۔ آپﷺ کے پاس سفارش کی گئی لیکن آپﷺ نے سفارش کو سختی سے مسترد کر دیا تھا۔ یہ واقعہ صحیح بخاری میں کچھ اس انداز سے مذکور ہے:
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بنت اسود) نے (غزوۂ فتح کے موقع پر) چوری کر لی تھی، اس کے معاملے نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملے پر رسول اللہﷺ سے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپﷺ کو بہت عزیز ہیں‘ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا؛ چنانچہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے اس بارے میں کچھ کہا تو آپﷺ نے فرمایا: اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپﷺ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا (جس میں) آپﷺ نے فرمایا: پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے، اللہ کی قسم! اگر میری بیٹی بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔
ملک کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے اربابِ اقتدار کو مؤثر حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ ملکی خزانے کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث کسی بھی فرد کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں صنعتوں کو فروغ دینا چاہیے اور ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کی وسعت کے لیے بھی حکومت کو نمایاں کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں تعلیم اور تعلم پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور اس اعتبار سے انہوں نے بزنس، انجینئرنگ اور دیگر ڈیپارٹمنٹس میں خاطر خواہ ترقی کی ہے۔ اس کے برعکس اس وقت ہمارے ملک کی حالت یہ ہے کہ ملک کے ذہین، تجربہ کار اور پیشہ ور افراد بڑی تعداد میں امیگریشن لے کر ملک کو خیرباد کہتے چلے جا رہے ہیں جس سے ملک بہت بڑی تعداد میں مؤثر افرادی قوت سے محروم ہو رہا ہے۔ ہمیں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم فقط انفراسٹرکچر پر توجہ دے کر بھارت کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے بلکہ ہمیں اس حوالے سے اپنے نظریاتی تشخص پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کیونکہ ایک نظریاتی ریاست کا سب سے بڑا اثاثہ اس کا نظریہ ہوتا ہے اور یہ معاشرے میں جڑائو کا کام کرتا ہے۔ اگر نظریۂ پاکستان پر عملداری کو یقینی بنایا جائے اور جرم وسزاکے نظام کو مؤثر بنا کر اس ملک کی فلاح وبہبود کے لیے صنعتوں کا جال پورے ملک میں بچھایا جائے اور ملک میں کام کے طلبگار لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں‘ نیز ذہین افراد کی حوصلہ شکنی کرنے سے گریز کیا جائے تو ملک کے اقتصادی حالات بہت تیزی سے بہتری کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ ان باتوں پر اربابِ اقتدار کو خصوصی توجہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ پاکستان کو ایک مستحکم ریاست میں تبدیل کیا جا سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کو ترقی اور استحکام کے راستے پر گامزن کرے، آمین !