"AIZ" (space) message & send to 7575

ماہِ رمضان کے بعد نیکیوں کا تسلسل

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو کیوں پیدا کیا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا صحیح جواب فقط کتاب و سنت پر غور و فکرکرنے ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ذاریات کی آیت نمبر 56 میں انسانوں کی تخلیق کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ العصر میں بھی انسانوں کی کامیابی کے اُمور کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ عصر میں ارشاد فرماتے ہیں: ''قسم ہے زمانے کی‘ یقینا انسان خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے، اور ایک دوسرے کو وصیت( تلقین) کی صبر کی‘‘۔ سورۂ عصر کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کامیابی ایمان اور عملِ صالح کو قرار دیا ہے۔ ایمان درحقیقت ان غیبی اُمور پر یقین رکھنے کا نام ہے جن کی اطلاع ہمیں قرآنِ مجید اور احادیث طیبہ کے مطالعے سے حاصل ہوئی۔ جہاں تک تعلق ہے عملِ صالح کی اہمیت کا‘ تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الملک کی دوسری آیت میں موت و حیات کے مقصد کو واضح فرمایا کہ موت و حیات کی تخلیق کا مقصد ہی انسان کے اعمال کو جانچنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ملک کی آیت نمبر 2 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''(وہ) جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو تاکہ وہ آزمائے تمہیں (کہ) تم میں سے کون زیادہ اچھا ہے عمل کے لحاظ سے، اور وہی غالب اور خوب بخشنے والاہے‘‘۔
کتاب و سنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اعمال کی قبولیت کی دو شرائط ہیں؛ پہلی شرط یہ کہ اعمال کو انجام دیتے ہوئے انسان کی نیت نیک ہو، اور اس کے عمل میں ریاکاری اور دکھلاوے کا عنصر موجود نہ ہو۔ صحیح بخاری کی پہلی حدیث میں بھی اس بات کو واضح کر دیا گیا ہے کہ ''بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔ جبکہ اعمال کی قبولیت کی دوسری شرط یہ ہے کہ وہ اعمال نبی کریمﷺ کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق ہوں۔ اگر اعمال میں یہ دونوں شرائط موجود ہوں تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں وہ اعمال مقبول بن جاتے ہیں۔ ایمان و عمل میں ترقی کے لیے انسان کو جہاں کتاب و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے اور علم بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے وہیں اس حوالے سے اچھا اور سازگار ماحول بھی ملنا چاہیے۔ اچھے ماحول کے نتیجے میں انسان کے ایمان و عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے مدمقابل برے ماحول کی وجہ سے انسان کی ایمانی کیفیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے اعمال کا حلیہ بگڑ جاتا ہے؛ چنانچہ انسان کو اپنی عملی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ان مواقع کو غنیمت جاننا چاہیے کہ جو مواقع اس کو ایمان اور عمل صالح کے حوالے سے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔بیت الحرام اور مسجد نبوی اور مسلمانوں کی دیگر مساجد میں جانے والے شخص کو ایک ایسا ماحول ملتا ہے جس سے اس کے ایمان اور عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سال کے بعض ایام ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو عملِ صالح کی خوب رغبت دلاتے ہیں۔ ان ایام میں ایام ذی الحجہ اور رمضان المبارک کے ایام سرفہرست ہیں۔ رمضان المبارک کے مہینے کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نزولِ قرآن کی وجہ سے یہ شرف عطا کیا کہ اس مہینے کے روزوں کو اُمت مسلمہ پر لازم کر دیا گیا۔
رمضان المبارک کے مہینے میں رکھے جانے والے روزوں میں چند گھنٹوں کے لیے انسان کھانے، پینے اور جائز نفسانی خواہشات کو دباتا ہے۔ لیکن درحقیقت اس عمل کے ذریعے انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو مدنظر رکھتے ہوئے برے اعمال کو بجا لانے سے محفوظ رہنے کی صلاحیت بھی اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے۔ حدیث طیبہ کے مطابق جب انسان ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ اسی طرح رمضان المبارک کے مہینے میں خصوصیت سے قیام اللیل کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور جو شخص بھی ایمان اور ثواب کی نیت رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی سابقہ خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ رمضان المبارک میں زکوٰۃ، صدقہ، خیرات اور انفاق فی سبیل للہ کا بھی خصوصیت سے اہتمام کیا جاتا ہے اور غربا، مساکین اور مستحقین تک مالی امداد پہنچانے کے ساتھ ساتھ مدارس دینیہ، علاج و معالجہ کے مراکز کی بھی دل کھول کر مدد کی جاتی ہے۔ رمضان المبارک میں لوگ بکثرت اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرتے اور اپنے گناہوں پر آنسو بہاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات غفور و الرحیم ہے اور انسان نے خواہ کتنے ہی گناہ کیوں نہ کیے ہوں‘ اگر انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں مخلص ہوکر اپنے گناہوں پر معافی طلب کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے جملہ گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
اسی طرح رمضان المبارک میں متمول اور صاحبِ حیثیت لوگ عمرے کی ادائیگی کے لیے بیت الحرام کا قصد کرتے ہیں۔ حدیث طیبہ کے مطابق رمضان المبارک میں کیے جانے والے عمرے کا اجر رسول اللہﷺ کی معیت میں کیے جانے والے حج کے ثواب کے برابر ہے۔ اسی طرح رمضان المبارک کے مہینے میں لوگ اعتکاف کرتے ہیں جس کا ایک بڑا مقصد جہاں خلوت میں اپنے مقصدِ تخلیق پر غور و خوض کرنا‘ اپنے گناہوں کو مدنظر رکھ کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑانا ہے‘ وہیں اس کا ایک بڑا مقصد لیلۃ القدر کو پانے کی جستجو کرنا بھی ہے۔ لیلۃ القدر میں ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینے کی راتوں کی عبادت سے بہتر ہے۔
ہر سال رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے اور بڑی تیزی سے رخصت ہو جاتا ہے۔ نیکیوں کا موسم بہار جب ہم سے الوداع ہوتا ہے تو عید کی خوشیاں اہلِ اسلام کے دروازوں پر دستک دے رہی ہوتی ہیں۔ جو لوگ اچھے طریقے سے رمضان المبارک میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادات کو بجالاتے ہیں‘ خوشی کے یہ لمحات یقینا ان کی مسرتوں کو دوبالا کر دیتے ہیں۔ لیکن بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ رمضان المبارک کے بعد اس ماہِ مقدس میں حاصل کیے جانیوالے دروس کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ حالانکہ عید کے بعد انسان کو ان دروس کو پوری طرح اپنی زندگیوں میں داخل و نافذ کرنا چاہیے‘ جن دروس کو اس نے رمضان المبارک کے ماہِ مبارک میں حاصل کیا ہوتا ہے۔
گو سارا سال انسان روزے تو نہیں رکھ سکتا لیکن رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو پورے سال کے روزوں کا ثواب عطا فرما دیتے ہیں۔ اسی طرح ہر قمری مہینے کی 13، 14 اور 15 تاریخ اور ہر ہفتے پیر اور جمعرات کا روزہ بھی نبی کریمﷺ کی سنت مبارک سے ثابت ہے اور یہ عمل انسان کی نیکیوں میں بہت زیادہ اضافے کا باعث بنتا ہے۔ یومِ عرفہ اور یومِ عاشور کا روزہ رکھنا بھی مسنون ہے۔ یومِ عاشور کا روزہ رکھنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے گزشتہ ایک برس کی خطاؤں کو معاف کر دیتے ہیں اور یومِ عرفہ کے روزے کی برکت سے گزشتہ ایک برس کے گناہوں کے ساتھ ساتھ آئندہ ایک برس کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔رمضان المبارک کے مہینے میں انسان کو قرآنِ مجید کے ساتھ تعلق استوار کرنے کا موقع ملتا ہے مگر رمضان المبارک کے مہینے کے بعد قرآنِ مجید کی تلاوت، اس پر تدبر، عمل، تبلیغ اور اس کے قیام و نفاذ کے لیے جو ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے‘ مسلمان اُس ذمہ داری کو فراموش کرکے اپنے روزگار اور معیشت کے معاملات کو ترجیحی بنیاد پر چلانا شروع کر دیتے ہیں۔رمضان المبارک کے بعد بھی انسان کو قیام اللیل کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے‘ اس لیے کہ تہجد یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت کے حصول اور نیکیوں کے راستے پر چلنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس نفلی عبادت کی ادائیگی کی وجہ سے انسان اپنی مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑا کر اس کو راضی کرنے کی جستجو کرنے میں اسے کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔
انسان کو ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے اور ہر آن اور ہر لحظہ اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کرنے کی جستجو کرنی چاہیے۔ رمضان المبارک میں انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کو جس طرح یاد کرتا اورا س کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے‘ اسی طرح سال کے باقی ماندہ ایام میں بھی اس جستجو کو جاری رکھنا چاہیے۔ توبہ و استغفار کی برکت سے انسان کی زندگی میں خوشیاں، برکتیں اور نعمتیں فراواں انداز میں داخل ہوتی ہیں۔ سورہ نوح کی آیات 10 تا 12 میں اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کی بات کو یوں بیان فرماتے ہیں: ''تو میں نے کہا: بخشش مانگو اپنے رب سے، بے شک وہ بہت زیادہ بخشنے والاہے، وہ بھیجے گا بارش تم پر موسلادھار اور وہ مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ پیدا کرے گا تمہارے لیے باغات اور جاری کر دے گا تمہارے لیے نہریں‘‘۔
انفاق فی سبیل للہ یقینا بہت کثیر اجر و ثواب کا کام ہے اور سورۃ البقرہ کے مطابق مسلسل انفاق کرنے سے انسان کے غم اور خوف دور ہو جاتے ہیں۔ رمضان المبارک میں لوگ جس طرح انفاق فی سبیل للہ کا التزام کرتے ہیں‘ یہ عمل رمضان المبارک کے بعد بھی جاری و ساری رہنا چاہیے تاکہ انسان اپنی زندگی میں آنے والے خوف اور غموں پر قابو پانے میں حقیقتاً کامیاب ہو سکے۔ انسان کو اپنی موت کے دن تک اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے جستجو کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 110 میں انسانوں کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ ان کو اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے تقویٰ کو اختیار کرنا چاہیے اور انہیں اسلام پر مرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اگر انسان نیکیوں کے موسم بہار کے چلے جانے کے بعد بھی اعمالِ صالحہ کے معاملات کو جاری و ساری رکھے تو یقینا اس کی زندگی کے روگ اور غم دور ہو سکتے ہیں اور وہ دنیا و آخرت کی کامیابیوں اور کامرانیوں سے بھی ہمکنار ہو سکتا ہے، ان شاء اللہ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں