یہ سوال مختلف علوم کے ماہرین کے درمیان ہمیشہ سے زیرِ بحث رہا ہے کہ انسانوں کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ مختلف ماہرین اس کا جواب اپنے اپنے انداز سے دیتے ہیں لیکن اس سوال کا درست جواب ہمیں کتاب وسنت کے عمیق مطالعے کے بعد ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حوالے سے بہت سے اہم ارشادات فرمائے اور اس شبہ کا ازالہ کیا کہ زمین و آسمان اور اس کے مابین جو کچھ بھی تخلیق کیا گیا ہے اس کو بلا مقصد تخلیق نہیں کیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المومنون کی آیت نمبر 115 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''تو کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ بے شک ہم نے پیدا کیا تمہیں بے مقصد (ہی) اور یہ کہ بے شک تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے حوالے سے اس بات کو بھی واضح فرما دیا کہ نظامِ ہستی کو کھیل تماشے کے لیے نہیں بنایا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 16میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور نہیں ہم نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کھیلتے ہوئے(یعنی بے مقصد پیدا نہیں کیا)‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تخلیق کے حقیقی مقصد کو سورۃ الذاریات کی آیت نمبر 56 میں نہایت وضاحت سے کچھ یوں بیان فرمایا: ''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔
عبادات کا یہ سلسلہ انسان کی پوری زندگی جاری وساری رہنا چاہیے اور اس حوالے سے انسان کو استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں بہت سی عبادات کو انسان کو تسلسل سے ادا کرنے کا حکم دیا‘ وہیں انسان کے لیے کئی ایسے مواقع بھی پیدا کیے جہاں پر عبادات کے اجروثواب میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے؛ چنانچہ اگر انسان اپنے علاقے کی مسجد میں باجماعت نماز ادا کرے تو اُس کو 27 نمازوں کو ادا کرنے کا ثواب ملتا ہے لیکن اگر انسان بیت اللہ شریف میں جا کر باجماعت نماز ادا کرے تو اس کو 27 لاکھ نمازوں کی ادائیگی کے برابر اجرو ثواب ملتا ہے۔ گویا کہ مقامات کی تبدیلی سے نماز کے اجروثواب میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح بعض اوقات او رایام ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں کی جانے والی عبادات کا اجروثواب دیگر ایام اور اوقات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رمضان المبارک کی طاق راتوں کو یہ مقام عطا کیا ہے کہ جو شخص رمضان المبارک کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں لیلۃ القدر کی جستجو کرتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کو ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ اجر و ثواب عطا فرماتے ہیں‘ بالکل اسی طرح ذی الحج کے ایام کو یہ مقام حاصل ہے کہ جو شخص ان ایام میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کو دیگر ایام کے مقابلے میں بہت زیادہ اجر و ثواب عطا فرماتے ہیں۔ ذی الحج کے دس ایام کے حوالے سے ایک اہم بات کو اپنے ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایام ذی الحج کو جو فوقیت عطا کی اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق ان چار مہینوں میں سے ایک کے ساتھ ہے کہ جن مہینوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو کلام حمید میں بڑے ہی واضح انداز سے بیان فرمایا کہ جب سے زمین وآسمان کو تخلیق کیا گیا ہے اس وقت سے چار ـمہینے حرمت والے ہیں۔ احادیث طیبہ کے مطالعے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ محرم، رجب، ذوالقعدہ اور ذوالحج ان مہینوں میں شامل ہیں کہ جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کی فضیلت دوسرے مہینوں کے مقابلے میں زیادہ اور ان مہینوں میں کی جانے والی نافرمانی کا وبال دوسرے مہینوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے؛ چنانچہ سورۃ التوبہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ ایمان کو حکم دیا ہے کہ ان مہینوں میں اُن کو اپنی جانوں پر ظلم نہیں کرنا چاہیے۔
ان مہینوں میں سے ذوالحج کے ابتدائی دس دنوں کو اس لیے امتیازی شان عطا کی گئی ہے کہ ا س مہینے کی 9تاریخ کو حج کا ایک عظیم رکن‘ عرفات میں وقوف ہوتا ہے اور اس وقوف کے دوران اللہ تبارک وتعالیٰ مناسکِ حج ادا کرنے والے لاکھوں کی تعداد میں حاجیوں کی تمام خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ 9 ذی الحجہ کو روزہ رکھنے والے کروڑوں غیر حاجیوں کے گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک برس کے گناہوں کو بھی معاف فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یومِ عرفہ ہی کے دن دین اسلام کو مکمل فرما کر انسانیت کی فلاح کے واحد راستے کے طور پر اسے پسند فرمایا تھا۔ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر3 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''آج (کے دن) میں نے مکمل کر دیا ہے تمہارے لیے تمہارا دین اور میں نے پور ی کردی ہے تم پر اپنی نعمت اور میں نے پسند کیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین‘‘۔
اس مہینے کی 10 تاریخ کو منیٰ میں یوم النحر اور دنیا بھر میں عید الاضحی منائی جاتی ہے۔ اور اس دن دنیا بھر میں کروڑوں کی تعداد میں اونٹ، گائیں، بھیڑ، بکریاں، دنبے اور چھترے ذبح کیے جاتے ہیں اور ان جانوروں کے گلے پر چھری چلاتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام لیا جاتا اور تکبیر بلند کی جاتی ہے۔ عبادت کی اس خاص قسم کو بجا لانے کی وجہ سے جہاں اُخروی کامیابی کے دروازے کھلتے ہیں‘ وہیں اس عبادت کی وجہ سے غریب غربا کی بھوک مٹانے اور دوست احباب و اعزہ واقارب کو خوش دلی سے کھانا کھلانے کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس طرح لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر قرآ نِ مجید کا نزول فرمایا تو اُس رات کو قدر والی رات (لیلۃ القدر) ہونے کا اعزاز حاصل ہوااور اس نزول کی وجہ سے فقط لیلۃ القدر ہی کو مقام حاصل نہیں ہوا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ماہِ رمضان المبارک کے روزوں کو اُمت مسلمہ پر لازم کر دیا‘ اسی طرح 9 اور 10 تاریخ کو کی جانے والی غیر معمولی عبادات کی وجہ سے پورے عشرہ ذی الحجہ کو ہی محترم و مقدم بنا دیاگیا۔ قرآنِ مجید کی سورۃ الفجر کی پہلی دو آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں '' قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی‘‘۔ مفسرِ اُمت حضرت عبداللہ بن عباسؓ سمیت مفسرین کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک ان دس راتوں سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زمانے بھر میں عشرہ ذی الحجہ سے افضل کوئی دن نہیں۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں یہ بھی بیان ہوا کہ دنیا کے سب سے افضل دن یہ دس دن یعنی عشرہ ذی الحجہ ہیں۔
عشرہ ذوالحج کے دوران ہمیں اللہ تعالیٰ کی بندگی کا بھر پوراہتمام کرنا چاہیے۔ مسند احمد میں ایک حدیث کے راوی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''اللہ کی نظروں میں ان ایام سے زیادہ افضل کوئی بھی دن نہیں کہ جن میں کیے جانے والے نیکی کے کام ان ایام میں کیے جانے والے نیکی کے کاموں سے زیادہ اللہ کو محبوب ہوں‘‘؛ چنانچہ ان دنوں میں بکثرت تسبیح‘تہلیل‘ تکبیر اور تحمیدکرنی چاہیے۔ خاص یوم عرفہ کے حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ اس دن کی بہترین دعا جو نبی کریم اورآپﷺ سے پہلے انبیاء کرام کا ذکر ہے‘ وہ ''لاالٰہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیٌ قدیر‘‘ ہے۔
یوم عرفہ کی فضیلت تو واضح ہے کہ اس دن روزہ رکھنے والے کے گزشتہ اورآئندہ آنے والے برس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘لیکن باقی ایام ذوالحج میں بھی روزہ رکھنا بھی باعثِ ثواب ہے۔ سنن نسائی اور سنن ابی داؤد میں حدیث مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوالحج کے ابتدائی نو دن اور یومِ عاشورکا روزہ رکھا کرتے تھے۔
ان ایام میں کثرت سے توبہ واستغفارکا اہتمام بھی کرنا چاہیے تاکہ ہماری زندگی میں ہمارے گناہوں کی وجہ سے آنے والی تکالیف اور پریشانیوںکا خاتمہ ہو جائے اور اخروی فلاح ونجات ہمارا مقدر بن جائے۔ ان ایام میں کیے جانے والے نیکی کے کاموں میں سرفہرست عمرہ اور حج ہیں۔ عمرہ اور حج بکثرت کرنے سے جہاں انسان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں‘وہیں اس کے رزق میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ان ایام میں کیے جانے والا آخری اہم کام جانوروں کی قربانی ہے۔ قربانی کا مقصد دکھلاوے کے بجائے اللہ کی خوشنودی کا حصول ہوناچاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحج کی آیت نمبر 37 میں اعلان فرمایاکہ ''اللہ تعالیٰ کو ہرگز جانوں کا گوشت اور لہو نہیں پہنچتا‘بلکہ اس کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
سنتِ نبوی شریف سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ عشرہ ذوالحج کی آمدکے بعد‘ جس نے قربانی کرنی ہو‘ اس کو اپنے بال اور ناخن نہیں کاٹنے چاہئیں۔ صحیح مسلم شریف‘ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی میں حدیث مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''جس شخص کے پاس قربانی کا جانور ہو‘جسے وہ ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو‘جب ذوالحج کا چاند نظر آجائے‘تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے‘ یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں قربانی کر لے‘‘۔
ایام ذی الحجہ اپنے جلو میں برکات‘ مغفرت اور رحمتِ باری تعالیٰ کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ ہمیں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ بندگی اور عبادات کا اہتمام کرکے اپنے پروردگارکو راضی کرنا چاہیے تاکہ ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے، آمین!