کسی بھی معاشرے کی ترقی اور استحکام کے لیے معاشرے میں تعلیم اور صحت کا معیار بلند ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جس معاشرے کے لوگ تعلیم یافتہ اور صحت مند ہوں وہ معاشرہ یقینا دوسرے معاشروں کے مقابلے میں ممتاز ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ملکی ترقی اور استحکام کے حوالے سے مختلف طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کا ایک طبقہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی دانست میں معاشرے کو ترقی دینے کے لیے اسلامی اور مشرقی تہذیب کو یورپ سے ہم آہنگ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس طبقے کی سوچ وفکر یہ ہے کہ اگر ہم تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے اہلِ مغرب کے ہم آہنگ ہو جائیں تو شاید ہمارا شمار بھی ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگے۔ چنانچہ اس مخصوص طبقے کی جانب سے ہمارے ملک میں ایک عرصے سے آزاد خیالی، تجدد پسندی، بے پردگی اور اس قسم کے دوسرے معاملات کو فروغ دینے کی کوششیں جاری وساری ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران عورت مارچ کے نام پر ملک میں کئی مرتبہ ایسے پروگراموں کا انعقاد کیا گیا جن میں اس قسم کے نعروں اور ایجنڈے کو پیش کیا گیا جو کسی بھی طور پر اسلامی اور مشرقی تہذیب سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ ان پروگراموں میں کئی مرتبہ نکاح کے مقدس بندھن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اخلاقی اور شرعی حدودو قیود سے آزادی کو ترقی کے ساتھ مشروط کیا گیا۔ یہ رویے کسی بھی طور پر درست نہیں ہیں۔ اس قسم کے معاملات کو فروغ دینے سے پاکستان جیسے ملک کی نظریاتی اساس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ عورت مارچ کے ساتھ ساتھ اس ملک میں ٹرانس جینڈربل جیسے بلوں کو پیش کرکے نئی بحث کا آغاز کیا گیا۔ ٹرانس جینڈر بل درحقیقت مخنث افراد کے حقوق کی بحالی کے لیے پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ کوئی بھی مرد اپنی مرضی کے ساتھ عورت اور کوئی بھی عورت اپنی مرضی سے مرد بن کر زندگی گزار سکتی ہے۔ اس قسم کے تصورات کو مختلف طرح کے ٹی وی پروگراموں ، ڈراموں اور تشہیر ی مہموں کے ذریعے بھی فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔ ٹرانس جینڈر اور ہم جنس پرستی جیسے معاملات کی یقینا کسی بھی مسلم معاشرے میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جہاں زنا کے قریب جانے سے منع کیا ہے اور فحاشی اور بے حیائی کے کاموں سے روکا ہے‘ وہیں خصوصیت سے ہم جنس پرستی جیسے اُمور کی بھی بھرپور انداز میں مذمت کی ہے۔
قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم کے واقعے کو بڑی شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ہود کی آیات 77تا 83میں قومِ لوط پر آنے والے عذاب کی کیفیت بیان فرماتے ہیں: ''اور جب آئے ہمارے قاصد (فرشتے) لوط کے پاس‘ وہ مغموم ہوا ان کی وجہ سے اور تنگ ہوا ان کی وجہ سے (اپنے) دل میں اور کہا (کہ) یہ دن بہت سخت ہے۔ اور آئے اس کے پاس اس کی قوم (کے لوگ) (گویا کہ) وہ سختی سے ہانکے جا رہے تھے اس کی طرف اور پہلے سے ہی برے کام کیا کرتے تھے۔ اس (حضرت لوط علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم! یہ میری (قوم کی) بیٹیاں ہیں‘ وہ زیادہ پاکیزہ ہیں تمہارے لیے تو اللہ سے ڈرو اور نہ رسوا کرو مجھے میرے مہمانوں میں‘ کیا نہیں ہے تم میں کوئی بھلا آدمی؟ انہوں نے کہا: بلاشبہ تو جان چکا ہے (کہ) نہیں ہے ہمارے لیے تیری (قوم کی) بیٹیوں میں کوئی حق (رغبت) اور بے شک تو جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اس نے کہا: کاش! واقعی ہوتی میرے لیے تمہارے مقابلے کی طاقت یا میں پناہ لیتا کسی مضبوط سہارے کی طرف۔ انہوں (فرشتوں)نے کہا: اے لوط! بے شک ہم قاصد ہیں تیرے رب کے‘ ہرگز نہیں وہ پہنچ سکیں گے آپ تک‘ سو لے چل اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصے میں اور نہ پیچھے مڑ کر دیکھے تم میں سے کوئی ایک‘ سوائے تیری بیوی کے‘ بے شک یہ (یقینی بات ہے کہ) پہنچنے والا ہے اسے (وہ عذاب) جو پہنچے گا انہیں‘ بے شک ان کے وعدے کا وقت صبح ہے‘ کیا نہیں ہے صبح بالکل قریب؟ پھر جب آیا ہمارا حکم تو ہم نے کر دیا اس (بستی) کے اوپر والے حصے کو اس کے نیچے والا اور ہم نے برسائے اس (بستی) پر پتھر کھنگر (کی قسم) سے تہ بہ تہ۔ (جو) نشان زدہ تھے تیرے رب کے ہاں سے اور نہیں وہ (بستی اِن) ظالموں سے ہرگز دور‘‘۔
اس قسم کی تنبیہات کے باوجود ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ترقی پسندی کے نام پر بے حیائی کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ اخلاق باختہ ویب سائٹس کی وجہ سے نوجوان نسل کی اخلاقیات کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ ایسی ویب سائٹس پر پابندی لگانے میں تساہل اور سینما ہالوں اور فلموں کے فروغ کی بات کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے محدود وسائل کا ایک بڑا حصہ حکومت، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور دیگر اداروں میں موجود افراد کی سہولتوں پر صرف ہوتا ہے اور عوامی ٹیکس کے ایک بڑے حصے کو تفریح اور فلمی صنعت کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کی باتیں بھی اکثر سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ حکومت نے حالیہ بجٹ میں سینما گھروں کی آمدن پر نہ صرف یہ کہ کوئی ٹیکس نہیں لگایا بلکہ اگلے دس سال کے لیے سینما گھروں کو ٹیکس فری کر دیا ہے جبکہ فلم کے شعبے کو بہت سی مراعات بھی دی ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ترقی پذیر ملک میں بجٹ کے ایک بڑے حصے کو صحت اور تعلیم کے فروغ کے لیے کیوں خرچ نہیں کیا جاتا ۔ اگر ملک میں صحیح معنوں میں منظم اور مستحکم تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک میں قابل اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کی تعداد میں اضافہ نہ ہو۔ ملک میں تعلیمی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ لوگ جو اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کے بل بوتے پر تعلیمی حوالے سے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں‘ اُن کی اس انداز میں حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ وہ ملک میں رہنے کے بجائے بیرونِ ملک روزگار کے حصول کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ بیرونِ ملک پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کے لیے امیگریشن کی سہولتیں بھی موجود ہوتی ہیں اور وہ معاشرے اِن ماہرین کے ہنر اور صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے ملک کو مزید مضبوط اور مستحکم بناتے ہیں۔ ذہین افراد کے بیرونِ ملک جانے کی وجہ سے ہم ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ماہرینِ تعلیم اور اچھے اساتذہ کی کوئی کمی نہیں لیکن افسوس کہ تعلیم کے حوالے سے بجٹ میں آج تک اس انداز میں رقم کو مختص نہیں کیا گیا کہ جس انداز میں اُن ممالک میں کیا جاتا ہے جو آج دنیا میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں کا بجٹ دنیا کی مختلف ریاستوں کے بجٹ کے برابر ہے‘ جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ امریکہ کی ترقی درحقیقت اس کی تہذیب کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی ترقی کا حقیقی سبب سائنس اور ٹیکنالوجی کی نشرواشاعت اور فروغ ہے۔ اسی طرح جب ہم صحت کے معاملات بالخصوص دیہی علاقوں میں صحت کی سہولتوں کے معیار پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دیہی علاقوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ صحت کے حوالے سے بھی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ آج بھی دیہی علاقوں میں ڈِلیوری کیسز میں کئی مرتبہ ماں اور بچہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بہت سی عام بیماریوں کا مؤثر علاج بھی دیہات اور شہر وں کے مضافاتی علاقوں میں موجود نہیں ہے۔ طبی سہولتوں کی فراہمی ریاستوں کی ذمہ داری اور معاشرے میں بسنے والے ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔ ہمارے بجٹ میں کبھی بھی صحت کو کلیدی اہمیت نہیں دی گئی۔ پاکستان میں پرائیوٹ سیکٹر میں بہت سے ممتاز طبی ادارے موجود ہیں لیکن یہاں پر ملنے والی سہولتیں غربا اور متوسط طبقے کے لیے نہیں بلکہ ان سے صرف وہی لوگ مستفید ہو سکتے ہیں جو مالی اعتبار سے مستحکم ہیں۔
ہمارے ملک میں تعلیم اور صحت کے معیار کو بہتر بنانا انتہائی ضروری ہے۔ اگر معاشرے میں صحت اور تعلیم کا معیار بہتر ہوتو پاکستان بہت جلد ترقی کے مدارج کو طے کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے لیکن بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ ہماری ترجیحات کا تعین درست نہیں ہے اور ہم عارضی طور پر مغربی ممالک ،مغربی اداروں اور این جی اوز کی امداد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے تمدنی، تہذیبی اور ثقافتی ڈھانچے کو خود اپنے ہاتھوں سے کھوکھلا کرتے جاتے ہیں۔ اس کے پس منظر میں حکومتوں کی غلط ترجیحات بھی کارفرما ہوتی ہیں جو کسی بھی طور غیرملکی امداد کو حاصل کرنے کے لیے ہر اخلاقی اور تہذیبی معیار پر سمجھوتا کرنے کے لیے آمادہ وتیار ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کے اربابِ اختیار کو ان معاملات پر ازسرنو غوروخوض کرنے کی ضرورت ہے اور ملک کی ترقی کے لیے تعلیم اور صحت کو ترجیحی بنیادوں پر اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ اگر اربابِ اختیار اور ملک کے معاملات کو چلانے والے اِن اُمور پر توجہ دیں تو یقینا پاکستان حقیقی معنوں میں ایک مستحکم اور مضبوط ریاست کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو ایک مضبوط اور مستحکم اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل فرمائے، آمین!