انسانی معاشرے عرصۂ دراز سے مختلف طرح کے بحرانوں کا شکار ہیں۔ ان بحرانوں سے باہر نکلنے کے لیے انسان اپنے وسائل اور توانائیوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا کہ بھرپور کوششوں کے باوجود انسان کئی مرتبہ ان بحرانوں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ غم اور مصائب سے نجات حاصل کرنا ہر انسان کی خواہش ہے۔ انسان کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب یا قوم سے ہو‘ وہ خوش اور مطمئن رہنا چاہتا ہے لیکن اس کے باوجود اس حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد اضطراب،بے قراری اورمایوسی کا شکار ہے اور کئی مرتبہ انسان پوری زندگی پریشانیوں،الجھاؤ اور بے قراریوں میں گزار دیتا ہے۔ ان مصائب سے باہر نکلنے کے لیے ماہرین اپنے اپنے انداز میں مختلف طرح کی تجاویز دیتے ہیں لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ غموں اور پریشانیوں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ کئی لوگوں کی پریشانی کی وجوہات توسمجھ میں آتی ہیں کہ وہ معاشی مسائل یا بیماریوں سے دوچار ہوتے ہیں لیکن اس بات کا مشاہدہ کرنا بھی کچھ مشکل نہیں کہ بہت سے لوگ اچھی صحت اور کثرتِ وسائل کے باوجود مسلسل الجھاؤ اور پریشانیوں کا شکار رہتے ہیں۔
انسانوں کو درپیش پریشانیوں اور تکالیف سے نجات کے لیے بعض ماہرین مختلف طرح کی تجاویز دیتے رہتے ہیں لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ انسان بحرانوں سے کلی طور پر نبردآزما ہونے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ شریعتِ اسلامیہ نے اس حوالے سے انسانوں کی بھرپور انداز میں رہنمائی کی ہے۔کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ نے انسانوں کو فطرت پر پیدا کیا ہے اور انسانوں کو نیکی اور بدی کے راستوں کی تمیز بھی سمجھائی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ البلدکی آیات 8 تا 10 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کیا نہیں ہم نے بنائی اس (انسان) کے لیے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ‘ اور ہم نے دکھا دیے اسے (خیر و شر کے) دونوں راستے ‘‘۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کو غور و فکر کرنے کی صلاحیت دی ہے اور گفتگو کرنے کا ملکہ بھی عطا کیا ہے۔لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان ان صلاحیتوں کو درست طریقے سے استعمال نہیں کرتا۔اگر انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بصیرت کو بروئے کار لائے تو اپنے مصائب اور مشکلات کی جڑ تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں انسانوں کے مسائل اور مشکلات کے اسباب اور ان کے حل کے حوالے سے نہایت واضح رہنمائی کی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کلامِ حمید میں اس بات کو واضح فرماتے ہیں کہ جب انسان اپنی فطرت سے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات سے انحراف کرتا ہے تو مختلف طرح کے مصائب اس کو گھیرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو (بھی)تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ درگزر کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے‘‘۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اجتماعی گناہوں کی عقوبت کے حوالے سے سورۃ الروم کی آیت نمبر 41 میں ارشاد فرمایا: ''فساد ظاہر ہو گیا خشکی اور سمندر میں اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے تاکہ (اللہ )مزہ چکھائے انہیں بعض (اس کا )جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں (یعنی باز آ جائیں)‘‘۔ جب انسان اس حقیقت کو سمجھنے کی قابل ہو جاتا ہے کہ اس کی زندگی میں آنے والے مصائب اور مشکلات کی بڑی وجہ اس کے اپنے گناہ ہیں تو پھر ان گناہوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے بھی مختلف طرح کی تدابیر پر غور و فکر کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔اگر انسان ان مسائل کو اپنے زورِ بازو سے حل کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا‘ اس لیے کہ انسان کی طاقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طاقت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 165میں فرماتے ہیں: ''بے شک قوت تو اللہ کے پاس ہے تمام‘‘۔
اسی طرح کلامِ حمید کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی صاحبِ مال کیوں نہ ہو‘ وہ اپنے مال کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ کی گرفت سے بچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔اس حقیقت کو سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 91 میں کچھ یوں بیان کیا گیا: ''بے شک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور مر گئے اس حال میں کہ وہ کافر تھے‘ تو ہرگز نہیں قبول کیا جائے گا ان میں سے کسی ایک سے (اپنے بچاؤ کے لیے )زمین بھرسونا اور اگرچہ وہ بطور فدیہ اسے (دینا چاہے) یہی لوگ ہیں (کہ )ان کے لیے دردناک عذاب ہے اور نہیں ہے ان کا کوئی مددگار‘‘۔ کلامِ حمید کے مطالعے سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وہ انسان جو اپنی طاقت اور سرمائے کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے آنے والی گرفت پر قابوپانے میں ناکام رہتا ہے‘ جب وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں آکے اپنے آنسوؤں کو گراتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتے اور اس کے مصائب کو بھی دور فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کو اُمید دلاتے ہوئے سورۃ الزمر کی آیت نمبر 53 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آپ کہہ دیجیے اے میرے بندو !جنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر‘ نا امید نہ ہو جاؤ اللہ کی رحمت سے‘ بے شک اللہ بخش دیتا ہے سب گناہوں کو‘ بے شک وہ بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے‘‘۔
گناہ خواہ کتنے ہی ہلاکت خیز کیوں نہ ہوں‘ انسان اللہ تبارک و تعالیٰ سے جب توبہ کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی رحمتوں کا نزول فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ الفرقان میں تین کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا:شرک،قتل اور زنا۔ یہ تینوں گناہ یقینا بہت بڑے گناہ ہیں مگر جب انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں آ کے توبہ کا طلبگار ہوتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی جملہ خطاؤں کو نیکیوں کے ساتھ تبدیل فرما دیتے ہیں۔ چنانچہ سورۃ الفرقان کی آیات 68 تا 70 میں اس بات کا ذکر کیا گیا: ''اور وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ کسی معبود کو اور نہ وہ قتل کرتے ہیں اس جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ (کام )کرے گا وہ ملے گا سخت گناہ (کی سزا )کو۔دگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن اور وہ ہمیشہ رہے گا اس میں ذلیل ہو کر۔مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور عمل کیا‘ نیک عمل تو یہی لوگ ہیں (کہ )بدل دے گا اللہ ان کے گناہ کو نیکیوں سے اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم کرنے والا ہے‘‘۔
جب اللہ تعالیٰ انسانوں کی خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں تو اس کے نتائج اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی برکھا کی شکل میں نکلتے ہیں؛ چنانچہ توبہ واستغفار کے فوائد بیان کرتے ہوئے سورۂ نوح کی آیات 10 تا 12 میں ارشاد ہوا: ''تو اس (نوح) نے کہا: بخشش مانگو اپنے رب سے بے شک وہ بخشنے والا ہے۔وہ بھیجے گا بارش تم پر موسلا دھار۔ اور وہ مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ (پیدا) کردے گا تمہارے لیے باغات اور (جاری) کر دے گا تمہارے لیے نہریں‘‘۔
حدیث مبارکہ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ توبہ و استغفار کا راستہ فلاح اور نجات کا راستہ ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ انسان سے راضی ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ اس حوالے سے صحیح مسلم کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
حضرت ابوسعید خدری ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''سابقہ اُمتوں میں سے ایک شخص تھا اس نے ننانوے قتل کیے، پھر اس نے زمین پر بسنے والوں میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا،اسے ایک راہب کا پتا بتایا گیا۔ وہ اس کے پاس آیا اور پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں، کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ اس راہب نے کہا: نہیں۔ تو اس نے اسے بھی قتل کر دیا اور اس سے سو قتل پورے کر لیے۔ اس نے پھر اہلِ زمین میں سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا۔ اسے ایک (اور) عالم کا پتا بتایا گیا۔ تو اس نے کہا: اس نے سو قتل کیے ہیں، کیا اس کے لیے توبہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں، اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں سرزمین پر چلے جاؤ، وہاں (ایسے) لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سرزمین پر واپس نہ آئو، یہ بُری سرزمین ہے۔ وہ چل پڑا، یہاں تک کہ جب آدھا راستہ طے کیا تو اسے موت نے آ لیا۔ اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا: یہ شخص توبہ کرتا ہوا اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر کے آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا: اس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا۔ تو ایک فرشتہ آدمی کے روپ میں ان کے پاس آیا، انہوں نے اسے اپنے درمیان (ثالث) مقرر کر لیا۔ اس نے کہا: دونوں زمینوں کے درمیان فاصلہ ماپ لو، وہ دونوں میں سے جس زمین کے زیادہ قریب ہو تو وہ انہی میں سے ہو گا۔ انہوں نے مسافت کو ماپا تو اسے اس زمین کے قریب تر پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا؛ چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا‘‘۔
مذکورہ بالا حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حقیقی فلاح کا راستہ توبہ واستغفار کا راستہ ہے؛ چنانچہ دنیا وآخرت میں سربلندی کے لیے انسان کو توبہ و استغفار کے راستے پر کاربند رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے گناہوں پر معافی مانگنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!