اللہ تبارک و تعالیٰ کی جمیع مخلوقات میں سے انسانوں کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التین کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دو طبقات میں تقسیم کیا۔ ایک وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے ہیں، وہ اس حد تک پستیوں میں گر جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 179 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کیے ہیں جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے، اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے۔ یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں، یہی لوگ غافل ہیں‘‘۔ ان کے مدمقابل وہ لوگ ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسولوں کی اطاعت کرتے ہیں۔ اُن کا ذکر سورۂ نساء کی آیت نمبر 69میں ہوا: ''اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں‘‘۔
انعام یافتہ طبقات یقینا اللہ کی رحمتوں کے حقدار ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نیکو کار شخص شہدا کی عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔اسی طرح شہدا کے مقابلے میں صدیقین کا مقام اعلیٰ ہے جبکہ صدیقین انبیاء کرام کی عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتے جن کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم کلام ہوئے۔ انبیاء کرام علیہم السلام میں سے صاحبِ شریعت رسل اللہ کا مقام اعلیٰ اور افضل ہے۔ رسل اللہ میں سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اولوالعزم رسل اللہ کو سب سے بلند مقام عطا کیا اور اولوالعزم رسل اللہ میں سے محمد رسول اللہﷺ کا مقام سب سے بلند وبالا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو کائنات میں بھیجنے کا مقصد سمجھاتے ہوئے سورۂ نساء کی آیت نمبر 64میں ارشاد فرمایا: ''ہم نے ہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی ذات کو جمیع انسانیت کا مقتدا و پیشوا بنا یا۔ سورۂ سبا کی آیت نمبر 28میں ارشاد ہوا: ''اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لیے خوشخبریاں سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘ ہاـ ں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بے علم ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو جو مقام بلند عطا کیا اُس کا تقاضا یہ ہے کہ آپﷺ کی اُمت کے لوگ آپﷺ سے کامل وابستگی کو اختیار کریں اور آپﷺ کی ذاتِ اقدس سے وابستگی کے حوالے سے جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اُن پر بھرپور توجہ دیں۔ نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے جو ذمہ داریاں اُمت مسلمہ پر عائد ہوتی ہیں اُن میں سے چند اہم ذمہ داریاں درج ذیل ہیں:
1۔ نبی کریمﷺ کی عظمت کا اعتراف: نبی کریمﷺ کی عظمت پر یقین رکھنا ہر مسلمان کی بنیادی دینی ذمہ داری ہے اور کوئی شخص بھی اُس وقت تک مومن و مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کو دیگر انسانوں سے بلند وبالااور اعلیٰ و افضل نہیں سمجھتا۔ نبی کریمﷺ کی عظمت میں یہ بات شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو عالمگیر اور آفاقی رسالت عطا فرمائی اور آپﷺ کی ذاتِ اقدس پر نبوت ورسالت کو تمام کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40میں ارشاد فرماتے ہیں: ''(لوگو) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد (ﷺ ) نہیں لیکن آپ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے اور اللہ ہر چیز کو بخوبی جاننے والاہے‘‘۔ آپﷺ کی عظمت کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہوئے اس بات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ نہ تو آپﷺ سے قبل آپ جیسا آیا اور نہ ہی آپﷺ کے بعد کوئی آپ جیسا ہو سکتا ہے۔
2۔ نبی کریمﷺ سے محبت: نبی کریمﷺ سے ہمیں والہانہ محبت ہونی چاہیے اور دنیا کے تمام رشتوں سے بڑھ کر ہمیں آپﷺ کو محبوب سمجھنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو قرآن مجید میں واضح کر دیا کہ اللہ اور رسول اور جہاد فی سبیل للہ سے بڑھ کر جو شخص بھی کسی اور چیز سے محبت کرتا ہے وہ فسق وفجور کے راستے پر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 24میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے (اور) قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں ‘ تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے، اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں ہر شے سے بڑھ کر اللہ،رسولﷺ اور جہاد فی سبیل للہ سے محبت ہونی چاہیے۔
3۔نبی کریمﷺ کی اتباع: نبی کریمﷺ سے وابستگی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپﷺ کی ہر بات کو بلا چون و چرا تسلیم کیاجائے۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 21میں ارشاد ہوا: ''یقینا تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے‘‘۔ نبی کریمﷺ کی اتباع اللہ تبارک وتعالیٰ کا محبوب بننے کا سبب اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 31میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔
4۔ نبی کریمﷺ کی تعریف و توصیف: نبی کریمﷺ کی تعریف وتوصیف کرنا ہر مسلمان کی ذـمہ داری ہے۔ آپﷺ کی سیرت کا بیان اور آپﷺ کے محاسن کا ذکر کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ حضرت حسان بن ثابت ؓنبی کریمﷺ کی نعت کہتے تھے جس پر نبی کریمﷺ نے آپؓ کی تحسین فرمائی۔ جو شخص نبی کریمﷺ کی نعت پڑھتا یا آپﷺ کی سیرت بیان کرتا ہے یقینا وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس فرمان کی تائید کرتا ہے جو اللہ تبار ک وتعالیٰ نے سورۃ الانشراح کی آیت نمبر 4میں بیان فرمایا: ''اور ہم نے تیرا ذکر بلند کر دیا‘‘۔
5۔ نبی کریمﷺ کی ذات پر درود و سلام بھیجنا: جو شخص بھی نبی کریمﷺ سے وابستگی رکھتا ہے اس پر یہ ذـمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ آپﷺ کی ذات پر درود و سلام بھیجے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود قرآنِ مجید میں اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریمﷺ کی ذات پر درود بھیجتے ہیں اور اہلِ ایمان کو بھی یہ کام کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 56میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بنی پر رحمت (درود) بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو ! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو‘‘۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص نبی کریمﷺ کی ذات پر ایک مرتبہ دردو بھیجتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس پر دس مرتبہ دردو بھیجتے ہیں اور جو مسلسل دردو بھیجتا رہتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کے گناہوں کو معاف کر دیتے اور اُس کی پریشانیوں کو دور فرما دیتے ہیں۔
6۔ توہین کرنے والوں کا احتساب: نبی کریمﷺ سے وابستگی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو اس کا کڑا احتساب کرنے کی کوشش کی جائے۔ شریعت اسلامیہ میں انبیا کرام علیہم السلام کی توہین کی سزا موت مقرر کی گئی ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان کا قانون 295-C بھی حرمتِ رسالت کی ضمانت دیتا ہے اور جو شخص بھی مقدس ہستیوں کی بے حرمتی کرنے کی ناپاک جسارت کرے قانون کے مطابق اس کو سزا دلانے کی جستجو کرنا تمام اہلِ ایمان و اسلام کی ذمہ داری ہے۔ نبی کریمﷺ کی عزت اور ناموس کا خیال کرنا یہ ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الفتح کی آیت نمبر 9میں ارشاد فرماتے ہیں: ''(اے مسلمانو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا ادب کرو‘‘۔
7۔ نبی کریمﷺ کے لائے ہوئے نظام کے قیام کی کوشش: مسلمانوں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے لائے نظام کے قیام کے لیے بھرپور انداز سے کوششیں کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الفتح کی آیت نمبر 33میں واضح فرما دیا: ''اُسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے تمام مذاہب پر غالب کر دے اگرچہ مشرک برا مانیں‘‘۔ نبی کریمﷺ کے عطا کردہ نظام کو جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی زندگی میں غلبہ عطا فرمایا، وہیں آپﷺ کے پیروکاروں اور اـمتیوں پر بھی یہ ذـمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپﷺ سے وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے آپ کے لائے ہوئے نظام کو عملی طور پر قائم کرنے کی کوشش کریں۔ آپﷺ کا نظام ہی درحقیقت تمام مشکلات کا حل اورتمام مصائب سے نجات کا ذریعہ ہے۔ معاشرے کی تمام الجھنیں اسی صورت میں دور ہو سکتی ہیں جب نبی کریمﷺ کے نظام کو معاشرے میں قائم کیا جائے۔
رسول اللہﷺ سے وابستگی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اُن تمام ذرائع کو اختیار کرنے کوشش کریں جن سے آپﷺ سے وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں نبی کریمﷺ سے والہانہ وابستگی اختیار کرنے کی توفیق دے، آمین!