قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک وطن عزیز کی بہت سی نمایاں شخصیات دہشت گردی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ایک جلسے میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ لیاقت علی خان کی وفات بہت بڑا المیہ تھی۔ افسوس کہ ان کے قاتل گرفتار نہ ہو سکے۔ بعدازاں صدرِ مملکت جنرل ضیاء الحق کا طیارہ ایک حادثے کا نشانہ بنا۔ میرے والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کو بھی مینارِ پاکستان کے عقب میں راوی روڈ پر سیرت النبیﷺ کے ایک جلسے میں بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ آپ کے بہت سے رفقا موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جن میں مولانا حبیب الرحمن یزدانی، مولانا عبدالخالق قدوسی، مولانا محمد خان نجیب،جلسے کے منتظم جناب احسان الحق اور دیگر بہت سے افراد شامل تھے۔ والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر چند دن تک پاکستان میں زیر علاج رہے پھر آپ کو سعودی عرب منتقل کیا گیا اور ریاض کے ملٹری ہسپتال میں آپ کے علاج و معالجے پر خصوصی توجہ دی گئی لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔آپ کی وفات کی کسک آج تک آپ کے اہلِ خانہ اور چاہنے والوں کے دل میں موجود ہے۔ خوشی اور غم کے ہر لمحے میں آپ کی یاد ستاتی رہتی ہے۔ کسی بھی شخص کا حادثاتی طور پر دنیا سے چلے جانا بہت بڑے صدمے کا سبب ہوتا ہے اور اس کے خلا کو مدتِ مدید تک پُر نہیں کیا جا سکتا۔
ملک کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو ایک قتل سازش کیس میں پھانسی کی سزا دی گئی جبکہ ان کے دو صاحبزادوں مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کو دہشت گردی کے نتیجے میں غیر طبعی موت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو اس ملک کی نمایاں سیاسی رہنما تھیں، آپ پر بھی دسمبر2007ء میں لیاقت باغ کے جلسے کے بعد قاتلانہ حملہ کیا گیا اور آپ زحموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔ حکیم محمد سعید ایک نمایاں ماہرِ تعلیم تھے اور آپ نے صحت و تعلیم کے شعبوں میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔ آپ سندھ کے گورنر تھے۔ آپ کو بھی قتل کر دیا گیا،اسی طرح تکبیر کے ایڈیٹر صلاح الدین ایک نمایاں صحافی تھے‘ ان کو بھی قتل کر دیا گیا۔
مولانا ضیاء الرحمان فاروقی اور مولانا اعظم طارق کو ایک منظم حملے کا نشانہ بنایا گیا اور وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ مولانا عبدالرشید اظہر اور مولانا عطاء الرحمن ثاقب کو بھی قتل کیا گیا۔ یہ لوگ ممتاز عالم دین اور دین کے خادم تھے لیکن افسوس کہ ان کے قاتل بھی گرفتار نہ ہو سکے۔گزشتہ دورِ حکومت میں جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق اور متحرک عالم دین ڈاکٹر عادل خان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔اسی طرح ماضی قریب میں معروف صحافی ارشد شریف کو کینیا میں جس انداز میں قتل کیا گیا اس پر بھی پوری قوم نے بہت زیادہ صدمہ محسوس کیا۔ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے اور حکمرانوں کے دعووں کے باوجود اس پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا۔
ستمبر کے مہینے میں ایک نمایاں شخصیت مولانا ضیاء الرحمن مدنی‘ جو جامعہ ابی بکر کراچی کے مہتمم تھے‘ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔مولانا ضیاء الرحمن مدنی ایک بلند پایا عالم دین، زبردست منتظم اور بااخلاق شخصیت تھے۔ آپ جہاں بھی جاتے لوگ آپ کی شخصیت کے سحرمیں گرفتار ہو جاتے۔ آپ کو خدمت دین کا بہت ہی ذوق و شوق تھا اور اس کے عوض آپ کسی بھی قسم کی مادی مفاد کے طلبگار نہ ہوتے تھے۔ تقریر اور خطاب کا ہدیہ وصول کرنا تو بڑی دور کی بات‘ آپ میزبانوں کی مہمان نوازی کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے اور اکثر یہ بات کہتے کہ میری والدہ نے مجھے دین کی تبلیغ کے عوض کسی بھی قسم کے مفاد کو حاصل کرنے سے منع کیا ہے۔ آپ کے والد چودھری ظفراللہ بھی ایک بلند پایا عالم دین اور منتظم تھے اور کئی برس قبل ٹریفک کے ایک حادثے میں اپنے دو بیٹوں سمیت جاںبحق ہو گئے تھے۔ آپ اپنے بھائیوں میں سے تنہا بچے تھے اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔آپ کی بزرگ والدہ اور اہلِ خانہ کے لیے یقینا یہ بہت بڑا صدمہ ہے۔ آپ کے عقیدت مندوں نے اس تلخی اور دکھ کو بڑے گہرے انداز سے محسوس کیا ہے۔
مولانا ضیاء الرحمن مدنی فقط مسلک اہلِ حدیث کے ترجمان نہ تھے بلکہ مشترکات پر خصوصی توجہ دینے کی وجہ سے تمام اہلِ اسلام آپ کے ساتھ والہانہ وابستگی محسوس کیا کرتا تھا۔ عقیدہ ختم نبوت اور دفاعِ صحابہ کرامؓ کے لیے آپ ہمہ وقت کوشاں رہتے اور شعائرِ دین کے لیے ہمہ وقت اپنی خدمات کو پیش کیا کرتے تھے۔ آپ کا دسترخوان اور حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔مولانا ضیاء الرحمن کی وفات یقینا اہلِ کراچی اور اہلِ سندھ کے لیے بہت بڑے المیے کی خبر ہے۔ جناب حافظ مسعودعالم نے جب آپ کا جنازہ پڑھایا تو جنازہ پڑھنے والوں پر رقت طاری ہو گئی۔
مولانا ضیاء الرحمن کے قتل پر پاکستان کے تمام مذہبی طبقات نے بھرپور احتجاج کیا اور کراچی کے نمایاں علماء نے سندھ حکومت اور پولیس حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور حکومت اور پولیس سے مطالبہ کیا کہ مولانا ضیاء الرحمن کے قاتلوں کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔ حکومت نے مولانا کے قاتلوں کو جلد پکڑنے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن ماضی کا ریکارڈ اس بات کا گواہ ہے کہ اس ملک میں کسی بھی سانحے کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا نہیں مل سکی۔
اسی طرح حالیہ دنوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے نمایاں رہنما حافظ حمد اللہ کو بھی مستونگ میں بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ حافظ حمد اللہ ایک نمایاں سیاسی اور مذہبی شخصیت ہیں اور اپنے افکار کا نہایت بلیغ انداز میں اظہار کرتے ہیں۔حافظ حمد اللہ پر ہونے والے حملے نے ملک میں قانون کی گرفت اور کمزور ی کی کیفیت کو واضح کیا ہے۔ مسلسل ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور خصوصیت سے علماء کرام پر ہونے والے حملوں کی وجہ سے دینی طبقات شدید تشویش کا شکار ہیں۔ ان معاملات کو دیکھ کر مختلف طرح کے سوالات ابھرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں نجانے کب امن و امان قائم ہوگا اور ریاست کب دہشت گردی سے پاک ہو گی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے ابھی تک ان پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اگر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث مجرموں کا صحیح طریقے سے تعاقب کر کے ان کا احتساب کیا جائے تو ملک میں دہشت گردی کے واقعات پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی سزائیں دیں اور معاشرے میں امن و سکون کے قیام کو یقینی بنایا۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل کے آٹھ آدمیوں کی جماعت نبی کریمﷺ کی خدمت میں (اسلام قبول کرنے کو) حاضر ہوئی لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے لیے (اونٹ کے) دودھ کا انتظام کر دیجیے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے لیے دودھ کا اہتمام نہیں کر سکتا‘ تم (صدقہ کے) اونٹوں میں چلے جاؤ۔ ان کا دودھ وغیرہ پیو تاکہ تمہاری صحت ٹھیک ہو جائے۔ وہ لوگ وہاں چلے گئے اور جب اونٹوں کا دودھ پی کر تندرست ہو گئے تو انہوں نے اونٹوں کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگ نکلے اور اسلام لانے کے بعد کفر کیا۔ ایک شخص نے اس کی خبر آنحضرتﷺ کو دی جس پر آپﷺ نے ان کی تلاش کے لیے سوار دوڑائے‘ دوپہر سے پہلے ہی وہ سوار انہیں پکڑ کر لے آئے۔ ان قاتلوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور پھر آپﷺ کے حکم سے ان کی آنکھوں میں سلائی گرم کر کے پھیر دی گئی (انہوں نے بھی چرواہے کو اسی طرح قتل کیا تھا) اور انہیں حرہ (مدینہ کی پتھریلی زمین) کے علاقے میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا گیا یہاں تک کہ وہ سب مر گئے۔
2۔صحیح بخاری ہی میں حضرت انسؓ سے روایت ہے ایک یہودی نے ایک انصاری لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ لڑکی کو اس حالت میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں لایا گیا کہ ابھی اس کی چند سانسیں باقی تھیں۔ اس سے پوچھا گیا کہ تمہارا سر اس طرح کس نے کیا ہے، کیا فلاں شخص نے کیا !فلاں نے کیا !آخر اس یہودی کا نام لیا گیا جس نے اس کا سر کچلا تھا‘ جس پر لڑکی نے سر کے اشارے سے اثبات میں جواب دیا۔ پھر اس یہودی کو بلایا گیا جس نے آخرکار اقرارِ جرم کر لیا اور نبی کریمﷺ کے حکم سے اس کا سر بھی پتھر سے کچل دیا گیا۔
اگر ملک میں حقیقتاً قانون کی عملداری ہو اور سنگین نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی سزائیں دی جائیں تو معاشرے سے خود بخود جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے اُمید ہے کہ اربابِ اقتدار اپنی ذمہ داریوں کو ادراک کریں گے اور انہیں بھرپور انداز میں نبھائیں گے۔ معاشرے کو امن و سکون کا گہوارا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مجرموں کو کڑی سزائیں دی جائیں تاکہ ملک دہشت گردی سے پاک ہو سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کو دہشت گردی سے پاک کرکے امن و آشتی کا گہوارہ بنا دے، آمین !