اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو صفتِ کلام سے متصف فرمایا اور یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی انسانوں پر بہت بڑی عطا ہے کہ انسان اپنے احساسات، جذبات، درد، ارادوں، عزائم، امیدوں اور عقائدکا اظہار اپنی زبان کے ذریعے کر سکتا ہے۔ زبان اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک ایسی عطا ہے جس کی وجہ سے انسان لوگوں کے دلوں کو جیت لیتا ہے، اور اسی زبان کی وجہ سے لوگوں کی نفرتوں کو بھی سمیٹ لیتا ہے۔ دورِ حاضر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد زبان کا درست استعمال کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ ہم بہت سے لوگوں کے جذبات و احساسات کو اپنی زبان کے ذریعے مجروح کر دیتے ہیں، بہت سے لوگوں کی توہین اور تحقیر کر دیتے ہیں اور اس بات کو معمولی سمجھتے ہیں جبکہ یہ معاملات معمولی نوعیت کے نہیں ہیں بلکہ ان پر انسان کو بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیثِ طیبہ میں اس حوالے سے بہت سی قیمتی نصیحتیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔
اس حوالے سے نبی کریمﷺ کی ایک حدیث غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''جو شخص مجھے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کی ذمہ داری دیدے ‘میں اس کے لیے جنت کی ذمہ داری دے دوں گا‘‘۔ اس حدیث پاک سے اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ زبان کی انسانی زندگی میں کس قدر اہمیت ہے۔ ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اپنی زبان کو درست طریقے سے استعمال کرکے اپنے لیے دنیا و آخرت کی سربلندی کے راستوں کو ہموار کر لیں۔ جب ہم زبان کے درست استعمال پرغور کرتے ہیں تو بہت سی ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جہاں انسان زبان کا درست استعمال کرکے دنیا و آخرت کی بھلائیوں کو سمیٹ سکتا ہے۔ اس حوالے سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
(1) ذِکر الٰہی: انسان کو ہمہ وقت اپنی زبا ن کو ذِکر الٰہی سے تر رکھنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں انسان کو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیات 41 تا 43 میں ارشاد فرماتے ہیں ''مسلمانو! اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت زیادہ کرو۔ اور صبح و شام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔وہی ہے جو تم پر اپنی رحمتیں بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے (تمہارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں) تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لے جائے اور اللہ مومنوں پر بہت ہی مہربان ہے‘‘۔ ذکرِ الٰہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلا م کی تلاوت اور احادیثِ طیبہ میں مذکور مسنون اذکارشامل ہیں۔ ہمیں ان اذکار پر مداومت اختیار کر کے اپنے لیے دنیا و آخرت کی سربلندی کو حاصل کرنا چاہیے۔
(2) تبلیغِ دین: اللہ تبارک و تعالیٰ کے دین کی تبلیغ کرنا اور اس حوالے سے اپنی زبان کو استعمال میں لانا‘ یہ زبان کا انتہائی خوبصورت استعمال ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حم السجدہ کی آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقینا مسلمانوں میں سے ہوں‘‘۔ دعوتِ دین ایک ایسا عظیم عمل ہے جس کو انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور آئمہ دِین نے انجام دیا۔ اس لیے اس عمل کو انجام دینے والا انسان یقینا ہر اعتبار سے خوش نصیب ہے۔
(3) خوش اخلاقی: انسان کو زبان کے ذریعے اپنے اچھے اخلاق کا اظہار کرنا چاہیے اور ہر ایک کے ساتھ نرمی، پیار و محبت اور خیر خواہی والا معاملہ کرنا چاہیے۔ جو لوگ نرمی کا اظہار کرتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ خو ش اخلاقی سے پیش آتے ہیں یقینا وہ ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ ساتھ مخلو ق کی محبتوں کو سمیٹ لیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا ذِکر نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کے حوالے سے قرآن مجید کی سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 159 میں کیا ہے ''(اے رسول) اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں اور اگر آپ بدزبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھٹ جاتے، سو آپ ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے استغفار کریں اور کام کا مشورہ ان سے کیا کریں، پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے۔ سنن ابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''اللہ عزوجل رفق اور نرمی سے موصوف ہے‘ اسے نرمی اور نرم خوئی پسند ہے۔ وہ اس پر وہ کچھ عنایت فرماتا ہے جو ترشی اور کرختگی پر نہیں دیتا‘‘۔
زبان کے درست استعمال کے ساتھ ساتھ زبان کے بہت سے منفی استعمال بھی ہیں جن سے انسان کو رُک جانا چاہیے۔ اس حوالے سے کتاب و سنت میں بڑی واضح راہ نمائی موجود ہے‘ جن میں سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں۔
(1)استہزا سے گریز : انسان کو دوسروں کا مذاق اڑانے سے گریز کرنا چاہیے۔یہ انتہائی قابلِ مذمت فعل ہے کہ انسان دوسرے کا استہزا کرے اور اس کے غلط قسم کے نام رکھے۔ اس حوالے سے سورۃ الحجرات میں بڑی واضح راہ نمائی کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 11 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں‘‘۔
(2) غیب سے احتراز: غیبت کرنا انتہائی برا فعل ہے۔ کتاب و سنت میں غیبت کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 12 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو، یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا‘ مہربان ہے‘‘۔
(3) بہتان طرازی سے گریز: بہتان طرازی انتہائی غلط عمل ہے اور انسان کو کسی کی کردارکشی کرنے سے ہمہ وقت گریز کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی سورۃ النور میں اُن لوگوں کے لیے حدِ قذف کا ذکر کیا ہے جو مومنہ عورتوں کی کردار کشی کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النور کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں ''جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسّی کوڑے لگاؤ اور (پھر) کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، یہ فاسق لوگ ہیں‘‘۔
(4)جھوٹ: زبان کی آفتوں میں سے ایک بڑی آفت جھوٹ کا بولنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کاروباری معاملات ہوں، دنیا داری کے معاملات ہوں یا سیاسی معاملات‘ جھوٹ کا بکثرت استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں قولِ سدید کا حکم دیا ہے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیات 70 تا 71 میں ارشاد فرماتے ہیں ' 'اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو، تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پا لی‘‘۔
جھوٹ کی مذمت میں ایک اہم حدیث درج ذیل ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف راہ نمائی کرتی ہے، اور نیکی جنت کی طرف راہ نمائی کرتی ہے، آدمی سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کا متلاشی رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے ہاں صدیق (بہت سچا) لکھ دیا جاتا ہے، اور تم جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ گناہوں کی طرف راہ نمائی کرتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں، آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا طلبگار رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے‘‘۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے، فرمایا: ''بے شک سچ نیکی ہے، اور نیکی جنت کی طرف راہ نمائی کرتی ہے، اور بے شک جھوٹ گناہ ہے، اور گناہ جہنم کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں‘‘۔ (متفق علیہ)
(5) بے حیائی: انسان کو اپنی زبان سے بے حیائی کی نشر و اشاعت سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ اللہ کے نبیﷺ نے ہمیشہ انسانوں کو حیاداری کا درس دیا۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک آدمی سے سنا جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا، تو آپﷺ نے فرمایا ''(حیا سے مت روکو) حیا ایمان میں سے ہے‘‘۔ نبی کریمﷺ نے حیا کی اہمیت کو اس حد تک اجاگر کیا کہ شوہر اور بیوی کے ازدواجی تعلقات کو بھی امانتاً رکھنے کا ذکر کیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''قیامت کے دن، اللہ کے ہاں لوگوں میں مرتبے کے اعتبار سے بدترین وہ آدمی ہو گا جو اپنی بیوی کے پاس خلوت میں جاتا ہے اور وہ اس کے پاس خلوت میں آتی ہے پھر وہ (آدمی) اس کا راز افشا کر دیتا ہے‘‘۔
ان اہم نکات کو مدنظر رکھ کے انسان ایک مثالی انسان کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مخلوق کی محبت کو سمیٹنے کے بھی قابل ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں زبان کے درست استعمال کو اختیار کرنے کی توفیق دیں، آمین!