انسان مختلف طرح کے مصائب اور مشکلات کا شکار رہتا ہے اور پوری زندگی کے دوران وقفے وقفے سے مختلف طرح کی مصیبتیں اُس پر حملہ آور ہوتی رہتی ہیں۔ کہیں مالی نقصانات ہیں تو کہیں بیماریاں‘ اسی طرح کئی مرتبہ فصلوں‘ پھلوں حتیٰ کہ جانوں کے نقصان سے بھی انسانوں کو گزرنا پڑتا ہے۔ کئی مرتبہ یہ مصیبتیں انسان کے گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں اور کئی مرتبہ انسان پر آزمائش بن کر آتی ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید کے مختلف مقامات پر کیا ہے۔ سورۃ الشوریٰ کی آیت 30 میں ارشاد ہوا ''اور جو بھی تمہیں مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا‘‘۔ اسی طرح سورۃ الروم کی آیت 41 میں ارشاد ہوا ''خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہو گیا، اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ انسانوں کے اپنے اعمال کی وجہ سے انسان مختلف مصیبتوں کی زَد اور لپیٹ میں آتا رہتا ہے۔ یہ مصیبتیں انسان کو کئی مرتبہ پوری طرح جکڑ لیتی ہیں اور انسان ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر‘ بالکل بے بس اور مجبور ہو جاتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیات 155 تا 157 میں اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتے ہیں؛ چنانچہ ارشاد ہوا ''اور یقینا ہم تمہیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی (میں سے کسی نہ کسی چیز) کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دو۔ وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے توکہتے ہیں: بے شک ہم اللہ کے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پھلوں، جانوں اور دیگر نقصانات کے ذریعے انسانوں کو آزمائیں گے اور انسانوں کو جانچیں گے تاکہ انسانوں کے صبر کا امتحان لیا جا سکے۔ جب انسان مصائب اور مشکلات کے مقابلے میں بالکل بے بس ہو جاتا ہے اور مادی ذرائع سے بھی مشکلات پر قابو نہیں پا سکتا تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے نتیجے میں اس کے مصائب کے حل ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ کتاب و سنت میں بہت سی ایسی تدابیر بتلائی گئی ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان مصائب و مشکلات سے باہر نکل سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التغابن کی آیت 11 میں بیان فرماتے ہیں ''کوئی مصیبت نہیں پہنچی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کا ایمان اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر مستحکم ہوتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی رہنمائی کرتے ہیں اور انسان اپنے مسائل پر قابو پانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ کتاب و سنت میں مصائب سے نکلنے کی بہت سی تدابیر موجود ہیں جن میں دو اہم تدابیر اللہ تبارک وتعالیٰ کا ''ذکر‘‘ اور ''دُعا‘‘ ہیں۔ ذکر اور دعا پہ مداومت اختیار کرنے والے لوگ اپنے جملہ مصائب پر قابو پانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ذکرِ الٰہی کے فوائد کے حوالے سے قرآنِ مجید میں بہت سی آیات کا نزول فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 152 میں ارشاد فرماتے ہیں ''سو تم مجھے یاد کرو‘ میں تمہیں یاد کروں گا‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیات 41 تا 43 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کو یاد کرو، بہت کثرت سے۔ اور اس کی تسبیح کرو، پہلے پہر اور پچھلے پہر۔ وہی ہے جو تم پر صلوٰۃ بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے، تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائے اور وہ ایمان والوں پر ہمیشہ سے نہایت مہربان ہے‘‘۔ مذکورہ آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان کثرت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی زندگی کے اندھیروں کو دور فرما کر اس کو روشنی کے راستوں پر چلا دیتے ہیں۔ پریشانیاں یقینا اندھیروں کی مانند ہوتی ہیں‘ ان پریشانیوں اور مشکلات سے نکلنے کے بعد انسان روشن راستوں کی طرف چل نکلنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
احادیث مبارکہ میں بھی ذکر کرنے کی بڑی تلقین اور رغبت دلائی گئی ہے۔ جب انسان مسلسل مشکلات کے دوران اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندۂ مومن و مسلمان کے مصائب کو حل کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الانبیاء کی آیت 87 میں حضرت یونس علیہ السلام کے دعائیہ ذکر کو بیان فرمایا کہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے تو انہوں نے ذکر کیا ''تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، یقینا میں ظلم کرنے والوں سے ہو گیا ہوں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی دعا سن کر ان کے غم کو دور کر دیا اور ساتھ یہ بھی واضح فرما دیا کہ اللہ اہلِ ایمان کے غموں کو دور فرما دیتے ہیں۔ سورۃ الانبیاء کی آیت 88 میں ارشاد ہوا ''تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم ایمان والوں کو نجات دیتے ہیں‘‘۔ ذکر کرنا مسلمان کی شان ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی آیت191 میں فرماتے ہیں ''مومن و مسلمان کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوئوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں‘‘۔ ذکرِ الٰہی در حقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت کی علامت ہے‘ اس لیے کہ انسان کو جب کسی شخصیت سے پیار ہوتا ہے تو اس کا کثرت سے ذکر کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے محبوبِ حقیقی ہونے چاہئیں اور انسان کو کثرت سے ان کا ذکر کرنا چاہیے۔ جب انسان کثرت سے ذکر کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے مصائب اور تنگیوں کو دور فرما دیتے ہیں۔
جس طرح کثرت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے اسی طرح رب العالمین کی بارگاہ میں دعائیں بھی مانگتے رہنا چاہیے۔ دعا کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت 186 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الفرقان کی آیت 77 میں بھی یہ بات ارشاد فرمائی ''کہہ میرا رب تمہاری پروا نہیں کرتا اگر تمہارا پکارنا نہ ہو‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا مانگتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے مسائل کو حل کر دیتے ہیں لیکن جب وہ دعا نہیں مانگتا تو اللہ تعالیٰ کو ایسے انسان کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ سورۃ المومن کی آیت 60 میں اللہ تبارک وتعالیٰ بیان فرماتے ہیں ''بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ کثرت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعائیں مانگا کرتے تھے، چنانچہ جنت سے زمین پہ آنے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام پہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی رحمتوں کا نزول ان کی دعا کی وجہ سے کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی دعا کی وجہ سے اللہ نے ان کی فریاد رسی کی اور ظالموں اور کافروں پر اپنے عذابِ علیم کو مسلط کر دیا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بہت سی دعاؤں کو قبول و منظور فرمایا، ان کے لیے آتشِ نمرود کو ٹھنڈا کیا گیا اور بڑھاپے میں ان کو اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے بھی نوازا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین کے گھاٹ پر جب اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاگو ہوئے تو اللہ نے رزق کے ساتھ ساتھ وہاں پر ان کے لیے بہترین رہائش کا بندوبست بھی فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو قبول و منظور فرماتے ہوئے ان کو حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسی اولاد سے نوازا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بدر کے موقع پر نبی کریمﷺ کی دعا کی بدولت آپﷺ کی نصرت فرمائی۔ دعا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ انبیاء کرام علیہم السلام کی دعاؤں کو قبول و منظور فرمانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دعاؤں کو بھی قبول و منظور فرماتے رہے۔ جب بھی اہلِ ایمان نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے اپنے ہاتھوں کو پھیلایا تو اللہ تعالیٰ نے کبھی ان کو خالی واپس نہیں جانے دیا۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بھی حضرت خولہؓ کے واقعے کا ذکر کیا کہ جن کے شوہر نے اُن کو اپنی ماں کہہ دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرما کر مسئلے میں وسعت پیدا کر دی اور رجوع کے امکانات کو پیدا فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المجادلہ کی پہلی آیت میں ارشاد فرماتے ہیں ''یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی اور اللہ کی طرف شکایت کر رہی تھی اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر دور میں اپنے مسلمان بندوں کی مدد فرمائی۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں مذکور ایک اہم واقعہ درج ذیل ہے: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: تین شخص کہیں جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی (اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے)۔ اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا‘ جو تم نے کبھی کیا ہو‘ نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ مختصراً یہ کہ ان تینوں افراد نے دعا کی اور آہستہ آہستہ وہ پتھر غار کے دہانے سے ہٹ گیا اور وہ تینوں شخص باہر آ گئے۔ اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ مسلمانوں اور مومن بندوں کی دعاؤں کو سن کر اُن کی مدد فرماتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں بھی ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے اور دعا مانگتے رہنا چاہیے۔ یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے ہمارے مسائل کو حل کر دیں گے۔