14 فروری کو دنیا بھر میں ویلنٹائنز ڈے منایا جاتا ہے جس میں نوجوان مرد و خواتین اپنے شناساؤں اور واقف کاروں کو تحفے تحائف دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اسلام میں مرد و زَن کی دوستی اور اختلاط کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اسلام کا پیغام حیا‘ عفت اور عصمت کا پیغام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بہت سے مقامات پر تزکیہ نفس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاعلیٰ کی آیات 14 تا 15 میں ارشاد فرماتے ہیں ''بیشک وہ کامیاب ہو گیا جو پاک ہو گیا۔ اور اس نے اپنے رب کا نام یاد کیا‘ پس نماز پڑھی‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت 32 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور زنا کے قریب نہ جاؤ‘ بے شک وہ ہمیشہ سے بڑی بے حیائی اور برا راستہ ہے‘‘۔ سورۃ الانعام کی آیت 151میں بھی ارشاد ہوا کہ ''اور بے حیائیوں کے قریب نہ جاؤ‘ جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ پر غور و خوض کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فحاشی اور منکرات کے کاموں کو انتہائی ناپسند فرماتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک مستقل سورہ مبارکہ فحاشی کے انسداد کے لیے اتاری جس کا نام ''النور‘‘ ہے۔ سورۃ النور میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن تمام اقدامات کا ذکر کیا جن پر عمل پیرا ہوکرمعاشرے میں فحاشی‘ بے حیائی اور بدکرداری کو روکا جا سکتا ہے۔ وہ اہم نکات جن کو سورۃ النور میں بیان کیا گیا ہے‘ درج ذیل ہیں؛
(1) نگاہوں کی حفاظت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النور میں بڑی صراحت کے ساتھ مرد و زَن کو اپنی نگاہیں جھکانے کا حکم دیا۔ سورۃ النور کی آیت 30 میں ارشاد ہوا ''مومن مردوں سے کہہ دیں اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔بیشک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں‘‘۔ اسی طرح آیت 31 میں ارشاد ہوا کہ ''اور مومن عورتوں سے کہہ دیں اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘‘۔
(2) پردہ داری: اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النور کی آیت 31 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے‘ یا اپنے باپوں‘ یا اپنے خاوندوں کے باپوں‘ یا اپنے بیٹوں‘ یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں‘ یا اپنے بھائیوں‘ یا اپنے بھتیجوں‘ یا اپنے بھانجوں‘ یا اپنی (جیسی) عورتوں (کے لیے)‘ یا (ان کے لیے) جن کے مالک ان کے داہنے ہاتھ بنے ہیں‘ یا تابع رہنے والے مردوں کے لیے‘ جو شہوت والے نہیں‘ یا ان لڑکوں کے لیے جو عورتوں کی پردے کی باتوں سے واقف نہیں ہوئے اور اپنے پائوں (زمین پر) نہ ماریں‘ تاکہ ان کی وہ زینت معلوم ہو‘ جو وہ چھپاتی ہیں اور اے مومنو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو‘ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘۔
(3) خلوت کے اوقات میں بچوں اور گھریلو ملازموں کو رہائشی کمروں میں آنے سے روکنا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے برائی کی روک تھام کے لیے کم سن بچوں اور ملازموں کو ایسے مناظرکو دیکھنے سے بچانے کے لیے بھی بڑے خوبصورت احکامات نازل کیے ہیں کہ جن سے ان کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تین اوقات کو خلوت کے اوقات قرار دے کر ان میں بلااجازت داخلے کو منع فرمایا ہے۔ سورۃ النور کی آیت نمبر 58 میں ارشاد ہوا: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! چاہیے کہ اجازت طلب کریں تم سے وہ لوگ جن کے مالک بنے تمہارے داہنے ہاتھ اور وہ لوگ (بھی) جو نہ پہنچے ہوں بلوغت کو تم میں سے‘ تین مرتبہ (یعنی تین اوقات میں) فجر کی نماز سے پہلے اور جب تم اتار دیتے ہو اپنے کپڑے دوپہر کو اور عشاء کی نماز کے بعد‘ (یہ) تینوں پردے (خلوت) کے اوقات ہیں تمہارے لیے‘‘۔
(4) تہمت طرازی کرنے والوں پر حدِ قذف: معاشرے میں اگر کوئی بندہ کسی پرجھوٹا الزام لگاکر اُس کو بدنام کرنا چاہتا ہے تو ایسا شخص درحقیقت فحاشی کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کرتا ہے‘ ایسے شخص کے لیے اسلام میں حدِ قذف مقرر کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النور کی آیت 4 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں‘ پھر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں اسی (80) کوڑے مارو اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور وہی نافرمان لوگ ہیں‘‘۔
(5) بدکرداری کی روک تھام کے لیے حدود کا نفاذ: اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے سورۃ النور کی آیت 2 میں بدکردار مرد و عورت کے لیے 100 کوڑوں کی حد کا نزول فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا ''جو زنا کرنے والی عورت ہے اور جو زنا کرنے والا مرد ہے‘ سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تمہیں ان کے متعلق اللہ کے دین میں کوئی نرمی نہ پکڑے‘ اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور لازم ہے کہ ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہو‘‘۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں شادی شدہ افراد کے لیے سنگسار کی سزا کو مقرر کیا گیا ہے۔
(6) کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا: معاشرے میں بے راہ روی اور برائی کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ غیر محرم لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اختلاط بھی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس اختلاط کو روکنے کے لیے اہلِ ایمان کو اس بات کی نصیحت کی ہے کہ جب وہ کسی کے گھر میں داخل ہوں تو بلا اجازت داخل نہ ہوں‘ اگر وہ کسی کے گھر میں جائیں تو ان کو داخلے سے پہلے اجازت لینی چاہیے تاکہ وہ گھر کی پرائیویسی میں مداخلت نہ کریں۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ سورۃ النور کی آیات 27 تا 29 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ داخل ہوا کرو (دوسرے) گھروں میں اپنے گھروں کے علاوہ یہاں تک کہ تم انس حاصل کر لو (یعنی اجازت لے لو) اور سلام کر لو ان کے رہنے والوں کو‘ یہی بہتر ہے تمہارے لیے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ پھر اگر تم نہ پاؤ ان میں کسی ایک کو تو تم نہ داخل ہو ان میں یہاں تک کہ تم کو اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے: واپس ہو جاؤ‘ تو واپس ہو جایا کرو۔ وہ پاکیزہ ہے تمہارے لیے‘ اور اللہ اس کو‘ جو تم عمل کرتے ہو‘ خوب جاننے والا ہے۔ نہیں ہے تم پر کوئی گناہ کہ تم داخل ہو جاؤ (ایسے) گھروں میں (کہ) رہائش نہیں کی گئی ان میں (اور ان میں) تمہارے فائدے کی کوئی چیز ہو‘ اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور تم چھپاتے ہو‘‘۔
احادیث مبارکہ میں بھی حیا کی اہمیت کو بہت اجاگر کیا گیا‘ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
(1) صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ''ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔ (2) صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک آدمی سے سنا جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا‘ آپﷺ نے فرمایا ''(حیا سے مت روکو) حیا ایمان میں سے ہے‘‘۔
14 فروری کو دنیا بھر میں ویلنٹائنز ڈے کے نام پر جس انداز سے اختلاط اور بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے‘ اس حوالے سے اہلِ اسلام کو کتاب و سنت کی تعلیمات کو مقدم رکھتے ہوئے حیا اور پاکدامنی کے کلچر کو عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کتاب و سنت کے احکامات پر عمل کرکے ہی معاشرے سے فحاشی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کو ایک پاکیزہ معاشرے میں تبدیل فرمائے اور ہمارے نوجوانوں کو اچھے کردار والی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین!