کسی بھی ریاست کے استحکام کیلئے تین شعبوں کا مستحکم ہونا نہایت ضروری ہے۔ جب تک معیشت‘ سیاست اور امن و امان کی صورتحال مثالی نہ ہو‘ اُس وقت تک کوئی ریاست مستحکم نہیں ہو سکتی۔ پاکستان ہمارا دیس ہے‘ جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اَن گنت نعمتوں کو سمو رکھا ہے۔ یہاں کی فصلیں سونا اُگلتیں‘ یہاں ہر طرح کے موسم اور بیش قیمت معدنی ذخائر موجود ہیں لیکن دکھ اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ ہمارا ملک معاشی اعتبار سے روز بروز کمزور ہو رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری درآمدات و برآمدات میں توازن نہیں ہے۔ پاکستانی قوم مجموعی طور پر برانڈز کے بارے میں بہت حساس ہو چکی ہے اور معیار کے بجائے برانڈز کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے جبکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں داخلی سطح پر مصنوعات کو تیار کیا جاتا ہے‘ اس سے صنعتکاری کو فروغ ملتا اور لوگوں کو ملازمت کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تاحال ملبوسات‘ جوتے اور کاسمیٹکس جیسی چیزوں کی درآمدات جاری و ساری ہیں۔ ہمارے ملک میں اچھے کارخانے لگاکر اِن اشیا کو بہ آسانی تیار کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی معیشت کی گراوٹ کی ایک بہت بڑی وجہ توانائی کا بحران ہے۔ توانائی کے بحران سے عہدہ برآ ہونے کیلئے حکومتیں گزشتہ کئی عشروں سے کوئی مستحکم لائحہ عمل تیار کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ ملک میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی پیداوار پر بھی خاطرخواہ توجہ نہیں دی جاتی حالانکہ یہاں شمسی توانائی کا حصول انتہائی آسان ہے۔ برطانیہ سمیت یورپ کے بہت سے ممالک میں شمسی توانائی کے ذریعے توانائی کی ضروریات کو پورا کیا جا رہا ہے حالانکہ وہاں پر بارانی موسم ہے اور آئے دِن افق پر بادل چھائے رہتے ہیں۔ پاکستان کے ساحلی اور بہت سے پہاڑی علاقوں میں تیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ اگر یہاں پون (ہوائی) چکیاں لگائی جائیں تو انتہائی سستے داموں توانائی اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال موسلا دھار بارشیں برستی ہیں جن کی وجہ سے بہت سے نشیبی علاقے سیلاب کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اگر ان علاقوں میں چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تو پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہاں اکثر ڈیموں کی مخالفت فقط سیاسی اور علاقائی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ اگر اِن ذرائع کے ساتھ ساتھ جوہری توانائی کو بھی استعمال میں لایا جائے تو پاکستان کی توانائی کی ضروریات بہ آسانی پوری ہو سکتی ہیں۔
پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کی ایک بہت بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ آئے روز حکومتوں کی تبدیلیاں‘ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور انانیت کی جنگوں کی وجہ سے مضبوط اقتصادی پلاننگ نہیں کی جاتی۔ سابقہ ادوار کے مثبت پروجیکٹس کو بھی فقط سیاسی مخالفت کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور کم فائدہ نئے پروجیکٹس کو فقط اپنی انانیت کے اظہار کیلئے شروع کرکے عوام الناس کا مسیحا بننے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے معاشی حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ معیشت کی خرابی کی ایک کلیدی وجہ سودی لین دین ہے۔ سودی لین دین ملک میں بے برکتی کا سبب ہے اور اللہ اور اسکے رسولﷺ کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔ جب تک ہم سودی لین دین سے نجات حاصل نہیں کریں گے ‘ملکی معیشت مستحکم نہیں ہو سکتی۔
جہاں تک تعلق ہے ملک کی سیاسی صورتحال کا‘ تو ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی معاملات بہتر نہیں ہیں۔ ہر الیکشن کے بعد مختلف طرح کے خدشات اور شکایات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ 1970ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں ہمارا ملک سیاسی کشمکش کا شکار ہوکر دولخت ہو گیا۔ 1977ء کے انتخابات میں ہونے والی کھلی دھاندلی کی وجہ سے ایک قومی تحریک چلی جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں ملک کی ایک بڑی جماعت 'پیپلز پارٹی‘ اپنے مینڈیٹ سے محروم ہو گئی۔ بعد ازاں بھی پاکستان کے انتخابی عمل کے حوالے سے مختلف طرح کے تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا۔ 2013ء کے انتخابات پر پاکستان تحریک انصاف نے عدم اطمینان کا اظہار کرکے بھرپور تحریک چلائی۔ 2018ء میں تحریک انصاف برسرِ اقتدار آ گئی لیکن افسوس کہ ملکی مسائل کے حل کیلئے کسی جامع منصوبے کو لانچ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ بعد ازاں وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے حکومت کو ختم کر دیا گیا‘ اس کے نتیجے میں ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہوا اور ملک بھر میں سیاسی کشمکش عروج پر پہنچ گئی۔ مسلم لیگ اور اُس کی حلیف جماعتوں کی حکومت 16 ماہ کے عرصے کے دوران عوام کو کوئی جامع اقتصادی پلان اور ریلیف دینے سے قاصر رہی۔
فروری 2024ء کے انتخابات کے بارے میں بھی طرح طرح کے سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں۔ فارم 45 اور فارم47 میں مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے مختلف طرح کے ٹھوس تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں ملک کی مذہبی جماعتیں اس حوالے سے شدید تحفظات کا شکار ہیں‘ ان کا ماننا ہے کہ مذہبی قیادت کو ایک منظم سازش کے تحت دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی گئی۔ کئی حلقوں میں انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی باتیں بھی منظرعام پر آ چکی ہیں جس کی وجہ سے انتخابی عمل کے حوالے سے عوام شدید قسم کی تشویش کا شکار ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ایک پارٹی کا امیدوار بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد اپنی پارٹی تبدیل کر لیتا ہے جس کی وجہ سے عوام میں غم و غصہ اور اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ انتخابات کا شفاف ہونا ملک کی سیاسی ترقی اور استحکام کیلئے انتہائی ضروری ہے مگر افسوس کہ کئی عشروں سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کیا جا سکا۔ انتخابی نتائج کو چوبیس‘ چوبیس گھنٹوں تک معطل رکھا جاتا ہے اور پھر جب نتائج سامنے آتے ہیں تو اُن میں کئی حیرت انگیز انکشافات موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے عوام الناس کے اذہان میں ابہام اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے بارے میں بھی تاثر ہے کہ اس کو مختلف حوالے سے دباؤ میں لایا جاتا ہے‘ اس کے سینئر‘ جونیئر اراکین پر مختلف الزامات بھی سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ ملکی استحکام کی یہی صورت ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ملنے والے مینڈیٹ کو متعلقہ جماعت کے حوالے کیا جائے تاکہ عوام الناس میں اعتماد‘ یقین اور اطمینان کی کیفیت پیدا ہو سکے اور کاروباری اور معاشی اعتبار سے ملک ایک ہموار راستے پر چل نکلے۔
امن و امان کی صورتحال گزشتہ کچھ عرصے سے دگرگوں ہے جس کی بنیادی وجہ کرپشن اور جرم و سزا کے نظام کا کمزور ہونا ہے۔ جرم و سزا کے نظام کا بہتر ہونا امن و امان کی صورتحال کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ نفاذِ امن کیلئے بااثر مجرموں کا کڑا احتساب اور اونچ نیچ کا فرق کیے بغیر قوانین کو نافذ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالے سے نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ کا ایک واقعہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بنت اسود) نے غزوہ فتح کے موقع پر چوری کر لی‘ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم آپﷺ کے پاس سفارش لے کر آئے تو آپﷺ نے فرمایا: اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپﷺ نے خطبہ دیا کہ پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔
اگر معاشی‘ سیاسی اور امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے پاکستان میں مثبت پیش رفت ہو تو یقینا پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم ریاست میں تبدیل ہوکر دنیا میں قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔